تعمیر کے نام پر تخریب وتحقیر اور تلبیس بند کی جائے

ابھی برج کورس میگزین دیکھی، اندازہ ہوا کہ وہی غلطی یہ طلبہ بھی بے چارے کر بیٹھے جو اکثر دانشوران قوم کرتے ہیں، تجدد اور تجدید کے درمیان بڑا فرق ہے، تاریخ اصلاح و تجدید سے ناواقف یہ طلبہ شاذ کو مفکر و مجدد سمجھ بیٹھے، ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ مجہول النظر ہیں، یہ الگ بات کہ ضمیر الدین شاہ نے ان کو ایسا پلیٹ فارم دے دیا کہ وہ اب مجہول النظر ہونے کے باوجود مفقود الخبر نہیں ہیں۔
اس ’’المدرسہ‘‘ مگزین میں بڑے گل کھلائے گئے ہیں، مدارس کی انتہائی منفی تصویر دکھائی گئی ہے، ان کو بے کار و بے مقصد ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، اس میں طلبہ کے جو تاثرات ہیں ان میں سے بعض باتیں راشد شاذ کی خاص ہدایات پر لکھی گئی ہیں،اس کے بعد طلبہ کی تحریروں میں زبردست ایڈٹ ورک ہوا ہے، ایک طالب علم کی زبان سے یہاں تک کہلوایا گیا ہے کہ میں نے سات آٹھ ماہ وہاں تعلیم حاصل کی میں وہاں گویا شیطان سے انسان بن گیا، اور جانے کیا کیا دجل وتلبیس اس میں موجود ہے، مختصر یہ ہے کہ ان تاثرات کے ذریعہ برج کورس اور یونیورسٹی کی کامیابی اور مدارس کا کھوکھلا پن، بے مقصدیت اور خود فارغین کی بے اعتمادی کو ظاہر کیا گیا ہے۔
ہمیں یہ نہیں عرض کرنا ہے کہ مدارس کا مقصد کیا ہے، وہ مفید ہیں یا مضر، ان میں کام ہو رہا ہے یا نہیں، ہمیں صرف یہ عرض کرنا ہے وائس چانسلر صاحب سے کہ اگر آپ نے برج کورس کو راشد شاذ کے افکار کی ترویج و اشاعت، مدارس کی شبیہ بگاڑنے، لوگوں کو کتاب و سنت اور ائمہ صالحین کے طریقہ سے ہٹانے کے لیے شروع کیا ہے تو بند کیجئے اس کورس کو، ورنہ ہٹائیے اس ڈائرکٹر کو جس کے افکار کو ملت متفقہ طور پر رد کرتی ہے، یہ وہ شخص ہے جو ان طلبہ کو ورغلائے بغیر نہیں رہ سکتا، اس کی بیوی نے انتہائی آسانی کے ساتھ مدرسوں سے آئی پاکدامن لڑکیوں کی نقاب رخ الٹ دی، جو پردے میں ہیں ان کے پردے پر یہ سراپا احتجاج ہے، خود اہلیہ شاذ کا مضمون انتہائی رکیک اور بچکانہ معلومات پر مبنی ہے، جس میں انہیں خدا سے بھی شکایت ہے اور اس کے رسول سے بھی ، بس یہی شکایت باقی رہی ہے کہ خدا نے انہیں عورت کیوں بنایا، پردے پر وہ خوب برسی ہیں، بلکہ وقرن فی بیوتکن کے خطاب کو انتہائی چالاکی کے ساتھ امہات المومنین کے ساتھ خاص کر دیا ہے، آخر اہلیہ ہیں ان شاذ صاحب کی جن کے نزدیک صحابہ کے اقوال و افعال کجا خود احادیث مبارکہ بھی قابل حجت نہیں، مجھے ڈر ہے کہ اگر موصوف ڈائرکٹر رہے تو وہ قرآن کی بالا دستی او رحدیث کی حجیت اور جمہور امت کے متفقہ مسائل کو کھرچ کھرچ کر نکالیں گے، کیوں کہ وہ قرآن میں اس طرح عقل دوڑانے کے قائل ہیں جیسے وہ شخص سڑک پر گاڑی دوڑانے پر بضد ہو جو اسٹیرنگ پکڑنا بھی نہ جانتا ہو۔
راشد شاذ ان چیزوں کے بھی منکر ہیں جو ضروریات دین ہیں، ہر خاص و عام کو معلوم ہیں اور جن پر اجماع امت ہے، بلکہ اجماع اور اہل حل و عقد کی رائے کا حوالہ دینے کو وہ ’’دھونس‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، تحویل قبلہ اور واقعہ معراج کے انکار کے ساتھ وہ بیت المقدس کے قبلہ اولیٰ ہونے کے منکر ہیں، کہتے ہیں مسجد اقصی سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہے، اس بحث میں بڑی خوبصورت سے انہوں نے بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی ثابت کیا ہے اور یہودیوں کے اس مطالبہ کو مسلمانوں سے دوہرایا ہے۔
بہرحال اس میگزین میں دجل و تلبیس کی ہر قسم نظر آئی، میں نے بعض طلبہ سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا: یہ میرے تاثرات ہیں ہی نہیں۔ اسی طرح راشد شاذ کی یہ تلبیس بھی بہت اہم ہے کہ جب ان کے افکار اور ان کی ڈائریکٹرشپ پر سوالات اٹھتے ہیں تو وہ بہت خوبصورتی سے اس کوبرج کورس کی مخالفت قرار دیتے ہیں اور وہ لوگ دفاع میں اتر آتے ہیں جن کی نوکریاں ان ہی کے رحم و کرم پر ہیں۔
وائس چانسلر صاحب سے عرض ہے کہ ملت بہت دنوں تک یہ دجل وتلبیس برداشت نہیں کر پائے گی، علی گڑھ میں پہلے بھی بہت سے وائس چانسلر آچکے ہیں اور وہ سب تقریبا آپ سے زیادہ لائق تھے مگر یونیورسٹی ان کی بھی پذیرائی کر چکی ہے۔
اس لئے مدارس کی تحقیر اور ان کی عدم افادیت اور غیر نافعیت کا یہ زعفرانی پروپیگنڈہ بند کر دیجئے، ایسے برج کورس آج سے ۲۵ سال قبل شروع کیے جا چکے ہیں جو آپ سے بہتر اور غیر مختلف فیہ رزلٹ دے رہے ہیں، جی چاہے مرکز المعارف کے طلبہ سے تقابل کر لیجئے، انگریزی بولنا، پڑھنا اور لکھنا ضرورت ہے مگر سب کی نہیں اور پھر یہ کوئی قابل فخر چیز بھی نہیں، ساری دنیا انگریزی اور عصری تعلیم میں ہے تو پھر یہ ۴ فیصد مدرسے والے بھی اس میں لگا لیے جائیں ایسی کیا ضد ہے، مزید برآں یہ کہ چند لڑکے آرٹس فیکلٹی میں آگئے اور کچھ سوشل میں تو اس پر ایسا طرہ کہ الامان____کیا ان دونوں فیکلٹی کے مختلف شعبوں سے پہلے بھی مدرسے والے نہ نکلے خواہ راہ جو بھی اختیار کی ہو داخلہ کی، یہاں معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی اجازت دی جائے کہ جن طلبہ نے اپنے اندھیرے میں رہنے، اور دنیا نہ دیکھنے اور بے فکر ہونے کا ٹھیکرا مدرسہ پر پھوڑا ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ کیا مدرسہ والے تم کو بلانے کے لیے گئے تھے، تم کو جاتے وقت کوئی مقصد سمجھ میں آیا تھا یا نہیں، تمہارے والدین نے تمہیں کیوں بھیجا، اپنی اور اپنے والدین کی غلطیاں اداروں کے سر پھوڑی جائیں، خود مطالعہ سے دور رہا جائے، وقت برباد کیا جائے اور جھوٹ بول بول کر مدرسہ کی روٹی توڑی جائے اور پھر اپنی بے صلاحیتی اور بے مقصدیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ گویا اس میں مدرسہ اور اس کے نظام ونصاب کا قصور ہے، میں نے مدرسہ و یونیورسٹی دونوں دیکھا ہے، خوب معلوم ہے کہ دونوں جگہ کے شعوری ارتقاء میں کیا فرق ہے، یہ بھی معلوم ہے کہ مدرسہ میں کون لوگ بن پاتے ہیں اور کون شاکی رہ جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ خوب سے خوب تر کی تلاش اور مفید اصلاحات کی ضروریات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح ہندوستانی قوم بھی خوب جانتی ہے، تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ مدرسوں نے کیا کیا ہے، کس کو جنم دیا ہے اور کن مخلصین نے قوم کو کیا دیا ہے، آج بھی یہ دانشوران مولویوں کے صرف اس احسان سے دامن نہیں جھاڑ سکتے کہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے اکثر تعلیمی ادارے عصری ہوں یا دینی ان ہی مولویوں کی برپا کی ہوئی تعلیمی تحریک کا نتیجہ ہیں اور اکثر ان ہی کے قائم کردہ ہیں۔
پھر یہ برج کورس آپ کی اور شاذ صاحب کی کارکردگی کا نتیجہ بھی نہیں، اس کا کریڈٹ یونیوسٹی کے کچھ دوسرے اساتذہ اور سابق وائس چانسلر کو جاتا ہے، آپ نے خاکے میں رنگ بھرا بھی تو ایسا بھدا کہ برج کورس کے نقشہ پر راشد شاذ جیسی صورت ابھری، آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ملت اسلامیہ اور اس کے علماء اصلاحات کے تو قائل ہیں مگر اس طرح کے پروپیگنڈوں سے آپ انہیں متاثر نہیں کر سکتے، خال خال لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں جیسے مولانا اعجاز اسلم صاحب کے اس بیان پر بڑی حیرت ہوئی ’’مدارس اسلامیہ کے روایتی نظامِ تعلیم سے متعلق بعض لوگ یہ کہتے ہوئے ملے کہ مدارس کا یہ روایتی اسٹرکچر دراصل وقت ، قوت اور سرمایہ تینوں کا سراسر ضیاع ہے۔ اس کا out putان تینوں کے لحاظ سے صفر ہے۔ یہ سب کچھ اور اس سے کہیں آگے اسی وقت اور سرمایہ کے ساتھ بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثالیں ماضی میں بالعموم ملتی ہیں اور موجودہ دور مین خال خال دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
اب آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ برج کورس کو اس کی اصل ڈگر پر لائیے اور ملت کو مزید منتشر نہ کیجئے، جو مقصود اس کا ہونا چاہیے بس اسی پر اسے قائم رکھیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پوری ملت سراپا احتجاج بن جائے، برج کورس کا مقصد آپ کو اور طلبہ برج کورس کو راشد شاذ سے نہیں پروفیسر یوسف امین کے اس اقتباس سے سمجھنا چاہیے: ’’ مدارس کا جو تعلیمی نظام یا جو نالج perceptionہے وہ جامع ہے اور یونیورسٹی نالج کا جو نظام ہے وہ overallنالج کا صرف ایک حصہ ہے جس کا natureمغربی ہے۔ اس میں ماورائیت کا انکار ہے۔ کیوں کہ مغربی نشاۃ ثانیہ ماورائیت کے انکار پر مبنی ہے۔ مغربی نشاۃ ثانیہ صحیح علم کا بالکل مخالف اور oppositہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ برج کورس کے طلبہ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے علوم کے مضمرات سے واقف ہوں۔ وہ مغربی علوم سے متاثر نہ ہوں، وہ جس تناظر کو لے کر آئے ہیں اس کو محفوظ رکھیں۔ اس لحاظ سے ان کے مضامین، استدلال اور عملی چیزیں کی جانی چاہئیں۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس کورس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہو تو منفی اثرات نکلیں گے۔‘‘

«
»

’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ یا جاہلیت کے علمبردار

مادیت اسلام اور مغرب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے