چنانچہ آپ کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور انتقال کے ٹھیک تیس سال بعد خلافت نے بادشاہت کا رنگ و روپ اختیار کر لیا۔ شام کے گورنر امیر معاویہ، حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے مصالحت کے بعد پورے عالم اسلام کے حکمراں بن گئے۔ وہ اولین بادشاہ تھے مگر خود کو خلیفہ کہلوانا ہی پسند کیا اور اس طرح سے خلافتِ بنو امیہ کی بنیاد پڑی جس کی راجدھانی دمشق تھی۔
بنو امیہ کون تھے؟
امیہ، قریش کا ایک سردار تھا جسکی اولاد کو بنو امیہ کہا جاتا تھا۔ قریش کا ہی ایک دوسرا خاندان بنو ہاشم بھی تھا جس سے رسول اکرمﷺ کا تعلق تھا۔ ان دونوں خاندانوں میں پرانے زمانے سے رقابت اور چشمک چلی آتی تھی۔شاید یہی سبب تھا کہ جب بعثت نبوی ہوئی تو آپ کی مخالفت میں نبو ہاشم کم آگے بڑھے اور بنو امیہ زیادہ پیش پیش رہے۔ اسلام کے خلاف جو بھی جنگیں ہوئیں ان میں بنو امیہ کے افراد ہی قائدانہ کردار میں نظر آئے اور اس وقت تک مخالفت کرتے رہے جب تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب نہ کردیا۔ حالانکہ حضرت عثمان بن عفان جیسی سعید روحیں بھی تھیں جنھوں نے نبی ﷺ کی معاونت میں پیش قدمی کی اور اپنا سب کچھ اسلام کے لئے قربان کردیا۔ بنو امیہ کے بیشتر لوگوں نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔انھیں میں ابوسفیان بھی تھے جو اسلام کے خلاف ہر جنگ میں آگے رہے اور عرب والوں کو پیغمبر اسلام کے خلاف ورغلانے کا کام کرتے رہے تھے۔عرب والوں کے اندر عہد جاہلیت سے خاندانی فخرو غرور پایا جاتا تھا جب کہ اسلام دنیا سے جھوٹی خاندانی عظمت کے غرور کو ختم کرنے کے لئے آیا تھا ۔ اسی لئے رسول اللہﷺ نے اکثر شرفاء عرب پر غلاموں ، غریبوں اور سماج کے کم مرتبہ والوں کو سردار اور سپہ سالار بناکر حکمراں کیا تاکہ ان کے اندر انکساری آجائے اور جھوٹی عصبیت سے ان کی
روح پاک ہوجائے۔ آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم کے لوگوں کو کم ہی سیاسی اور فوجی ذمہ داریاں سونپیں مگر بنو امیہ کو اکثر اعلیٰ عہدے دیئے۔اس خاندان میں باصلاحیت لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی اور یہ لوگ عموماً بہادر، جانباز ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بھی تھے۔فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرنے والوں میں ابوسفیان اور ان کے بیٹے معاویہ بھی تھے جن کی عمر پچیس سال کے قریب ہوگی۔ ان دونوں باپ بیٹوں کو اللہ کے رسول نے اہم ذمہ داریاں سونپیں اور معاویہ کو تو اپنے خاص لوگوں میں شامل کیا جن کا ایک کام وحی لکھنے کا ہوتا تھا۔ ابوسفیان کی بیٹی اور معاویہ کی بہن پہلے ہی اسلام قبول کرچکی تھیں اور رسول اللہ کے نکاح میں تھیں۔
امیر معاویہ
امیر معاویہ کو خلفاء راشدین بھی اہم ذمہ داریاں سونپتے رہے ، یہاں تک کہ وہ شام کے گورنر بنائے گئے۔ وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملوں کے بھی ماہر تھے، اسی کے ساتھ ساتھ انتہائی حلیم اور بردبار انسان تھے۔ لوگوں کی غلطیوں کو ہنستے ہوئے معاف کردیا کرتے تھے۔ وہ بیس سال تک شام کے گورنر رہے اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے۔ وہ اس عہدے پر بھی بیس سال تک رہے۔ ان کے زمانے میں بھی اسلامی فتوحات کا دائرہ بڑھا اور دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بحری فوجی بیڑا بنایا گیا۔اس سے پہلے ایسے کسی بیڑے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مظالم کی انتہا
جس سلطنت کی بنیاد امیر معاویہ کے ذریعے 661ء میں پڑی تھی وہ تقریباً نوے سال تک قائم رہی اور750ء میں اس کا خاتمہ ہوا۔ اسی خاندان کے افراد یکے بعد دیگرے تخت پر متمکن ہوتے رہے۔ یہ اپنے عہد کی سب سے طویل و عریض سلطنت تھی جس کا ایک سرا افریقہ تک جاتا تھا تو دوسرا بھارت کے سندھ تک پہنچتا تھا۔اس کی ایک شاخ یوروپ میں بھی قائم ہوئی۔ اس سلطنت میں بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام نے خلافت و حکومت کا جو پاکیزہ تصور پیش کیا تھا اور سیاست کو بھی عبادت کا ذریعہ بنایا تھا، اس تصور کو پامال کردیا گیا۔ حکومت بس دنیا طلبی اور جاہ و حشمت کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔ امیر معاویہ نے اپنی جگہ پر اپنے نالائق بیٹے یزیدکو بٹھادیا اور اس کے لئے اپنی زندگی میں ہی بیعت لینی شروع کردی۔یزید بن معاویہ ایک فاسق و فاجر شخص تھا اور اپنی سلطنت کی مضبوطی کے لئے اس نے نہ صرف مظالم کی انتہا کی بلکہ صحابہ اور نیک و متقی برزگوں کا قتل کرایا۔ اسی کے دور میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت ہوئی اور اہل بیت اطہار سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس نے مکہ معظمہ اور خانہ کعبہ پر پتھروں کی بارش کرائی اور مدینہ منورہ پر حملہ کر کے کئی روز تک مسجد نبوی کو نماز و اذان سے محروم کردیا۔ یہاں اس کے فوجیوں نے پاکدامن خواتین کی عصمت دری کی اور حرم رسول کی حرمت کو پامال کیا۔ عہد بنو امیہ کے حکمرانوں کو بنو ہاشم اور اولاد علی سے خطرہ محسوس ہوتا تھا لہٰذا اس زمانے میں سب سے زیادہ مظالم کا شکار یہی لوگ ہوئے۔حکمرانوں میں ایک نام مروان بن حکم کا بھی تھا جس کی فتنہ پردازیوں کے سبب اسے رسول اللہ نے مدینہ سے باہر جلاوطن کر دیا تھا مگر عہد عثمان غنی میں اسے واپس بلالیا گیا اور جب بنو امیہ کا زمانہ آیا تو مختلف اہم عہدوں پر وہ فائز کیا گیا اور ایک زمانے میں خلیفہ بھی بن بیٹھا۔
اسلامی سلطنت کی وسعت
بنو امیہ کے دور میں اسلامی احکام کی خوب خوب پامالی ہوئی مگر دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے یہ ایک بڑی سلطنت تھی اور اس کے بعض ذمہ داروں نے کئی اہم کارنامے بھی نجام دیئے۔ ہندوستان کی سرزمین پر اگرچہ مسلمانوں کے قدم پہلے ہی پڑ چکے تھے اور چھوٹی چھوٹی فوجی ٹکریاں یہاں آتی رہی تھیں مگر اس عہد میں یہاں پوری تیاری کے ساتھ ایک بڑا لشکر بھیجا گیاجس کی قیادت جواں سال سپہ سالار محمد بن قاسم کر رہا تھا۔ محمد بن قاسم نے سندھ کے علاوہ گجرات، پنجاب اور مہاراشٹر کے کچھ علاقوں تک فتح پائی اور اسلامی پرچم لہرایا۔ حالانکہ اس کی عمر نے وفانہ کی اور جلد ہی اسے خلیفہ وقت نے واپس بلالیا اور قتل کردیا گیا۔ بنو امیہ کے زمانے میں دنیا کے دوسرے خطوں میں مبلغین کو بھیجا گیااوراسلام کی اشاعت ہوئی۔
عہد عمر کی واپسی
حضرت عمربن عبدالعزیز بن مروان بن حکم بنو امیہ میں ایک ایسے خلیفہ کے طور پر سامنے آئے جن کا نام مورخین بے حد احترام سے لیتے ہیں۔ ان کی ماں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں۔ انھوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی اور یہ کوشش کی کہ دوبارہ طریقۂ نبوی کو زندہ کیا جائے۔ ان کی تعلیم وتربیت مدینہ منورہ میں ہوئی تھی اور وہ اپنے عہد کے عالم و فاضل انسان تھے۔ وہ خلیفہ ہونے سے قبل پرتکلف اور رئیسانہ زندگی گزارتے تھے مگر خلیفہ بنتے ہی سب کچھ چھوڑدیا اور درویشوں کی طرح زندگی گذارنے لگے۔انھوں نے علماء اور فقیہوں کی ایک کونسل بنادی تھی جس کے مشورے سے کاروبار حکومت چلایا کرتے تھے۔ خلیفہ بن کر وہ خوش نہیں بلکہ غمگین ہوئے اور احساسِ ذمہ داری کے سبب پریشان ہو اٹھے۔ انھوں نے خلیفہ بننے کے بعد اپنی بیوی سے کہا کہ تم اپنے زیورات بیت المال میں داخل کردو۔ اصل میں وہ اسے سرکاری خزانے کا مال سمجھتے تھے جو ان کی بیوی کو باپ کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف کو آپ ظالم سمجھتے تھے لہٰذا اس کے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کو آپ نے سرکاری عہدوں سے برخواست کردیا تھا۔ عمربن عبد العزیز کی انصاف پسندی اور خدا ترسی کے سبب خود بنو امیہ کے لوگ ان سے ناراض رہنے لگے تھے، کیونکہ جن لوگوں کو ناجائز طریقے سے جاگیریں ملی ہوئی تھیں یا سرکاری مراعات حاصل تھیں انھیں آپ نے واپس لے لیا تھا۔ آپ لوگوں سے تحفے تحائف قبول نہیں کرتے تھے اور اسے رشوت سمجھتے تھے۔
بنو امیہ کا زوال
بنو امیہ کے دور میں مسلمان، ہندوستان سے افریقہ تک فتح کا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور ان علاقوں میں ان کی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں۔ یوروپ کے اسپین میں بھی اسلامی حکومت کا قیام عمل آچکا تھا۔کئی خرابیوں کے باوجود اس دور میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت سے کام بھی ہوئے۔ بنو امیہ کو بنو ہاشم سے ہمیشہ اقتدار کے تعلق سے ڈر بنا رہتا تھا۔ انھوں نے پہلے تو بنو ہاشم اور اپنے سیاسی حریفوں کو ظلم و تعدی کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی مگر بعد میں انھیں سرکاری مراعات کے ذریعے خوش کرکے اپنا حامی بنانا چاہا۔ ان کی یہ کوششیں ابتدا میں کارگر بھی ثابت ہوئیں مگر جب بنو امیہ کا اقتدار کمزور پڑا تو اس کے مخالفین سرگرم ہونے لگے۔ بنو ہاشم کے دو طبقے خفیہ طور پربنو امیہ کے خلاف سرگرم تھے ان میں سے ایک طبقہ تو اولاد علی کا تھا اور دوسرا طبقہ عباسیوں کا تھا جو کہ رسول
اکرمﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد سے تھے۔ آخر الذکر کی کوشش کامیاب ہوئی اور نوے سال بعد بنو امیہ کے اقتدارکا خاتمہ ہوا ۔اس کی جگہ بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی۔ جس سفاکی کا مظاہرہ بنو امیہ نے کیا تھا وہی سفاکی ایک بار پھر اس کے خلاف دیکھنے کو ملی۔(
جواب دیں