اور یہ ہی ایک راہ ہے جس پر چل کر ہم انگریزوں کو اس ملک سے نکال سکتے ہیں ہندوستان کی آزادی کے لئے انھوں نے انگریز حکومت کے خلاف ہر محاذ پر لڑائی لڑی ،وہ جیلوں میں گئے ،کئی کئی سال قید رہے، گھر میں نظر بند کئے گئے، ان کی صحافتی زندگی پر بھی پابندی لگائی گئی غرض کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملک کی خدمت میں قربان کردیا۔
مولانا ایک عظیم مفکر، بے نظیر دانشور، ایک ہمدرد قائد، با اصول صحافی، پُر زور مقرر اور نہ جانے کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔ذہانت و فطانت کا مجسمہ اور خود اعتمادی کی چٹان تھے۔ جُرّت و بے باکی ایسی کہ کسی بھی سچائی کے اظہار کے لئے کسی مصلحت یا موقع ومحل کاکبھی سہارا نہیں لیا۔ عام گفتگو میں بھی انکا یہ ہی طرہ ٗ امتیاز تھا صبر و استقلال اور قوت فیصلہ مولانا آزاد کی ایک بڑی خصوصیت تھی ان کے پائے استقلال میں شروع سے آخر تک کبھی لغزش نہیں آئی،وہ بہت ہی غور وفکر کے بعد ہی کسی بارے میں فیصلہ کرتے تھے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پایا جاتا کہ انھوں نے اپنے کسی فیصلہ سے رجوع کیا ہو۔ قوموں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عظیم شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں مگر یہ بھی تاریخ کا کیسا المیہ اور افسوسناک باب رہا ہے کہ ایسی عظیم ہستی کی قدروقیمت اور شہرت و عظمت کی چمک بعد از مرگ ہی ہوئی ہے اوران کے چلے جانے کے بعد ہی دنیا نے انھیں تاج افتخار بخشا ہے اور ان کے بے مثال کارناموں کی بدولت انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا آزاد کو جن غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا وہ بہت ہی کم انسانوں میں ملتی ہیں پچھلی صدیوں کی اسلامی تاریخ میں تو ایسی شخصیات مل سکتی ہیں مگر بیسویں صدی میں دور دور تک مولانا آزاد کا کوئی مقابل نظر نہیں آتا،معروف مجاہد آزادی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے ان کے انتقال کے بعد اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’ قوموں میں ایسی شخصیتیں صدیوں میں بمشکل رونما ہوتی ہیں‘‘ ان کے سیاسی افکار و نظریا ت سے تو اختلاف ہوسکتا ہے مگر انھوں نے ملک و ملّت کے لئے جو خدمات انجام دیں اس کو فراموش کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ،وہ پوری ندگی ہندوستانی عوام کی یکجہتی کے لئے کوششیں کرتے رہے ۔تحریک خلافت ہو یا جمعۃ العلماء کا اسٹیج، ترکِ موالات کی تحریک ہو یا ہندو مسلم اتحاد کا مسئلہ، میدانِ سیاست ہو یا میدانِ صحافت، مذہبی معاملات ہوں یا تعلیمی ، غرض کہ ہر میدان میں مولانا آزاد نے اپنی ذہانت کا لوہا منوایاان کی قومی زندگی میں بہت سے ایسے موڑ پیش آئے جس میں انھوں نے اپنی بے پناہ ذہانت وفطانت کا ثبوت دیاور اپنے مضبوط ارادوں کی بدولت سب کی نظروں کا سرچشمہ بنے رہے۔
دوسری جنگ عظیم چھڑ چکی تھی اور اب یہ صاف دکھائی دینے لگا تھا ہندوستان آزادی کی دہلیز تک آپہونچا ہے اسی کے ساتھ ہندو مسلم اختلاف بھی اپنی انتہا کو پہونچ گئے تھے اور ملک کے حالات تقسیم کی طرف بڑھ رہے تھے مولانا آزادؔ اس بارے میں بے فکر مند تھے ملک کی تقسیم کے بعد جو طوفان آنے والا تھا اور جو خطرات منڈلارہے تھے وہ ہندو اور مسلمانوں کو اس سے آگاہ کررہے تھے انھوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور اس کی نحوست سے بچنے کے لئے ایک فکر انگیز منصوبہ بھی پیش کیا جس پر اگر عمل کیا جاتا تو ملک متحد رہ سکتا تھا مگر انگریزوں کی سازش میں کچھ کانگریسی لوگوں کے شامل ہوجانے کی وجہ سے وہ گروپنگ اسکیم کامیاب نہ ہوسکی اور ملک تقسیم ہوگیا مولانا آزاد کی زندگی کا یہ ایک عظیم سانحہ تھا۔
