اشرف انجینئر
سال 2023 کے لیے جتنے بھی اندازے سامنے آئے ہیں، ان میں سے بیشتر کہتے ہیں کہ یہ سال شرح ترقی کے معاملے میں سست رہنے والا ہے۔ اس کی وجہ ہے کورونا انفیکشن کی شکل میں ملا بڑا معاشی جھٹکا، اور اس کے بعد رہی سہی کسر پوری کر دینے والا روس-یوکرین جنگ۔ ان دونوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی، سپلائی سیریز میں دقتیں آئیں اور توانائی کی کمی کے اندیشے لگاتار ڈراتے رہے۔ لیکن ہندوستان کے معاملے میں ترقی کے لے سب سے بڑا طویل مدتی خطرہ سماجی خیر سگالی کی بڑھتی کمی ہے۔
یکے بعد دیگرے تمام اداروں، یکے بعد دیگرے تمام ماہرین نے بالکل صاف انداز میں یہ بات کہی ہے کہ ترقی کو داخلی امن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی واجب سی وجہ ہے۔ داخلی امن ہی معاشی ترقی کے لیے ضروری ماحول تیار کرتی ہے۔ یہ بات معیشت کے سبھی ستون پر نافذ ہوتی ہے، یعنی قانونی نظام کے کام کاج سے لے کر کانٹریکٹ میں تبدیلی اور باصلاحیت بازاروں سے لے کر انسانی پونجی تک۔ اس کے بغیر سماجی ڈھانچہ بکھر جاتا ہے، سرکاری خدمات اثردار ڈھنگ سے دستیاب نہیں ہو پاتیں اور بازار رخنہ انداز ہو جاتے ہیں۔
امن سے ملتی ہے ترقی۔ یہ بات ہم فطری طور پر جانتے ہیں۔ جو سماج جتنا پرامن ہوتا ہے، وہ اتنا ہی خوشحال ہوتا ہے۔ لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے داخلی جنگ کی معاشی لاگت کو سمجھنے کی ضروری کوشش کی۔ دنیا بھر میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ آپ دیکھیں تو سہی۔ مثال کے لیے گزشتہ ایک دہائی کے دوران برازیل نے تشدد اور جرائم کے سبب اپنے جی ڈی پی کے پانچ فیصد کے برابر نقصان برداشت کیا، جبکہ سلواڈور کو اس وجہ سے پچیس فیصد کی گراوٹ برداشت کرنی پڑی۔
2014 کے ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ایسے ملک جہاں سماجی لڑائیاں کم ہوتی ہیں اور جہاں مذہبی آزادی پر کم پابندی ہے، اس نے تعلیم، صحت، جدید تکنیک، ٹرانسپورٹیشن، بازار، کاروبار، مالی بازار اور لیبر صلاحیت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی بھی بدعنوانی کو کم کرتی ہے۔
ہندوستان میں اس کے دستور نے مذہبی آزادی کی گارنٹی دے رکھی ہے۔ حالانکہ اس گارنٹی اور زمینی حقیقت کے درمیان ایک چوڑا سا شگاف ہے۔ ہو کیا رہا ہے، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ اقلیتوں کا اپنے مذہبی رویہ کو اختیار کرنے پر لگاتار دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ انھیں یہ حق آئین دیتا ہے۔ مسلم اداکاروں سے لے کر لیڈروں جیسی عوامی ہستیوں کو لگاتار نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نریندر مودی حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ فرقہ وارانہ سلوک ایک عام بات ہو گئی ہے۔ اکثر انھیں اپنی حب الوطنی اور شہریت ثابت کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان پر تشدد آمیز حملے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ دلتوں کو بھی بے عزتی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
عدالتیں اس روش کو پلٹنے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں، جبکہ قانون سازیہ تو اولین طور پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ حکومت کے لیے بھی خیر کا معاملہ ہے کیونکہ وہ کورونا وبا سے نمٹنے میں اپنی ناکامیوں اور معیشت کے خراب انتظام کی طرف سے لوگوں کا دھیان ہٹانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حکومت کے پاس ماحولیاتی تبدیلی، خراب طبی خدمات کی فراہمی اور بے لگام مہنگائی جیسے اہم چیلنجز کے بارے میں کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔
آئینہ دکھاتے اعداد و شمار:
ایک اندازے کے مطابق 2021 میں تشدد کی معاشی لاگت 646 بلین ڈالر تھی۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے سبھی مفاد عامہ والے منصوبوں کا خرچ اٹھایا جا سکتا تھا۔ گلوبل پیس انڈیکس میں 163 ممالک میں ہندوستان 135ویں مقام پر ہے۔ تشدد کی معاشی لاگت ہمارے جی ڈی پی کے 6 فیصد کے برابر ہے۔
ایک اور اندازہ ہے جو اور بھی بڑی رقم کے ضائع ہونے کی بات کرتا ہے۔ آسٹریلیا واقع انسٹی ٹیوٹ فار اکونومکس اینڈ پیس کا اندازہ ہے کہ 2017 میں تشدد سے ہندوستانی معیشت کو 1190.51 بلین ڈالر کا نقصان ہوا جو جی ڈی پی کا 9 فیصد ہے۔ یہ فی کس 595.4 ڈالر (یا 49000 روپے سے زیادہ) بیٹھتا ہے۔
بیرون ملکی سرمایہ کاری کا بھی سوال ہے۔ دراڑوں سے بھرا سماج سرمایہ کاروں کو اس کے استحکام اور طویل مدت کے ریٹرن دینے کی قابلیت کے بارے میں مشتبہ کرتا ہے۔ تمام سرمایہ کار فرموں نے بڑھتی سماجی کشیدگی اور معیشت پر اس کے برے اثرات کے بارے میں فکر ظاہر کیا ہے۔
مشتبہ گائے اسمگلروں کا پیٹ پیٹ کر قتل اور اس سے چمڑا صنعت کو کس طرح نقصان ہوا ہے، اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہندوستان 2015-16 میں 5.86 ارب ڈالر کے چمڑا ایکسپورٹ کو 2020 میں بڑھا کر 9 ارب ڈالر کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ 2018 میں انڈیااسپینڈ کے ذریعہ کیے گئے تجزیہ سے پتہ چلا ہے کہ مالی سال 2016-17 میں چمڑے کا ایکسپورٹ تین فیصد اور 2017-18 کی پہلی سہ ماہی میں 1.3 فیصد کم ہو گیا۔ اس گراوٹ میں گئو رکشکوں نے بہت بڑا کردار نبھایا۔ مالی سال 2021-22 میں ہندوستان نے 4.87 بلین ڈالر قیمت کے چمڑے اور چمڑا پروڈکٹس کا ایکسپورٹ کیا، جو طے ہدف سے بہت کم ہے۔ اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ چمڑا صنعت ایسا سیکٹر ہے جو بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتا ہے۔ 44.2 لاکھ لوگ اس سے روزگار پاتے ہیں جن میں بیشتر غریب ہیں اور اس میں بھی تقریباً 30 فیصد خواتین ہیں۔
کاروبار اور امن کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ 2008 کے ایک مطالعہ میں اقوام متحدہ گلوبل کامپیکٹ نے اخذ کیا کہ جیسے ہی امن بڑھا، 80 فیصد سینئر منیجرس نے اپنے بازار کے سائز کو بڑھتے اور 79 فیصد نے آپریشنل اخراجات کو گھٹتے ہوئے پایا۔ اس لیے امن صحت مند کاروباری ماحول کے لیے ایک بنیادی عنصر ہے۔
(مضمون نگار اشرف انجینئر سینئر صحافی اور آل انڈینس میٹر پوڈکاسٹ کے میزبان ہیں)
جواب دیں