سنسکرت اور ہندی میں مستقبل نامعلوم ، ڈراونا، خوفناک اور مشتبہ ہوتا ہے : ایک بھوت : بھوت کال! یہ تصورحال کو متحرک اورنتیجہ خیز نہیں بناتا۔ چنانچہ عربی کے واسطے سے حال کو مستقبل کے لئے مفید بنایا جاسکتا ہے بلکہ حال نام ہی مستقبل کی تشریح اور تعین کا ہے۔ یاد آتا ہے، بیس سال ہوئے ایک شعر کہا تھا:
اگر ہے واقفِ عصرِ رواں، تمنا کر
ہے بے خبر تو فقط انتظار فردا کر
اس کا مطلب ہے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ ایک ساتھ تین زمانوں میں جئے.
اس معاملہ میں افراد بے حقیقت ہیں. ہاں جو معاشرے بیک وقت تین زمانوں میں نہیں جیتے، وہ در اصل جیتے ہی نہیں. جوافراد اورجو معاشرے صرف ماضی میں جیتے ہیں وہ بے نام قبرستان کی ٹوٹی ہوئی قبریں ہوتے ہیں. جو معاشرے صرف حال میں جیتے ہیں وہ ایسی لاشیں ہوتے ہیں جن کو ابھی دفنایا نہیں گیا. تنہا مستقبل میں کوئی نہیں جی سکتا. البتہ کوئی صرف اس کی آرزو میں جیتا ہے تو مردہ جنین ہوتا ہے. مختصر یہ کہ کسی ایک زمانے میں جینے کا مطلب سوائے عدم اور موت کے کچھ نہیں ہوتا.
اس کے بعد وہ معاشرے ہوتے ہیں جو ماضی اور حال دونوں میں جیتے ہیں. ان کی حالت ایک لق و دق صحرا میں گم کردہ راہ اور تھکے ہوئے اس قافلہ کی سی ہوتی ہے جس کے پاس پانی ختم ہوچکا ہو اور جس کی آنکھوں میں سراب دیکھنے جْگتی روشنی بھی نہ رہی ہو.
معاشرہ کو زندہ رہنے کے لئے وہ ماضی بھی درکار ہوتا ہے جس سے وہ نکل کر آیا ہے، کیونکہ وہی اسے اپنے موجودہ عصر کا عرفان اور مستقبل کا معیار دیتا ہے اور خبر دیتا ہے کہ جہاں وہ ہے وہاں وہ کیوں ہے. اسے حال بھی درکار ہے کیونکہ صرف اسی کیفیت میں وہ اپنی مادی قوتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے، سوچ سکتا ہے، منصوبے بنا سکتا ہے، ان پر عمل کرسکتا ہے، ان سے نتائج پیدا کرسکتاہے. اسے مستقبل بھی درکار ہوتا ہے کیونکہ اس کا تصور ہی اسے حال میں زندہ اور متحرک رکھتا ہے اور اس کی پیش رفت کی سمت اوررفتار کا تعین کرتا ہے.
یہ سب وہی کرسکتا ہے جسے اپنے وجود کی تاریخ کا علم ہو اور جسے اپنے وجود پر کامل اعتماد ہو.معاشرہ کے وجود کی تاریخ اس کا ماضی ہیاور اس کا خود پر کامل اعتماد اس کے حال کی شرط. اس تاریخ سے ربط نہ رہے تو انسان اورانسانی معاشرہ دونوں سب سے پہلے اپنا اعتماد کھوتے ہیں اوراس کے فوراً بعد وہ اس تہذیب ہی کے منکر ہوجاتے ہیں جو اْن کا ماضی ہوتی ہے. یہی ہوا تھا ہندستان میں 1857 کے بعد، مصر میں اعرابی پاشا کے بعد، ترکی میں سلطان عبدالحمید کے بعد۔ اور جب چشم زدن میں یہ سب ہوجاتا ہے تو ایسے معاشرے اپنے زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کا رونا روتے ہیں، ایک غیر متحرک زخمی درندہ کی طرح کراہتے رہتے ہیں. ہم مسلمان ان دنوں یہی کررہے ہیں۔
جن کے پاس ماضی کو اپنی زندگیوں، اپنے معاشروں اور اپنیسامنے بکھری ہوئی کتابوں میں پڑھنے کی فرصت نہیں ہے وہ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی دنیا پرچند بار نظر یں ڈال کر یہ اندازہ تو ضرور کرسکتے ہیں کہ یہ کن معاشروں کا ماضی تھا اورجس عہد کو وہ اپنا حال تصور کرتے ہیں اس میں ایسے غیر متحرک زخمیوں کی کراہیں ان کی دنیا میں کہاں کہاں سیاٹھ رہی ہیں .ان آوازوں سے معاشرہ کے بے حس بدنوں کو تازہ حرکت کی سمت کا سراغ مل سکتا ہے.
اس تفصیل کوبیسویں صدی کے اسلامی سیاسی مفکر مولانا حامد الانصاری غازی? صرف دو لفظوں میں سمیٹ کر بیان کردیتے تھے:
تاریخی شعور!
ایک بارانہوں نے1857 اور 1947 کے حوالہ سے کہا تھا ان دو بڑے تاریخی حادثوں کے بعد ہندستان (بر صغیر نہیں) میں مسلمان باقی رہ گئے لیکن 1492 کے اندلس میں مٹ گئے تواس کی وجہ یہ تھی کہ ھسپانیہ کے مسلمان تاریخی شعور سیعاری ہوگئے تھے؛ جبکہ ہندستان کے مسلمانوں کو تاریخی شعور کی رہنمائی حاصل تھی تو ۰۹ سال میں دو بار نسل کشی کے طوفانوں سے گزر کر بھی وہ باقی رہ گئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ قوموں میں تاریخی شعور کبھی ایک فرد کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور کبھی ایک جماعت کی شکل میں۔ جنگ آزادی 1857 اور آزادی 1947 دونوں موقعوں پر یہ شعورجماعت کی شکل میں رونما ہوا تھا اور افراد میں اس کی علامت 1857 میں شاہ عبدالغنی ابن شاہ ولی اللہ، مولانا مملوک علی، حاجی امداد اللہ، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا محمد یعقوب نانوتوی، مولانا شاہ حسن عسکری، مولانا انصارعلی انبہٹوی، مولانا محمد مظہر نانوتوی، مولانا احمد علی سہارنپوری، وغیرہ کی جماعت میں ظاہر ہوا تھا جن پر اس وقت کے حکمرانوں نے ‘‘وھابی’’ کی پھبتی کس دی تھی۔
جنگ آزادی میں ہندستانیوں کو شکست ہوئی تواس جماعتِ شعور نے فوراً ملت کی ذہن سازی پر توجہ کی تاکہ ہاری ہوئی قوم حوصلہ نہ ہارے اور جدوجہد کے اگلے مرحلہ کی تیاری کرے۔ اس مہم کے نتیجہ میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی قیادت اوران کے فکری اثرات کی بنا پر تاریخی شعورمولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا عبدالرحیم رائیپوری، مولانا محمد میاں منصورانصاری، مولانا عبدالرحیم سندھی،مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی، اقبال سہیل، مولانا حسرت موہانی، برکت اللہ بھوپالی، سردار شمشیر سنگھ، راجہ مہندرا پرتاپ، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حاجی تْرنگ زئی سرحدی، مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب ، مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا محمد الیاس کاندھلوی، خلیق احمد نظامی، خان عبدالغفار خان، مولانا ابولکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا حامد الانصاری غازی ، ذاکر حسین خان، رفیع احمد قدوائی، وغیرہ کی جماعت میں دوسری اور تیسری بار دو نسلوں میں نمودار ہوا۔
اس تاریخ کوایک جملہ میں بیان کریں تو اسیشاہ ولی اللہ کی تحریک کہا جاتا ہے۔
لوگ شائد اس بات پرحیرت کریں کہ گاندھی جی اسی تاریخی شعور کی ایک کڑی تھے۔ ان سے پہلے تلک اس سے عاری تھے۔ ان کے سامنے پٹیل اس کے دشمن تھے، نہرو گمراہ ہوگئے تھے۔ تاریخ کے اس باب کا آخری صفحہ برصغیر کے چپے چپے پر سب پڑھ رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں مسلمانوں میں اس فکرو عمل کا اجتماعی نام جمعی? علما ہند اور مجلس احرار تھا۔ ان دونوں کے اعتماد کو دانستہ ٹھیس پہنچائی گئی تھی جس کے نتائج برصغیر میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر معاشرتی گروہ بھی بھگت رہے ہیں۔ مسلمانان ہند کی یہ دوسری مہم بھی سیاسی میدان میں کچھ وجوہ سے مطلوبہ نتائج نہ دے سکی مگر اس جماعت نے ایک بار ناکامی سے امید کشید کی اور پھر مسلمانوں اور ہندستانیوں کے حوصلہ کو زندہ رکھا ، خاص طور سے 1947۔1948 کے قتل عام کے زمانہ میں قوم کی ایک اورنسل کو ایک نئی مہم کے لئے تیار کرنا شروع کیا۔
وہ تیسری نسل اور اس کے بعد کی نسل کہاں ہے؟
آزادی کے ساتھ آنے والیطوفان کے 66 سال بعد آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تاریخی شعورابھی ہندستان اور مسلمانان ہند کا رہنما ہے یا معدوم ہوچکا ہے؟ یہ شعور باقی ہے تو پیش آمدہ مہم میں بھی ہندستان کا مسلمان اپنی زندگی کا کھرا ثبوت دے گا۔ اس کا ظہور اس کے مستقبل میں ہوگا۔ مستقبل میں دیکھنے کی شرط یہ بھی ہے کہ تاریخی شعور کی امانت جس جماعت کے پاس تھی اسے دھوکہ کس نے دیا اور کیوں دیا کہ وہ مستقبل مرتب ہی نہ ہوسکا جس کی تعمیر کا منصوبہ اس جماعت کے پاس تھا۔ اہل سیاست میں بلاشبہ اس تاریخی شعور کا عمومی فقدان ہے اوراس قحط کو بھی ایک مدت بیت گئی۔ لیکن ایک بارپھراہل علم کے تاریخی افکار میں اس کا سراغ ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ماحول کی تاریک سرنگ کے آخر میں روشنی کا نقطہ عہد حاضر کے اس تاریخی شعور کا پتا دے سکتا ہے جو مستقبل کا عنوان بھی بن سکتا ہے اورمزید ایک نسل کی قربانی کا تقاضا بھی۔ اسے کیا ہونا ہے اس کا نسخہ گزشتہ تین مہمات کی ناکامیوں اور نتائج کی تاریخ میں ملے گا۔
گزشتہ تین مہمات کی ایک قدر مشترک یہ تھی کہ اس سے متعلق لوگ جذباتی نہیں تھے۔ شعور جذبات کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے۔ اور شعور پہاڑ ہو تو سیلاب کا رخ موڑ دیتا ہے۔
ہم کیا ہیں! سیلاب یا پہاڑ؟
اس فیصلہ پرملک اورملت کے تاریخی وجود کی بازیافت کا سارا دارو مدار ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ملت اپنی اسی تاریخ سے مربوط ہونے پر اصرار کرے۔ اس وقت کا مسئلہ یہی ہے کہ مسلمان اور ہندستان اپنی تاریخ سے واقف نہیں رہے۔ اورہاں تاریخ فقط سو دوسو سال کے احوال کا نام نہیں ہوتا۔ اور مستقبل نوحہ گری سے نہیں بنتا۔
جواب دیں