گاندھی جی ہندوستان کی آزادی کے ایک عظیم رنہما تھے تحریک آزادی میں شامل ہونے سے قبل وہ ایک ایسی ہی لڑائی افریقہ میں لڑ چکے تھے وکالت ان کا پیشہ تھا مگروہ جب تک افریقہ میں رہے انھوں نے وہاں غریب عوام اور مزدوروں کی خدمات انجام دیں اپنے ہم وطنوں کی آواز بلند کرنے کے لئے انھوں پورے افریقہ میں متعدد انجمنوں کی بنیاد ڈالی اور ان کے حقوق کے لئے جلسے اور کانفرنسیں منعقد کیں،’’ انڈین اوپینین ‘‘کے نام سے ایک اخبار بھی نکالا، گاندی جی خاموش تحریک کے حامی تھے جب وہ افریقہ سے ہندوستان آئے تو ان کا پُرجوش استقبال کیا گیا ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کے وہ سخت خلاف تھے۔ ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو گاندھی جی سے مولاناآزاد کی پہلی ملاقات ہوئی مولانا گاندھی جی کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے ، وہ گاندھی جی کی بے داغ شخصیت اور سچائی کے معترف تھے مولانا آزاد کی طرح گاندی جی بھی عدم تشدد کے حامی تھے جب کلکتہ میں مولانا آزاد نے مدرسہ عالیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی تو اس کا افتتاح گاندی جی کے ہاتھوں سے ہی کرایا ،جب اپنے افتتاحی خطبہ میں مولانا نے مذہب اور سیاست کی اہمیت پر روشنی ڈالی تو گاندھی جی نے یہ کہہ کر کہ ’’مذہب کو سیاست سے جدا نہیں کیا جا سکتا‘‘ مولنا آزاد کے نظریہ کی پوری تائیدکی ،اورجس زمانہ میں ملک میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تو گاندی جی نے ان کو روکنے کے جب مرن برت رکھا تو مولانا آزاد ان کی صحت سے بے حد فکر مند ہوگئے مولانا نے برت ختم کرانے کے لئے بہت کوششیں کیں اور آخر کار وہ اس میں کامیاب ہوئے ، مولانا کوگاندی جی کی اہمیت کا اندازہ تھا اور گاندھی جی بھی مولانا آزاد کے قومی نظریہ سے متفق تھے غرض کہ مولانا آزادہمیشہ گاندھی جی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہے اور دونوں رہنماایک سیکولر ہندوستان کے لئے جدجہد کرتے رہے مگر انگریزوں کی سازش کامیاب رہی اور ملک تقسیم ہونے سے نہ بچ سکا ، جب کہ دوسرے لیڈروں کی طرح گاندھی جی بھی ملک کی تقسیم کے طرفدار ہو گئے تھے مگر مولانا آزاد کا خیال تھا گاندھی جی ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جو ہندو مسلم منافرت کے سیلاب کو روکنے میں مددگار ہونگے اور ایسا ہی ہوا ملک کی تقسیم کے بعدپنجاب اور دہلی کے علاقہ میں جو خون خرابہ ہوا اس میں گاندی جی ہی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے مگر ملک کی تقسیم کی سازش کا حصہ بننے والوں کو گاندی جی کی یہ اہنسا پسند نہ آئی اور گاندھی جی انھیں خار کی طرح کھٹکنے لگے آخر کار گاندھی جی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں شہید کر دئیے گئے جس کے بعد تقسیم سے پیدا ہونے والا طوفان تو تھم گیا مگر مولانا آزاد ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئے۔پھر بھی ملک کے اندر ہندو مسلمانوں کا جو خون خرابہ ہو رہا تھا اور مسلمان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جا رہے تھے ، انھوں نے جوہر لا ل نہرو کو فسادات روکنے میں بہت مدد کی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان جانے سے رُک گئی آج ہندوستان میں جو مسلمان نظر آتے ہیں وہ مولانا اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کا نتیجہ ہیں ۔
مولانا آزاد کے ساتھ ۳۸ سال تک رفافت کی زندگی گزارنے والے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب’’ ذکر آزاد‘‘ میں لکھا ہے کہ تقسیم وطن اور گاندھی جی کے بعد مولانا بجھ سے گئے تھے اس کے بعد وہ کبھی اسٹیج پر بے باک اور کھل کر نہیں بولے، وہ اندر ہی اند گھل رہے تھے شاید اس لئے کہ ان کا متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹ چکاتھا اور ان کی سب سے پسندیدہ قومی شخصیت گاندھی جی کو بھی ختم کردیا گیا تھا۔
جواب دیں