تعلیمی ادارے اور موبائیل فون

ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد  

 صرف چار دہائی قبل سرکاری ٹیلیفون محکمہ کا لینڈ لائن فون کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔کسی بھی گھر کے لئے یہ سٹیٹس سمبال status symbol کی حیثیت رکھتا تھا،پچھلی صدی میں بہت سے لوگ ایسے گذر گئے جنہوں نے زندگی میں کبھی فون پر بات نہیں کی۔ اس وقت فون تک رسائی اتنی آسان نہیں تھی، دیگر شہروں اور بین الاقوامی ممالک میں بات کرنے کے لئے گھنٹوں اور کبھی کبھی دنوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ۰۹ء کی دہائی میں جب ایس ٹی ڈی پی سی او کی شروعات ہوئی تو بلا مبالغہ ہر پی سی او پر قطاریں لگتی تھیں تانکہ لوگ اپنے متعلقین سے ربط قائم کر سکیں۔ جس کارابطہ ہوجاتا تھا وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا تھا۔ اس کے بعدموبائیل فون کا دور شروع ہوا، لیکن موبائیل فون کی قیمتیں اور کال چارجس ہر کسی کے بس میں نہیں تھے۔ آؤٹ گوئینگ کے لئے ۵۱ سے ۸۱ روپیے اور اِن کمنگ کے لئے ۷ سے  ۸ روپیے فی منٹ دینا پڑتے تھے، چنانچہ صرف بڑے کاروباری لوگ ہی اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ ملک عزیز کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی موبائیل کمپنیوں نے بھارت کا رخ کرنا شروع کردیا اور دن بدن مقابلہ آرائی کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ موبائیل فون سستے شروع ہونے شروع ہوگئے بلکہ ان کے نرخ میں بھی نمایاں کمی ہونے لگی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر خاص و عام میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ ذرائع ابلاغ کا ایک بہترین آلہ کے طور پرموبائیل فون عوام کی زندگی کا حصہ بنتا چلا گیا۔ اس زمانہ میں موبائیل پر صرف بات چیت ہوتی تھی اور کچھ چھوٹے چھوٹے ڈیجیٹل گیم تھے جن سے لوگ فرصت کے اوقات میں وقت گذاری کرتے تھے۔ لیکن انڈرائیڈ سسٹم اور سمارٹ فون نے موبائیل کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی اور نتیجتاً عوام کو مسحور کردیا۔بڑا عجیب رشتہ ہو کر رہ گیا ہے موبائیل فون اور عوام کا،ایک بے دام غلام ہے تو دوسرا اسیر ہے۔ آج موبائیل فون صرف بات چیت کا ذریعہ نہ رہ کر ایک پی اے، ایک خطوط رساں، ایک ساتھی، ایک کیمرہ مین، ایک کمپیوٹر، ایک کیلکو لیٹر،ایک ٹی وی، ایک ٹارچ، ایک گھڑی،ایک پیامبر، ایک کھیل کا میدان، ایک معلوماتی خزانہ، نالج بنک اور نہ جانے کیا کیا کچھ بن گیا ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ہر اضافہ کے ساتھ بنی نوع انسان اس کا محتاج بنتا جارہا ہے۔ کسی زمانے میں کم از کم سو دو سو فون نمبر ہر شخص کو ازبر ہوتے تھے، ٹیلیفون ڈائریکٹری دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن آج شائد دس بیس نمبر بھی کوئی یاد رکھتا ہو۔ حساب کتاب کے لئے لوگ مشین سے زیادہ اپنی یاد داشت پر انحصار کرتے تھے، اب ہر کوئی معمولی حساب کے لئے بھی موبائیل نکال لیتا ہے۔ ہر نئی ٹکنالوجی اور ایجاد کے دو پہلوں ہوتے ہیں مثبت اور منفی۔ مٹی کا تیل (گیاس تیل)کی ایجاد سے ایندھن کا ایک نیا متبادل میسر ہوا تو گھر کی خواتین کے لئے کسی نعمت سے کم نا تھا جن کی آنکھیں لکڑی کے دھویں سے جلن کرنے لگتی تھیں۔ لیکن اسی مٹی کے تیل کو بیاہتا ؤں کو جلانے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ اٹامک تھیوری کی تحقیق سے توانائی حاصل کرنے کے نئے ذرائع دستیاب ہوئے لیکن اسی توانائی کو جب ائٹم بم بنانے کے لئے استعمال کیا گیا تو دنیا جانتی ہے کہ انسانیت کے لئے وہ کتنا تباہ کن ہے۔ اسی طرح موبائیل فون کے بھی دو پہلوں ہیں، جہاں اس کے بے شمار فوائد واضح ہیں وہی اس کے نقصانات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصا ً چھوٹے بچوں اور طلباء (لڑکے اور لڑکیاں)کے لئے اس کا استعمال فائدہ مند کم اور نقصاندہ زیادہ ہے۔ چھوٹے بچوں پر اس کا سب سے مضر اثر اس سے خارج ہونے والی وہ شعائیں ہیں جو بچوں کے نازک اعصاب کے لئے طبی طور پر نقصاندہ ہیں۔ طلباء کے لئے یہ اس لئے نقصان دہ ہیں کہ اس سے طلباء کا بیشتر وقت غیر پیداواری عمل میں ضائع ہو رہا ہے۔ طلباء گھنٹوں لا یعنی ویڈیوز دیکھنے میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں، جو وقت ان کے کھیل کود اور جسمانی نشو نما کے لئے صرف ہونا چاہیے وہ وقت موبائیل کی نظر ہو رہا ہے۔ اس سے بچوں کی فکری نشو نما بھی متاثر ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج کل موبائیل میں واٹس اپ، فیس بک، ٹویٹر پر مصروف ہے جس میں کچھ کارآمد معلومات مل جاتی ہیں لیکن ٹک ٹاک، ویگو ویڈیو، ایمووغیرہ پر فحش اور لاحاصل وقت گذاری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، پب جی جیسے کھیل سے متاثر ہونے کے بعد کئی نوجوانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہ مرض تیزی سے نوجوانوں میں پھیل رہا ہے۔ موبائیل کی وجہ سے رابطوں میں جو آسانیا ں پیدا ہو گئی ہیں اس کی وجہ سے نو جوان لڑکے لڑ کیوں کے مابین اختلاط میں اضافہ ہورہا ہے،جو کہ ایک مہذب خصوصاً مسلم معاشرے کے لئے کسی طرح بھی سود مند نہیں ہے، یہ موبائیل ہی ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم نوجوان مسلم لڑکیوں سے رابطہ پیدا کر رہے ہیں اور معاملہ ارتداد کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ہم موبائیل فون کے مخالف نہیں ہیں، اس کے مثبت استعمال سے فائدے بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ دنیا بھر کی معلومات آپ کی مٹھی میں قید ہیں جب جو چیز کے بارے میں معلوم کرنا ہو گوگل پر تلاش کرلیا جاسکتا ہے، اسی موبائیل سے درس قرآن بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، احادیث کے کسی بھی مجموعے سے مستفید ہوا جاسکتا ہے، سیرت نبوی اور خلفاء راشدین کے احوال سے واقف ہوا جاسکتا ہے، دنیا کے فاتحین اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے آگہی حاصل کی جاسکتی ہے، اولیاء اللہ اور بزرگان دین کے واقعات سے درس عبرت حاصل کیا جاسکتا ہے،سائنس اور ٹکنالوجی کی جدید ترین تحقیقات سے رو شناس ہوا جاسکتا ہے، دنیا بھر کی تازہ ترین خبروں سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن کیا ہمارے نو جوان طلباء و طالبات موبائیل فون کے ان مثبت پہلوؤں سے مستفیدہو رہے ہیں؟اس سوال کا اکثریت کے پاس جواب منفی ہوگا۔ اور جب کسی چیز کا منفی استعمال عام ہو جائے تو اس کے مثبت اوصاف بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ حدیث بیان کی جاتی ہیکہ جب کسی برائی کو دیکھو تو اس کو اپنی طاقت سے روک دو،اگر طاقت سے نہیں روک سکتے ہو تو اس کو اپنی زبان سے روکو، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس برائی کو دل سے برا جانو اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔ آج کی نوجوان نسل موبائیل کی وجہ سے جس فحاشی، بے راہ روی، اختلاط اور تضییعِ اوقات میں مبتلاء ہے وہ ایک سماجی برائی ہے جس کو روکنے کیلئے ہمیں مذکورہ حدیث پر عمل کرنا ہوگا، جس کا ایک عملی نمونہ مقامی نو کھنڈا کالج فار ویمن کے پرنسپل مخدوم محی الدین فاروقی نے پیش کیا، انہوں نے بڑی جرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالج احاطہ میں تعلیمی اوقات میں طالبات کے موبائیل استعمال پر پابندی لگادی ہے۔ کالج میں داخل ہوتے وقت ہی طالبات کا موبائیل آفس میں جمع کر لیا جاتا ہے، نہایت ضروری ہو تو والدین اور سرپرستوں سے طالبہ کی بات کر وادی جاتی ہے، اور کالج ختم ہونے کے بعد طالبات اپنا موبائیل حاصل کر کے گھر روانہ ہو جاتی ہیں۔ اس طریقہ کار کا اثر یہ ہوا کہ طالبات غیر ضروری موبائیل استعما ل نہیں کر رہی ہیں، فرصت کے اوقات میں تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ دے رہی ہیں یا پھر آپس میں گفتگو، اور دیگر کار آمد عوامل میں مصروف رہتیں ہیں۔ ورنہ ماحول یہ تھا ”دو عورتیں ملنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھ سکتی“ یہ کہاوت غلط ثابت ہو رہی تھی، کئی لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھ کر بھی خاموشی سے اپنے موبائیل میں اس قدر غرق رہتی تھی کہ کسی کو کسی کی خبر ہی نہ ہو۔ اب طالبات آپس میں بات چیت بھی کرتی ہیں اور دیگر معمولات میں حصہ بھی لے رہی ہیں۔ گویا موبائیل کی دنیا سے باہر نکل کر کالج کی زندگی لوٹ آئی ہے۔ اس مستحسن اقدام کے لئے ہم پرنسپل صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں اور ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اداروں میں موبائیل فون پر پابندی لگا کر طلباء کوتضییع اوقات سے بچانے کی فکر کریں گے۔ وما توفیقی الا با اللہ
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
11/ فروری 2020

 

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے