رویش کمار کامسلمانانِ ہند سے سوال : تلخ حقیقت ودعوتِ فکر

الطاف حسین جنجوعہ

چند روز قبل حسبِ عادت صبح موبائل فون پر وہاٹس ایپ پیغامات دیکھنے کے لئے ڈاٹا آن کیاتو، بیشتر گروپس میں ایک آڈیو شیئرکی گئی دیکھی، درجنوں اشخاص جس میں سیاسی لیڈران،وکلاء، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنان وانتظامی عہدیداران شامل تھے، نے ذاتی طور پربھی میرے نمبر پر اِسی صوتی پیغام کو فارورڈ کیاتھا اور ساتھ میں لکھاتھا’A Big Question by Ravesh Kumar To muslims‘،مجھے بھی اِس کو ُسننے کا اشتیاق، اس لئے فوری ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کیا، چونکہ انٹرنیٹ کی رفتار ٹوجی ہے، اس لئے چند منٹ اِس آڈیو کوڈاؤن لوڈ ہونے میں لگے جوکہ فورجی میں ایک کلک پر ہوجاتی۔خیر جب اِس کو سُنا تو آواز جانی پہچانی تھی، یہ کوئی اور نہیں بلکہ این ڈی ٹی وی سے منسلک سنیئر صحافی رویش کمار تھے جوکہ پیر تا جمعہ ہفتہ شام نوبجے نشر ہونے والے پرائم ٹائم پروگرام میں غیرجانبداری، بے باکی  اور تلخ حقائق کو اُجاگر کرنے کے لئے مقبول ہیں جس میں اُن کا تجزیہ اکثر مظلوم، محکوم، سماج کے دبلے کچلے طبقہ، محنت کشوں، کسانوں اور نظام کے ستائے لوگوں کی مشکلات متعلق ہوتا ہے۔ اِس صوتی پیغام میں وہ ’مسلمانانِ ہند‘سے مخاطب تھے کہ”اکثر مسلمانوں کویہ شکوہ شکایات رہتی ہے کہ انڈیا کا میڈیا اُن کے مسائل پر بات نہیں کرتا، یا پھر اُن کے مسائل ومعاملات کو غلط ڈھنگ سے پیش نہیں کرتا،مسلمانوں کے تئیں متعصبانہ رویہ اختیار کیاجاتاہے۔ کئی چینلز پر مسلمان مخالف پروپگنڈہ کرنے کے بھی الزامات ہیں،ہوسکتا ہے اِن میں صداقت بھی ہو لیکن ایک سوا ل ہے کہ انڈیا میں بسنے والے 25کروڑ سے زائد مسلمانوں میں کئی ارب کھرب پتی ہیں، جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے تو انہوں نے اِس طرف توجہ کیوں نہیں دی کہ اپنا کوئی قومی اخبار یا ٹیلی ویژن چینل بنائیں جس سے اپنے مسائل کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ غلط پروپگنڈہ کاتوڑ کر کے صحیح تصویر عوام کے سامنے پیش کی جائے۔ صرف تاج محل، لال قلعہ یا دیگر تاریخی وثقافتی اہمیت کی حامل عمارتیں جنہیں مسلمان حکمرانوں نے اپنے دورِ حکومت میں تعمیر کیاتھا، پر فخر کر کے کچھ ہونے والا نہیں، اگر خود پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کا کوئی ایسا ادارہ کھڑا کرنے کی ہمت نہیں تو پھر خاموشی سے ایسے وہ سب کچھ دیکھنا، سننا اور پڑھنا پڑے گاجودکھایا، پڑھایا یا سُنایاجارہاہے“۔پیغام تو طویل تھا لیکن اِس میں جونمایاں سوال تھاوہ یہ کہ کیوں انڈیا کے مسلمان اپناکوئی ایسامیڈیا ہاؤس قائم نہیں کرسکے، جواُن کی آواز بنتا ……؟۔رویش کمار نے ایسے تلخ حقائق کو پیش کر کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، بلکہ قوم وملت کا درد رکھنے والے کئی اشخاص نے اِس پر قبل بھی اِ س حساس وسنگین معاملہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے لیکن مگر ہم نے اِس کو ایک کانوں سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیا تاکہ ہمارے ذہن پر اِس اہم نکتہ کے وزن کا بوجھ نہ رہے۔    
ہندوستان میں میڈیا صنعت دنیا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہاں تقریباً ساڑھے تین سو ٹی وی چینلزہیں اور پچاس ہزارسے زائد اافراداخبارات میں کام کررہے ہیں۔ اخبارات اورٹی وی چینیلوں کو زیادہ تر کثیر ملکی کمپنیاں چلارہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں میڈیا اور انٹرٹیمنٹ صنعت کو سال 2024تک 307

«
»

چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ

ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے