تاریخی شہر استنبول میں ۔ ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار

اگر ان کے علماء کو بھی شمار کیا جائے تو اس تنظیم سے وابستہ علماء کی تعداد دس ہزار تک پہنچتی ہے۔ ا س تنظیم نے راقم السطور کو نہ صرف رکنیت عطا کی ، بلکہ استنبول میں علماء کی کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ اس وقت اگر دنیا میں خاص طور پر مصر وعراق و فلسطین اور لیبیا کے سیاسی حالات ناگفتہ بہ ہیں ، اس خزاں رسیدہ عرب دنیا کی موجودہ غم انگیز صورت حال میں استنبول کی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ پھول کھل اٹھے ہوں اور ویرانہ میں بہار آگئی ہو اور شام غم میں صبح عید کا یا نور امید کا جلوہ نظر آگیا ہو ۔خوشی اس بات کی تھی کہ ان جید علماء سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کا موقع ملے گا جو عالم اسلام پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔اہل علم اور مفکرین سے مل کر غنچہ دل شگفتہ ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر کے فتح کی خوش خبری دی تھی (لتفتحنّ القسطنطینیۃ ، فلنعم الأمیر أمیرھا ، ولنعم الجیش جیشھا ۔ یعنی تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ کو فتح کروگے اور خوشا اس کا امیر اور خوشا اس کا فتح کرنے والا لشکر) ۔ اس شہر پر حضرت امیر معاویہ کے زمانے میں سب سے پہلے حملہ کیا گیا اور حضرت ابو ایوب انصاری اس لشکر میں شریک تھے، لیکن اس شہر کو فتح کرنے کی سعادت اللہ تعالی نے سلطان محمد فاتح کی قسمت میں لکھی تھی، اس نے اس شہر کو دار الحکومت بنایا اور اب یہ شہر استنبول کے نام سے معروف ہے ، عالمی تنظیم الاتحاد العالمی کی کانفرنس اسی شہر استنبول میں منعقد ہورہی تھی ، کانفرنس کا موضوع ’’ امت کی ترقی اور اس کی سر بلندی میں علماء کا کردار ‘‘ تھا ، اس وقت موسم بھی معتدل تھا اور قدرت کا حسن وجمال بھی نقطۂ عروج کو چھورہا تھا۔ ہندوستان کی معروف شخصیات میں مولانا جلال الدین عمری ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور مولانا عنایت اللہ سبحانی کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ترکی کے اور عرب ملکوں کے علماء موجود تھے۔مجھے اقبال کا مصرعہ یاد آرہا تھا ’’شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی‘‘۔
عرب دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں سب سے متوازن موقف قطر کا اور ترکی کا ہے، یہ ترکی ہے جس نے سیریا کے پندرہ لاکھ مظلوموں کو پناہ دے رکھی ہے اور تین سال سے ان کی مہمان نوازی کر رہا ہے ، اس کانفرنس پر انہیں دونوں حق پسند اور منصف مزاج ملکوں کا سایۂ ہمایونی ہے، جو علماء اس میں شریک ہوئے وہ اپنے اپنے ملکوں میں محترم اور ان کی حق گوئی مسلّم ہے ۔ ترکی کا اور عربوں کی تاریخ کا دھارا پانچ سو سال تک مشترک طور پر بہتا رہا، ۱۵۳۴ء میں سلیمان قانونی نے بغداد فتح کیا تھا اور ۱۹۰۹ء میں سلطان عبد الحمید ثانی کو معزول کیا گیا تھا، اس پورے عرصہ میں ترکوں اور عربوں کی تاریخ ایک قالب میں ڈھلتی رہی ہے ، ترکوں کی خلافت کو ختم کرنے میں انگریزوں کی سازش کام کرتی رہی ہے، لارنس آف عربیہ نے عربوں کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا، عرب اس سازش کے شکار ہوئے، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ یورپ کی قوموں نے اپنی اپنی حکومتیں عالم عرب کے مختلف خطوں میں قائم کرلیں،استعمار کا جال بچھا دیا۔ ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے نہ صرف اسلامی خلافت ختم کی ، بلکہ پورے ملک کو لادینیت کے راستے پر چلانا شروع کیا، عربی رسم الخط کو بدلا، عربی میں اذان کو ممنوع قرار دیا گیا اور سروں پر ہیٹ رکھ دیا گیا، لیکن ترکوں کے اندر دین سے محبت کا تخم موجود تھا ۔۲۰۰۲ء میں پھر اس ملک میں انقلاب آیا اور اب یہ ملک نجم الدین اربکان اور ان کے بعد عبد اللہ گل اور رجب طیب اردغان کی حکیمانہ کوششوں سے اسلامیت کی جانب گامزن ہے، لیکن جس طرح دنیائے اسلام نے ترکی سے بہت سی توقعات وابستہ کی ہیں اسی طرح سے یہ ملک یورپ اور امریکہ کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ عیسائی دنیا اس بات کو فراموش نہیں کرسکتی ہے کہ رومن امپائر اور بازنطینی سلطنت کا مشرقی پایہ تخت قسطنطنیہ عیسائیوں کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے قبضہ میں چلا گیا، عیسائی دنیا کے لئے یہ تکلیف ناقابل برداشت ہے کہ ترکی میں اسلامی ذہن وفکر کی حکومت ہو ، چنانچہ ترکی یورپ کے نشانہ پر ہے اور وہاں بھی اس بات کی کوشش ہے کہ کوئی عبد الفتاح سیسی کی طرح کا آدمی کھڑا ہوجائے جو یورپ کا پِٹھو ہواور مصطفی کمال اتاترک کی طرح اسلام دشمن ہو ۔ اللہ تعالی ترکی کو بچائے اس بات سے کہ اس کا حال مصر کی طرح ہوجائے جہاں سازش کے تحت اخوان المسلمین کی حکومت کو گرادیا گیا اور ایک اسلام دشمن اسرائیل نواز شخص کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور حوالہ کردی گئی ۔مصر کی طرح تیونس میں بھی سازش کی گئی تھی لیکن راشد الغنوشی کی حکمت عملی نے ملک کو بچالیا۔لیکن مصر کے بارے میں سازش بہت گہری تھی یہاں اسرأیل کے مستقبل کا سوال تھا۔عالمی طاقتوں کے ساتھ حق فروش اور دین فراموش خلیجی ریاستیں اس میں شریک ہو گئی تھیں۔ ان ریاستوں کی شرکت یورے عالم اسلام کے لئے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ ہے اور اب ان ریاستوں کے بے ضمیر سفارت کار ان اسلامی شخصیات کے درپے آزار بن چکے ہیں جو ان اخوان المسلمین سے ہمدردی رکھتے ہیں جن کو دار ورسن کےٍ فیصلے سنائے گأے ہیں ۔ مجھے یہ بھی محسوس ہورہاتھا امت کی سریلندی میں ہمارے بہت سے علماء کا کردار بہت خراب ہے کہ انہوں نے لب اظہار پر تالے ڈال لئے اور ان ملکوں کے سفارت کاروں کی رشوتیں قبول کرلیں جنہوں نے ظالموں کا ساتھ دیا اور اخوان کو دہشت گرد قرار دیا۔ حالانکہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ حکم ہے کہ ظالم کی طرف تمہارا ادنی میلان نہیں ہونا چاہئے (لاترکنوا الی الذین ظلموا )۔
ابھی تک رجب طیب اردغان کا اقتدار مضبوط اور ناقابل شکست ہے ، عام انتخابات میں صدارت کے عہدہ کے لئے ان کی کامیابی نے انہیں مضبوط تر اور پائندہ تر کردیا ہے ، دنیا کے مسلمانوں کی یہ ایک ہر دل عزیز حکومت ہے ، یہ وہ حکومت ہے جس نے بشار الاسد کی حکومت کی سخت مخالفت کی اور شام کے مظلوموں کو پناہ دی، جس نے مصر میں اخوان کا ساتھ دیا اور عبد الفتاح السیسی کے انقلاب کی سخت مذمت کی ، دین سے محبت اور اسلامی غیرت ترکوں کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے اور پوری قوم اسلام کی فدائی اور شیدائی ہے ، لیکن اس اسلام پسند حکومت کو سازش اور شرارتوں کا سامنا ہے ، ابھی تازہ رکاوٹ جو سامنے آئی ہے یہ فتح اللہ گولن نے کھڑی کی ہے ، لیکن رجب طیب اردغان نے اقتصادی اعتبار سے ملک کو اس قدر خوش حال اور مضبوط کردیا ہے کہ ترکی کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا ہے اور ترکی کے عوام و خواص سب حکومت کے ثنا خواں اور قدر داں بن گئے ہیں اور اس لئے وہ فتح اللہ گولن کے اخبارات اور ٹیلیویژن کے مخالفانہ پرو پگنڈہ سے گمراہ نہیں ہوئے۔
اس کانفرنس میں لوگوں سے مل کر فتح اللہ گولن کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئیں وہ یہ تھیں کہ ترکی اور ایران کے سرحد کے قریب ان کی پیدائش ہوئی تھی ، تعلیم اَزمیر میں حاصل کی ، یہ ترکی کے مشرقی حصہ میں یونان کے قریب واقع ہے ، تعلیم کے دوران دماغی عارضہ کی وجہ سے پاگل خانہ میں داخل ہونا پڑا تھا، دو سال تک علاج ہوا، پھر صحت حاصل ہوئی ، پھر دینی تعلیم حاصل کی اور واعظ بن گئے، وعظ میں ان پر رقت طاری ہوتی تھی اوروہ دوسروں کو بھی رُلاتے تھے ، ترک قوم ان سے متاثر ہوئی اور ان کی شہرت موج نسیم اور باد شمیم کی طرح دور دور تک پھیلتی چلی گئی ، پھر انہوں نے عصری تعلیم کو اپنی کوششوں کا محور بنایا، استنبول میں انہوں نے فاتح یونیورسٹی قائم کی، اہل دولت وثروت نے ان کے ساتھ پورا تعاون کیا ، پھر ان کے تعلقات امریکہ کے یہودیوں سے اور خفیہ تنظیموں سے بھی ہوگئے ، معلوم ہوا کہ وہ ایک سو بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے ، فتح اللہ گولن کی شخصیت بہت سے لوگوں کے نزدیک مشتبہ رہی ہے ، انہوں نے آج تک نہ اسرائیل کی مذمت کی اور نہ فلسطینیوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ۔مصر میں عبد الفتاح السیسی کے ہاتھوں اخوان کا قتل عام ہوا تھا ، انہوں نے اس قتل کو بھی جائز ٹھہرایا، وہ حماس کی بھی مذمت کرتے ہیں اور اس پر جارحیت کا الزام لگاتے ہیں ، ترکی میں جتنی اسلام دشمن جماعتیں ہیں ان سب سے فتح اللہ گولن کے خفیہ تعلقات ہیں ۔ اس مشتبہ کردار کی وجہ سے جب وہ تنقید اور انگشت نمائی کا ہدف بنے تو ترکی کو خیر باد کہہ کر امریکہ چلے گئے اور اسی کو اپنا مستقل مسکن اور نشیمن بنایا اور پھر کبھی انہوں نے ترکی کا رخ نہیں کیا ، بعد میں ایک اور چیز سامنے آئی اور وہ یہ کہ سیکیوریٹی میں اپنے خاص آدمیوں کے ذریعہ انہوں نے اہم شخصیتوں کے فون ٹیپ کرنے کی کوشش کی ، ایسا محسوس ہوا کہ وہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن گئے ہیں ، ان کی شبیہ اتنی خراب ہوگئی کہ خود ان کی جماعت کے بہت سے لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یہ سب امریکہ سے ترکی واپس آگئے ۔ فتح اللہ گولن کی شہرت ان کے قائم کردہ بے شمار اسکولوں کے ذریعہ جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ، لیکن کسی اسکول میں دینی تعلیم نہیں دی جاتی ہے ، ترکی زبان تک نہیں سکھائی جاتی ہے ۔ انہوں نے اپنے معتقدین کے حلقوں میں عجیب و غریب قسم کے دعوے بھی کئے ہیں ، جیسے یہ دعوی کہ ایک بار انہوں نے آسمان پر تمام اولیاء اللہ کی نماز کی امامت کی ہے ،اب ان کی مقبولیت اس قدر کم ہوگئی ہے کہ ان کا قائم کردہ ایشین بینک جس کی شاخیں ہر شہر اور ہر شاہراہ پر موجود تھیں بند ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ امریکہ سے فتح اللہ گولن کے روابط کا اندازہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ جب ترکی کا پانی کا جہاز فلسطینیوں کی امداد اور غذائی سامان لے کر جارہا تھا اور اسرائیل نے اس پر حملہ کردیا تھا جس سے کئی ترکی جاں بحق ہوگئے تھے تو ترکی نے یہ مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا تھا ، عدالت میں اسرائیل کو جارحیت کا مرتکب قرار دیا جاتا ، اسرائیل نے سبکی سے بچنے کے لئے امریکی صدر کا سہارا لیا اور امریکی صدر نے فتح اللہ گولن کا ۔ فتح اللہ گولن نے کبھی بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی اور مذمت کی تو حماس کی کی ۔ یہ ہیں وہ معلومات جو فتح اللہ گولن کے سلسلہ میں ترکی میں حاصل ہوئی ہیں ۔
علماء کی تنظیم الاتحاد العالمی کی کانفرنس ۲۰ اگست ۲۰۱۴ء سے استنبول میں منعقد ہوئی اور ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب غزہ لہو لہان تھا اور ملک شام کی شام ، شام غر یباں بنی ہوئی تھی، مصر میں دوبارہ فرعون کی واپسی ہوچکی تھی اور عراق میں نوری المالکی کی خونریزی اور اہل سنت پر ستم رانی کے رد عمل میں داعش کی تنظیم فاتحانہ آگے بڑھ رہی تھی ، اس فضا میں ساری دنیا کے مسلمان عالم دین و دانشور استنبول شہر میں جمع تھے ، پورا شہر خوبصورتی میں بے مثال اور حسن وجمال سے مالا مال ہے ، سرو و صنوبر اور چنار کے سر بفلک درخت بہت کثرت سے نظر آتے ہیں ، سلیقہ مندی ، سجاوٹ اور صفائی ستھرائی میں اور چمن بندی و شجر کاری میں پورا شہر اور خاص طور پر اس کا ایشیائی حصہ ایک نمونہ ہے ، ایشیائی حصہ زیادہ خوبصورت اس لئے ہے کہ اصل اور قدیم شہر یورپ کے حصہ میں واقع ہے ، جب توسیع کی ضرورت پیش آئی تو ایشیائی حصہ میں ایک پلاننگ کے تحت شہر بسایا گیا ، ہر عمارت کے سامنے ایک باغیچہ ہے جس میں مختلف رنگ کے پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں ، عمارتیں اپنی مضبوطی اور استحکام میں بے نظیر ہیں ۔ترکی کی مسجدیں شوکت اور دبدبہ اور جلال کے اعتبار سے دنیا میں بے مثال ہیں ۔ ہر مسجد میں وہاں ایک گوشہ خانم بھی ہے یعنی عورتوں کے نماز پڑھنے کہ جگہ ۔ ہندوستان مسجدوں میں میں عورتوں کے لئے یہ سہولت نہیں ہوتی ہے ۔یہ تسلیم کہ عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے لیکن وہ عورتیں جو شاپنگ کے لئے جائیں گی جس کی دین میں پوری اجازت ہے تو آخر وہ نماز کہأں پڑھیں گی ۔ کیا یہ بات لائق توجہ نہیں ہے؟
ترک قوم فعال اور محنت کش قوم ہے ، دین سے محبت و غیرت ترکوں کے ضمیر و خمیر میں داخل ہے ، ان کے چہرے بھی اس عشق کی غمازی کرتے ہیں ، ترکی کے سلطان عبد الحمید ثانی کا یہ کردار یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان کو یہودیوں کی طرف سے دولت کا ذخیرہ پیش کیا گیا اور اس کے عوض یہ مطالبہ تھا کہ فلسطین کے اندر یہودیوں کو آباد کرنے کی اجازت دی جائے ، مگر سلطان نے یہ کہہ کر اس دولت کو ٹھکرادیا کہ بیت المقدس کی سرزمین کی مٹی کی ایک مٹھی سیم و زر کے انبار سے بہتر ہے، انہوں نے کہا کہ فلسطین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون سے خریدا تھا اور ہم سے بھی خون کے عوض ہی خریدا جاسکتا ہے۔ پھر سلطان نے یہودی قاصد کے اس مطالبہ پر کہ یافہ اور غزہ کے پاس کی اراضی جمعیت صہیون کے حوالہ کردی جائے، یہ جواب دیا تھا کہ میرے لئے آسان ہے کہ میرے جسم کی تکّہ بوٹی کردی جائے ، مگر میرے لئے آسان نہیں کہ فلسطین کو میری سرزمین سے کاٹا جائے۔ اس کردار کا موازنہ عرب حکمرانوں کے کردار سے کیا جاسکتا ہے جنہوں نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالہ کردیا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے تحت بیت المقدس اور فلسطین پر اسرائیل کا حق تسلیم کرلیا ، آج خلیجی ریاستیں ببانگ دہل حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتی ہے ۔
الاتحاد العالمی عالم اسلام کے مسلم دانشوروں اور علماء کی سب سے بڑی تنظیم ہے ، مجھے بہت سے مندوبین سے جن میں اکثر عرب تھے، عرب دنیا کے حالات پر تبادلۂ خیال کا موقع ملا، ہم نے جن اراکین اور مندوبین سے ملاقات کی ان میں ایک بھی نہیں تھا جو مصر ، عبد الفتاح سیسی ، اخوان کے سلسلہ میں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے موقف کا حامی اور مؤید ہو ، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ عالم اسلام کے اجتماعی ضمیر نے خلیجی ریاستوں کے موقف کو یکلخت مسترد کردیا، ہندوستان میں جن لوگوں نے خلیجی ریاستوں کے موقف پر تنقید کی انہوں نے منکر پر نکیر کا فرض کفایہ انجام دیا، اگر دین و شریعت کے لحاظ سے اس غلط موقف پر تنقید نہ کی جاتی تو پوری امت گنہگار ہوتی ، جو علماء اور دانشور اپنی اپنی مالی اور مادی مصلحتوں کی وجہ سے تنقید نہ کرسکے ان کو تنقید کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ ان کی وجہ سے گناہ سے بچ گئے، مکہ اور مدینہ کی تولیت جن کے ہاتھوں میں ہے ان پر تنقید اور مخالفت کسی کے لئے بھی خوشی کی بات نہیں ہے ، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ حق بہر حال سب سے بلند تر اور عزیز تر ہے ۔
سیریا کے سلسلہ میں کانفرنس میں شریک ہونے والے اراکین اور مندوبین سے گفتگو ہوئی تو لوگوں نے یہ بتایا کہ اگرچہ روس اور چین نے بھی بشار الاسد کی مدد کی ، لیکن اگر ایران نے فوج اور اسلحہ کے ساتھ اور حزب اللہ کے ساتھ مدد نہ کی ہوتی تو اب سے بہت پہلے بشار الاسد نے راہ فرار اختیار کرلی ہوتی،سیریا میں دو لاکھ انسانوں کا قتل عام ہوااور سب سے بڑا مجرم ملک ایران ہے ، بعض مندوبین نے یہ بھی کہا کہ بشار الاسد کے اقتدار پر جمے رہنے کی دوسری وجہ دنیا کی دوسری طاقتوں کا خاموشی سے اور خفیہ طریقہ سے وہاں کی حکومت کا ساتھ دینا ہے ، کیوں کہ شام کی موجودہ حکومت اگر گرجائے گی تو جو لوگ وہاں کے اقتدار پر قابض ہوں گے وہ اسلام پسند ہوں اور ایک نہ ایک دن اسرائیل کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے باز نہیں آئیں گے ۔خون مسلم سے جہاد کے شوق کو مٹایا نہیں جاسکتا ہے ۔
عراق سے بھی بہت سارے مندوبین آئے تھے ، داعش کے سلسلہ میں کنفیوژن تھا ، چنانچہ اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لئے عراق سے آنے والے اراکین سے ہم نے گفتگو کی ، ہم نے ان اراکین کو مختلف الخیال پایا ۔ایک معزز رکن نے جو نوری المالکی کی حکومت کے اہل سنت پر مظالم کے چشم دید گواہ تھے اور داعش کے بہت مؤید اور حامی تھے ، یہ کہنے لگے کہ داعش کے ظلم و استبداد کا بہت شور و غوغا ہے اور پچھلے تین سال سے ہر ہفتہ پندرہ سولہ سنی حضرات کو پھانسیاں دی جارہی تھیں اس پر لوگوں نے واویلا کیوں نہیں مچایا، پورے عراق سے فوج اور تمام اہم منصب سے ایک ایک کر کے اہل سنت والجماعت کو ہٹایا گیا ، آج اگر داعش کے لوگ کھڑے نہیں ہوتے تو مظالم کا یہ سلسلہ بھی جاری رہتا۔ ایک دوسرے معزز عراقی رکن سے بعد میں جب اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں کردی ہوں اور کردستان کی آزادی کا حامی ہوں ، ہمیں یہ گوارا نہیں کہ داعش کا کردستان پر قبضہ ہو اور تیل سے مالا مال یہ علاقہ ان کے قبضہ میں چلا جائے۔ ایک اور معروف عالم دین جو شام کے رہنے والے ہیں اور رابطہ ادب اسلامی کے ممبر بھی ہیں اور جن کا نام خالد الہنداوی ہے ، انہوں نے کہا کہ میں شام اکثر جاتا رہتا ہوں اور مجاہدین سے میری ملاقات بھی ہوتی ہے ، داعش کے اندر وہ خصلتیں ہیں جو تاریخ اسلام کے شروع میں خوارج کے اندر پائی جاتی تھیں، خوارج گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو کافر کہتے تھے ، داعش والے بھی تارکِ نماز کو بہت آسانی سے گولی ماردیتے ہیں ۔ مجموعی طور پر مختلف خیالات کو سننے کے بعد یہ بات ذہن میں آئی کہ اگر داعش والوں میں تشدد اور انتہا پسندی نہ ہوتی میانہ روی ہوتی اوروہ لوگوں کے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کرتے توان کے ساتھ ہمدردی ہوتی اور پھرذوق جہاد اور شوق شہادت کی وجہ سے وہ بغداد اور دمشق پر قبضہ کرسکتے تھے اور مستقبل میں اسرائیل سے نپٹنے والے بھی یہی مجاہد قسم کے لوگ ہوتے ، کاش یہ لوگ اپنی اصلاح کرلیں اور غلطیوں سے باز آجائیں ۔الاتحاد العالمی کی عالمی تنظیم نے داعش کے دعوی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ داعش کے سلسلہ میں جتنے منہ اتنی باتیں ، کوئی کہتا ہے ان کو بشار الاسد نے کھڑا کیا ہے اور کوئی کہتا ہے امربکہ نے اور کوئی کہتا ہے سعودی عرب نے ۔ شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیرہا ۔

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے