تقسیم کی نئی بحث

ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں جو آر ایس ایس کے سب سے معتمد پرچارک تھے اور یہ آر ایس ایس سے وفاداری کے ثبوت کے لئے ہی انہوں نے کیا ہے کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود غیر شادی شدہ جیسے ہیں اور اسے بھی وفاداری ہی کی دلیل سمجھنا چاہئے کہ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں اور آر ایس ایس کے پر جوش بڑوں کی خواہش کے مطابق بسٹ پر سواری نہیں کر رہے ۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ سوچی سمجھی اسکیم ہے یا حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ سردار پٹیل کو فی الحال ایک کنارے کھڑا کر دو اور گاندھی جی پر قبضہ کر لو ۔ مودی جی نے الیکشن کی مہم میں سیکڑوں تقریریں کیں اور بلا مبالغہ سیکڑوں جگہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے وزیر اعظم نہ بن پانے پر دکھ کا اظہار کیا لیکن گاندھی جی کا کہیں نام نہیں لیا اور حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد شاید انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی قومی ہیرو بھی ہونا چاہئے تو انہوں نے پوری طرح گاندھی جی کو دیش پتا اور مہاتما باپو بنا کر اپنا لیا اور اب اٹھتے بیٹھتے بس گاندھی جی ہیں اور ان کی شان میں قصیدہ انتہا یہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایک اخبار کیسری میں یہ تک لکھ د یا گیا کہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار جو اہر لال نہرو تھے اور ناتھو رام گوڈ سے نے گاندھی جی کو غلط مار ا اسے نہرو کو مارنا چاہئے تھا۔ 
اس بیان پر جب شور ہوا تو آر ایس ایس نے اس سے دامن جھاڑ کر وہی کہدیا جو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ یہ سنگھ کا نہیں انکا ذاتی خیال ہو سکتا ہے۔لیکن یہ بات اپنی جگہ سو فیصد ی درست ہے کہ تقسیم کے ذمہ دار سب تھے پٹیل تھی تھے پنت بھی تھے اور نہرو بھی تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے رکارڈ میں لکھا ہے کہ گاندھی جی نے بھی تقسیم کی ہم نوائی کی لیکن خان عبدالغفار خاں اس کی پر زور تردید کرتے ہیں انہوں نے 5فروری 1971کو ایک تقریب میں کہا تھا کہ گاندھی جی ہی تنہا آدمی تھے جو کبھی بھی تقسیم کے حامی نہیں ہوئے۔ البتہ انہوں نے یہ دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی تھی کہ پٹیل اور نہرو انہیں نظر انداز کر کے محض اقتدار کی کرسی کی خاطر اس معاملہ پر ایک دوسرے کے ساتھ ہو گئے ہیں۔
مولانا آزاد کے اس خیال کی تردید میں خود ماؤنٹ بیٹن بھی شریک ہیں انہوں نے بھی اسی زمانہ میں کہا تھا کہ گاندھی جی نے کبھی تقسیم کی حمایت نہیں کی وہ صرف اس لئے خاموشی کے ساتھ کانگریس کا ساتھ دیتے رہے کہ سردار پٹیل نے تقسیم کو منظور کر لیا تھا۔ گاندھی جی کے سکریٹری پیارے لال نے کہا ہے کہ یکم جون 1941کو گاندھی جی نے ان سے اپنے رکارڈ میں لکھوایا کہ یہ بات نوٹ کر لو کہ گاندھی ہندوستان کی تقسیم میں کسی طرح کے فریق کی حیثیت سے شامل نہیں ہوا ۔ یہ کانگرس ورکنگ کمیٹی تھی جس نے عملی طور پر تقسیم کی تجویز منظور کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ( انگریزوں نے ) تقسیم کی تجویز کی شکل میں لکڑی کی روٹی کا ایک نوالہ تھما دیا ہے ۔ کہ اگر وہ اسے کھائینگے تو اس کے مضر اثرات سے ہلاک ہو جائینگے اور نہ کھائینگے تو بھوک سے مر جائینگے ۔
کیسری کے اڈیٹر کا یہ کہنا کہ گوڈ سے نے گاندھی جی کو تقسیم کا ذمہ دار سمجھ کر ہلاک کیا بالکل جھوٹ ہے اور 1948 کے بعد سے اب تک ہزاروں بار یہ لکھا جا چکا ہے ک صرف مسلم نوازی اور پاکستان کے حصہ کی رقم اور اسلحہ اس کودلوانے کی وکالت ان کاجرم تھا جہاں تک تقسیم کا تعلق ہے تو سب سے آگے آگے سردار پٹیل تھے پنت جی تھے اور کانگرس ورکنگ کمیٹی کی اکثریت تھی۔ پنڈت نہرو اس لئے شریک ہوئے کہ ورکنگ کمیٹی کے جلسہ میں 218ممبر موجود تھے جن میں سے 157نے اس تجویز کی حمایت کی اور صرف 29ووٹ مخالفت میں آئے۔ اس کے بعد نہرو کو تقسیم کا ذمہ دار قرار دینا ایسی ہی سازش ہے جیسے گاندھی جی کو اپنا بنانا۔

«
»

میر تقی میرؔ اور عشق

انقلاب کیسے آئے گا ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے