تعلیمی ادارے بچوں کو سزائیں۔ بدسلوکی

تو اسے دیکھنے والے ہر فرد میں یہی آرزو پیدا ہوگئی کہ یہ وحشی ہوم ٹیوٹر ان کے ہاتھ لگے تاکہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جاسکے جیسا کہ اس درندہ صفت ٹیچر نے معصوم بچے کے ساتھ کیا۔ سینے پر لاتیں، پیٹھ پر گھونسوں کی بارش اور دھوبی جس طرح کپرے پچھاڑتا ہے اس طرح اس نے بچے کو پچھاڑا۔ اگر CCTV نہ ہوتا‘ بچہ کی ماں فوٹیج نہ دیکھتی تو پتہ بھی نہ چلتا۔ بچوں کے ساتھ ٹیچرس کا سلوک‘ تعلیمی اداروں میں سخت سزاؤں کے خلاف مسلسل احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ ہر سطح پر نمائندگی بھی کی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود آئے دن طلباء و طالبات کے ساتھ بے رحمانہ سلوک سخت سزاؤں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ آخر اس پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکتا۔ کیا قانون اس معاملے میں بے بس ہے۔۔۔ ایسے ان گنت سوالات ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں۔
ٹیچر یا استاد کا درجہ والدین جیسا ہوتا ہے۔ ماں باپ تو اولاد پیدا کرتے ہیں اور اساتذہ انہیں اپنی تربیت سے انسان بننے میں مدد دیتے ہیں۔ بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پرکھتے ہوئے انہیں اُجاگر کرکے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے انہیں ان کی منزل تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔
بچے کی شخصیت پر عموماً اس کے گھر کے ماحول اور والدین کے اخلاق، عادات و کردار کا اثر ہوتا ہے۔ اگر یہ اثر منفی ہو تو اساتذہ اسے مثبت و تعمیری رخ دینے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس لئے ہر انسان اپنی ترقی اور کامیابی کا سہرا کسی حد تک اپنے اساتذہ کے سر بھی باندھتے ہیں۔ تاہم کچھ بچے اساتذہ کے منفی رویہ‘ اسکول کے خراب ماحول کی وجہ سے غلط راہوں پر نکل پڑتے ہیں۔ وہ جاہل رہ جانا‘ محنت مزدوری کرلینا گوراہ کرتے ہیں‘ مگر اسکول جانا نہیں چاہتے۔ اس طرح جو اساتذہ پتھر کو تراش کر ہیرا بناتے ہیں بعض اساتذہ ہیروں کو پتھر بنادیتے ہیں۔ وہ قوم کا اثاثہ بننے کے بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔
اسکول یا کالجس میں بچوں کو سزا دینے کا اساتذہ کو حق ہے یا نہیں‘ اگر ہے تو اس کی حد کیا ہے۔ اور کیا سزا دےئے بغیر کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا۔
چوں کہ طالب علم یا طالبہ استاد یا استانی کے لئے اولاد کی طرح ہوتے ہیں‘ اس لئے فطری طور پر شفقت کے ساتھ ساتھ ان کی غلطیوں پر سزا دینے کا بھی انہیں حق رہتا ہے۔ ضدی، اڑیل، کاہل، پڑھائی چور بچوں کو راہ راست پر لانے کے لئے ہلکی پھلکی سزائیں ضروری ہوتی ہیں۔ پرائمری اسکول کے بچے ٹیچر کی چھڑی سے ڈرتے ہیں۔ ٹیچر کا کمال یہ ہونا چاہئے کہ اِسے چھڑی کے استعمال کی کبھی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے۔ جب چھڑی یا بید سے پٹائی ہوجاتی ہے تو سزا کی حد اور اس کی شدت سے بچے واقف ہوجاتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ ان کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ اور وہ ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔ بعض ٹیچرس بید یا چھڑی کا اس قدر زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ اس کے نشانات عرصہ تک بچے کے جسم پر نظر آتے ہیں۔ اگر بچہ جسمانی طور پر کمزور ہو تو کبھی کبھار لینے کے دینے پڑجاتے ہیں۔ اگر ہڈی پر ضرب لگ جائے تو فریکچر یا ہڈی ٹوٹنے کے اندیشے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
بچوں کی مختلف طریقوں سے سزا دی جاتی ہے۔ بنچ پر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ مرغا بنایا جاتا ہے۔ ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان چاک، پنسل یا پین رکھ کر انگلیاں دبائی جاتی ہیں جس سے ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہے۔ بچوں کو کرسی کی شکل میں دیوار سے ٹیک لگاکر کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اُٹھ بیٹھ کی سزا عام ہے‘ دونوں کان مروڑنے کی بعض ٹیچرس کو بیماری رہتی ہے۔ کبھی دھوپ میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ جسم کے نرم حصوں پر چٹکی لینے کا طریقہ صدیوں پرانا ہے۔ زخم تو نہیں آتا۔۔۔ تکلیف ضرور ہوتی ہے۔
کبھی کلاس روم میں ایک لڑکے کو دوسرے لڑکے سے گال پر طمانچے لگوائے جاتے ہیں۔ کبھی لڑکے کو لڑکی اور کبھی لڑکی کو لڑکے سے بھی طمانچہ لگوائے جاتے ہیں۔ لنچ بریک میں باہر نہ نکلنے کی سزا دی جاتی ہے ۔ بعض اسکولس بالخصوص دیہی علاقوں میں بچوں کو الٹا بھی لٹکایا جاتا ہے یا پھر ایک ہی ٹانگ پر گھنٹوں کھڑا کردیا جاتا ہے۔
سزا چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو اگر بچے حساس ہوں تو اِن کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ اگر سرپھرے‘ ضدی قسم کے ہوں تو اسکول سے فرار ہوجاتے ہیں۔۔ گھر پر سختی کی جائے تو گھر سے بھی فرار ہوجاتے ہیں۔ آوارہ گردی کرنے لگتے ہیں۔ غلط راہوں پر چلنے لگتے ہیں غلط ہاتھوں میں پڑکر مجرمانہ روش اختیار کرنے لگتے ہیں۔
ماں باپ بچے کی فطرت کو اور ٹیچرس اس کی نفسیات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ چوں کہ بچہ زیادہ تر وقت اسکول میں گذارتا ہے‘ اس لئے ٹیچرس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی نفسیات کے مطابق اس کی صلاحیتوں کا استعمال کرے۔ اس سے ویسا ہی سلوک اختیار کرے‘ جو وہ سہہ سکتا ہے۔ ایک کلاس روم میں کئی بچے ہوتے ہیں‘ ہر ایک کی عمر یکساں ہوسکتی ہے مگر ہر ایک کے گھریلو حالات ایک دوسرے سے جداگانہ ہوتے ہیں۔ معاشی حالات‘ والدین کے آپسی تعلقات‘ بچوں پر ان کی کم یا زیادہ توجہ کا بچہ کی نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ جن کے ماں باپ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں یا جو بچے ماں باپ سے محروم ہوں وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ کلاس روم میں جسمانی طور پر حاضر رہتے ہیں مگر ذہنی طور پر غیر حاضر۔ جس کی وجہ سے وہ ٹیچر کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتے۔ جب پڑھائے ہوئے سبق سے متعلق ان سے پوچھا جاتا ہے تو وہ جواب نہیں دے پاتے۔ ٹیچرس اس موقع پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آحر چند بچوں کو اس کا پڑھایا ہوا سبق ذہن نشین کیوں نہیں ہوسکا۔ ان بچوں سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔ ٹیچرس کا درجہ ماں باپ کے مساوی ہے تو انہیں اپنے شاگردوں کے لئے کبھی ماں تو کبھی باپ کا رول بھی ادا کرنا چاہئے۔ کسی بھی بچے سے گھر ہو یا اسکول‘ اہانت آمیز سلوک کیا جائے تو وہ بچے باغی بن جاتے ہیں۔ ان میں اپنے ساتھیوں سے نفرت، حسد اور اپنے ٹیچرس سے بھی دشمنی کے جذبے پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جو بعض اوقات خطرناک ثابت ہوسکتے ہے۔ اکثر ایسے بچے آگے چل کر یہی سلوک اپنے بچوں کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔
اسکول میں بچوں کے ساتھ غلط رویہ اور بدسلوکی کے کئی طریقے ہیں‘ ان میں سے سب سے بدترین سلوک جنسی استحصال کیا جانا ہے۔ ان کی شخصیت غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ احساس کمتری، شرم کی وجہ سے بعض تو انتہائی اقدام کے طور پر خودکشی بھی کرلیتے ہیں۔ اور جو ایسا نہیں کرتے ان میں انتقامی جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ طلباء پر جنسی حملے‘ ان کے ساتھ ٹیچرس، لکچررس یا تعلیمی اداروں کے کسی بھی ذمہ دار کی بدسلوکی ناقابل معافی جرم ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہر روز اس قسم واقعات پیش آرہے ہیں جو والدین حالات کی پرواہ کئے بغیر ان واقعات کی شکایت کرتے ہیں وہی منظر عام پر آتے ہیں‘ ورنہ اکثر و بیشتر واقعات کی پردہ پوشی ہوجاتی ہے۔
بچوں‘ بچیوں کو سخت سزائیں دینے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی روایت صرف سرکاری اور خانگی اسکولوں تک محدود نہیں ہے بلکہ مشنریز اور دینی مدارس بھی اس قسم کے الزامات سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے دینی مدارس جہاں اقامتی سہولتیں ہوں وہاں سے زیادہ شکایات ملتی ہیں۔ طلباء سے ارباب انتظامیہ کے گھروں کی صفائی‘ برتن دھلوانے‘ سودا سلف لانے اور بعض ا وقات بانیان مدارس اور اثر و رسوخ والے اساتذہ کے سپرد رہنے کی بھی خدمات لی جاتی ہیں۔ چوں کہ یہ طلباء مجبور ہوتے ہیں‘ والدین انہیں انسان بنانے کی غرض سے اپنے سے اور اپنے وطن سے دور بھیجتے ہیں‘ بچے کی شکایت پر بھی توجہ اس لئے نہیں دیتے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ مدرسہ یا اسکول سے دور رہنے کے لئے اس قسم کے الزامات عائد کررہا ہے۔ طلباء کے ساتھ اہانت آمیز سلوک یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی ایک اور شکل ریاگنگ ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس کے خلاف سخت ترین قانون نافذ کیا ہے اس کے باوجود تعلیمی ادارے صد فیصد ریاگنگ کی لعنت سے محفوظ ہیں‘ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ریاگنگ کس قسم کے طلبا کرتے ہیں۔ احساس کمتری کے شکار وہ طلباء جو اپنے جونےئر طلباء کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرتے ہوئے انہیں اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہی طلباء ہوتے ہیں جو اپنے ماں باپ کی محبت، اور اساتذہ کی توجہ سے محروم رہ گئے ہیں۔ اگر ان کی ابتداء ہی سے اچھی تربیت ہوتی تو وہ جونےئر اسٹوڈنٹس کی ریاگنگ کی بجائے ان سے حسن سلوک کے ذریعہ ان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے۔
بہرحال تعلیمی اداروں میں بچوں کو سخت سزا‘ اقوام متحدہ کی قرار داد برائے حقوق اطفال کی خلاف ورزی ہے۔ تعزیرات ہند کی دفعات (88) کے تحت طلباء کو سخت سزا کی پاداش میں اساتذہ ان سہولتوں اور مراعات سے محروم ہوسکتے ہیں جو ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی خاطر فراہم کئے جاتے ہیں۔ بچہ اگر زخمی ہو (دفعہ 319)، تشویشناک حد تک زخم لگے ہو (دفعہ320) طاقت کا استعمال (دفعہ 349)، مجرمانہ طاقت کا استعمال (دفعہ350)، حملہ (دفعہ353) کے تحت والدین‘ اساتذہ کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتے ہیں۔ والدین ٹیچرس یا اسکول انتظامیہ کے خلاف اس قسم کی کاروائی کریں‘ ایسی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے۔ اس سلسلہ میں جہاں اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری اہم ہے وہیں پیرنٹس اسوسی ایشن کو بھی اہم رول ادا کرنا چاہئے۔

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے