تاریخ کو ایک بار پھر مسخ کرنے کی کوشش

قدیم بھارت کی شاندار اور قابل فخر تاریخی کارناموں کے نام پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں نفرت و عداوت کی ایسا بیچ بونے کی تیاری کی جارہی ہے جس میں آنے والی نسلوں کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ ہوجائے گا کہ پڑوس میں رہنے والا مسلم خاندان کبھی بھی ان کا دوست نہیں ہوسکتا کیوں کہ ان کے آباء و اجداد نے ہمارے آباء و اجداد ظلم و تشددکے پہاڑ توڑے ہیں ۔مٹھی بھر تعداد میں ہونے کے باوجود سات سو سال تک حکومت کی ، مندروں ، تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کردیا ۔
نصاب تعلیم اور تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔انگریزوں نے ہندوستان پرطویل مدت تک قابض رہنے کیلئے ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کیا، ملک میں ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کی،فرقہ واریت کی آگ کو ہواد ی، مسلکی و قبائیلی اور ذات پات کے تفریق کے بڑھاوا دیا ۔ ہندوستان کی اکثریتی طبقہ کے ذہن میں یہ بات ذہن نشیں کرائی کہ وہ سات سو سال تک مسلمانوں کے زیر اقتدار تھے ۔اکثریت میں ہونے کے باوجود انہیں نظر انداز کیا گیا ۔1857 کی جنگ کے بعدہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنا شروع کیا اوراس مسح شدہ تاریخ کو اسکولی نصاب تعلیم کا حصہ بنایا ۔انگریزمورخوں نے ہندوستان کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا ۔ہندوراج، مسلم راج اور انگریزی راج ۔
مسلم دور اقتدار سے قبل ہندوستان پر حکومت کرنے والے تمام حکومتوں کو انگریزوں نے ہندوراج قرار دیا جب کہ ان میں کئی حکومتیں بدھ مذہب کے پیروکار تھے ۔اشوک اور اس کے جانشین بادشاہ بدھ کے پیروکار تھے ۔بدھ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہی اشوک نے جنگ و جدل سے توبہ کی تھی ۔اسی طرح کشان حکومت یا ہرش وردھن بھی بدھ مذہب کے پیروکار تھے مگر انگریزوں نے اس دور حکومت کو بھی ہندوراج سے تعبیر کیا ۔گپت بادشاہوں کی حکمرانی کو ویشنو راج قرار دینے کے بجائے ہندوراج قرار دیا ۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے دور اقتدار کو عیسائی حکومت قرار دینے سے گریز کیا ،ا س سے وہ یہ ثابت کرناچاہتے تھے کہ اس سے قبل ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہوتی تھیں، مذہب کی بنیاد پر جنگیں ہوا کرتی تھیں ۔ہندو دور اقتدار میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے تو مسلم دور اقتدار میں ہندو قوم مظلومت اور تشدد کی علامت بن گئی ۔مگر یہ انگریزی اقتدار پورے ہندوستانی کیلئے نجات دہندہ بن کر آئی ہے ۔
انگریز مورخوں نے ہندوستان میں اقتدار کیلئے ہونی والی جنگوں کو مذہبی جنگ کا رنگ دیا ۔محمد غوری بمقابلہ پرتھوی راج چوہان، بابر بمقابلہ رانا ساگا، اکبر بمقابلہ رانا پرتاپ، وغیرہ کے درمیان جنگ کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے یہ مندر بمقابلہ مسجد، مذہب اسلام مقابلہ ہندومذہب کی جنگ ہو۔جبکہ یہ ساری جنگیں بادشاہوں کی اپنی مملکت کی توسیع اور دفاع کیلئے تھی ۔ورنہ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ پر تھوی راج چوہان کی فوج میں 30فیصد مسلم فوجی تھے اوراکبر کی فوج میں ایک بڑی تعدادہندؤں کی بھی تھی ۔
انگریز وں کو اپنے مقاصد میں کامیابی ملی بھی اور نہیں بھی ۔کامیابی اس اعتبار سے ملی وہ ہندؤ ں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔مگر یہ کامیابی چھوٹے پیمانہ پر ملی ۔ہندوستا ن کی اکثریت مذہبی منافرت کی بنیاد پر انگریزی اقتدار کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئے ۔ملک کے عوام نے عملی طور پر انگریزی مورخوں کے مسخ شدہ تاریخ کو قبول کرنے سے انکار کردیا-بہادر ظفر کی قیادت میں کنور سنگھ، نانا صاحب، لکشمی سمیت ہندوستان کے لاکھوں کسان اور منگل پانڈے جیسے سپاہی آزادی جنگ میں حصہ لے کرثابت کردیا کہ ہندوستانی قوم کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔انگریز یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ تاریخ کسی بھی مرحلے میں ہندؤں بحیثیت قوم مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی ہو۔ہندوستان کی عوام مسلمانوں کو باہری نہیں بلکہ انگریزوں اور پرتگالی کو باہری سمجھتے تھے ۔
انگریز چلے گئے مگر اپنی ذہنیت اور پالیسی چھوڑ گئے۔آزادی کے بعد سے ہی ایک خاص طبقہ جنہیں ہندوستان کی آزادی سے کہیں زیادہ انگریزوں کی وفاداری عزیز تھی انگریزوں کے طرز پر تاریخ اور اسکولی نصاب کی کتابوں اپنے نظریہ کے تحت بدلنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں ۔مگر حکومتی سطح پر اس کا آغاز 1991سے ہوا ۔بابری مسجد کے خلاف مہم کے نتیجہ میں اترپردیش میں پہلی مرتبہ بی جے پی کی حکومت بنی ،راج ناتھ سنگھ جو اس وقت ملک کے وزیر داخلہ ہیں کو وزارت تعلیم کا چارج سونپا گیا ۔انہوں نے تاریخ کی کتابوں کواز سر نو مرتب کرنے کا حکم دیا اور نصاب میں ویدک ریاضی شامل کرنے کا حکم دیا ۔1998میں بی جے پی پہلی مرتبہ مرکز میں اقتدار میں آئی ۔وزارت فروغ انسانی وسائل کا محکمہ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو سونپا گیا ۔مرلی منوہر جوشی وزارت سنبھالنے کے پہلے دن ہی انڈین کونسل آف ہسٹریکل ریسرچ (ICHR) کا چیرمین بی آر گروور مقرر کیا ۔گروور بابری مسجد کے کیس میں وشو ہندو پریشد کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اس زمانہ میں مشہور انگریزی مجلہ فرنٹ لائن نے کور اسٹوری لگائی تھی’’Taking Hindutva to School‘‘۔اس اسٹوری میں بتایاگیا تھا کہ مرکزی حکومت اسکولی کتابوں میں ہندتو ایجنڈے کو لانے کی بھر پور کوشش کررہی ہے مگر ریاستی حکومت جس میں مغربی بنگال کی بایاں محاذ کی حکومت ،مدھیہ پردیش میں دگ وجہ سنگھ کی قیاد ت والی کانگریس حکومت اور بہار میں رابڑی دیوی کی قیادت والی آر جے ڈی حکومت اس ایجنڈے کی سخت مخالفت کررہی ہے ۔
2014میں اب چوں کہ 80سالہ ہندتو وادی لیڈر جوشی سائٹ لائن کردئیے گئے ہیں ، ممکن ہے کہ ان کی خدمات کے پیش نظر شاید انہیں کسی ریاست کا گورنر بنادیا جائے ۔اس مرتبہ وزارت فروغ انسانی وسائل کی وزارت ایک ایسی38سالہ خاتون کو سونپی گئی ہے جو نہ صرف 12ویں پاس ہیں بلکہ ان کا تعلق سیر و تفریح کے شعبہ سے رہا ہے ۔اس لیے یہ امید تھی کہ وہ نئی سوچ کے ساتھ وزارت سنبھالیں گی مگر وزارت سنبھالتے ہی انہوں نے جوشی کی وراثت کو ہی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا کہ کیوں کہ پوری حکومت اس مرتبہ ناگپور اور دہلی کے جھنڈے والان کے اشاروں چل رہی ہے ۔رپورٹوں کے مطابق یہ حکم جاری کردیا گیا ہے کہ 8سے 10دسویں تک کی کتابوں میں ہندو گولڈن ایج کے ذکر کو شامل کریں ۔
مودی حکومت نصابی کتابوں کو تبدیل کرنے کے معاملہ میں کس طرح دباؤ کی شکار ہے اس کا اندازہ ٹائمز آف انڈیا میں شائع رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے ۔ آرایس ایس کے سینئر پرچارک دیناتھ بترانے اخبار سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ نریندمودی کی حلف برادی کے بعد میٹنگ میں ہم نے ان سے واضح طور کر کہدیا ہے کہ سیاسی قیادت میں تبدیلی آگئی ہے ۔مگر اب وقت آگیا ہے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر بدل دیا جائے ۔بترا نے کہا کہ این سی ای آر ٹی کی کتابوں از سر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کتابوں میں دیش بھگتی اور ہندو تاریخ کے اسباق شامل کیے جائیں ۔
ہندو تووادی کے نزدیک حب الوطنی اور دیش بھگتی کا کیا مفہوم ہے اس کوواضح نہیں کیا جارہا ہے۔ مگر اس کی آڑ میں ہندو تنظیموں کے مقاصد کیا ہیں اس کو سمجھنے کیلئے دو عظیم مصنف کے قول کو ہمیں ذہن نشیں کرلینی چاہیے ۔18ویں صدی کے مشہور قلمکار سیموئیل جونسن(1709-1784)نے کہا تھا کہ ’’حب الوطنی کمینوں کی آخری پنا ہ گاہ ہوتی ہے‘‘۔اسی طرح کا ایک قول رابندر ناتھ ٹیگور(1861-1941) کا بھی ہے انہوں نے کہا تھا کہ بہت زیادہ حب الوطنی اور قوم پرستی کا جذبہ صرف جنگ کی قیادت ہی کرسکتی ہے ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسے وقت میں جب ملک اخلاقی بحران سے گزررہا ہے ،خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے معاملات و واقعات روز افزوں ہیں ،کرپشن اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور اس کے علاوہ نریندر مودی جس ریاست کے وزیر اعلیٰ ایک دہائی تک رہے ہیں وہاں درمیان میں ہی تعلیم چھوڑنے والوں کی شرح 58فیصد ہے جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 49فیصد ہے ۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا ذکر چھوڑئیے دلت کے 65فیصد بچے درمیان میں ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں اور قبائلیوں میںیہ شرح 78فیصد ہے ۔گجرات میں 52 طلبہ پر ایک ٹیچر ہے جب کہ قومی سطح پر 34بچے پر ایک ٹیچر ہے ۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی شرح میں بھی گجرات کی صورت حال بہت ہی خراب 17.6بچے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 20.4فیصد ہے ۔کیا اس صورت میں بھی مودی حکومت کی نصابی کتابوں میں تبدیلی ملک کے مفاد میں ہے؟ مگراس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت کے سامنے ملک مفادات عزیز ہیں ۔گزشتہ ایک مہینہ میں مودی حکومت نے جو کچھ کیا ہے اس سے دو باتیں صاف نظر آتی ہیں ایک یہ ہے کہ مودی حکومت اقتصادی طور پر ملک کے کاپوریٹ طبقے کے دباؤمیں ہے وہ ہر پالیسی کو بناتے وقت ان پر یہ دباؤ دیکھا اور محسوس کیاجا سکتاہے ۔کلچر اور تعلیم اور دیگر شعبوں میں مودی حکومت پر آر ایس ایس کا دباؤ ہے ۔آر ایس ایس جلد سے جلد اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے اس لیے رام مادھو کو باضابطہ بی جے پی میں بھیج بھی دیا گیا ہے ۔(یو این این)
* مضمون نگاریو این آئی اردو کلکتہ سنٹر سے وابستہ ہیں اور سماجی کارکن بھی ہیں

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے