تری عزت ترے ایمان سے وابستہ ہے!!
از قلم :عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
انسان پر اللہ تعالی کے ان گنت احسانات اور انعامات ہیں ان تمام نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت" ایمان" کی نعمت ہے ،روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی اورنعمت موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش و سہولت،آرام وراحت چارروزہ اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشااور فرمایا : آج میں نے تمہارے لیے تمھارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)اور اسی نعمت پراپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتےہوئےارشادفرمایا:دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(الحجرات:)
اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان ومذاہب کےدرمیان منتخب فرمایاہے۔
نعمت ایمان کا حامل گوحالات سے دوچار اور حوادث سے نڈھال ہو؛مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی عطاکریں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے (سورۃ النحل،آیت 97)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے ہر مردو عورت کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کرنے اور آخرت میں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے؛لیکن اس شرط پر کہ عمل کرنے والا ،خواہ مرد ہو یا عورت،نعمت ایمان سے سرفرازہو۔اس سے معلوم ہوا کہ دنیا و آخرت کی کامرانی و کامیابی کے لیے ایمان ہی بنیادی حیثیت رکھتاہے۔
مولانا سیدسلیمان ندویؒ کے بہ قول : اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے، وہ ہماری سیرابی کا اصلی سرچشمہ ہے، جس کے فقدان سے ہمارے کاموں کی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں رہتی، کیونکہ وہ دیکھنے میں تو کام معلوم ہوتے ہیں مگر روحانی اثر و فائدے سے خالی اور بے نتیجہ ہوتے ہیں، خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول ہمارے اعمال کی غرض و غایت ہے، یہ نہ ہو تو ہمارے تمام کام بے نظام اور بے مقصد ہوکر رہ جائیں، وہ ہمارے دل کا نور ہے، وہ نہ ہو تو پوری زندگی تیرہ و تاریک نظر آئے اور ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ریاء، نمائش، جاہ پسندی، خود غرضی اور شہرت طلبی وغیرہ کے دنی جذبات اور پست محرکات کے سواء کچھ اور نہ رہ جائے۔
اس تمہیدی گفتگو سےایمان کی عظمتِ شان اور جلالتِ مکان کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ،مختصر یہ کہ جہاں ایک طرف ایمان لانا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونا، دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ،اندھیروں سے روشنی میں آنےکاسبب، دوزخ سے چھوٹنے اور جنت میں داخل ہونے کا وسیلہ ہے،وہیں دوسری طرف ایمان کے قلادے کو گلے سے نکال پھینکنا ،خود کو زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑدینا،نعمت ایمان کی ناقدری کرنا اورارتداد کی راہ اختیار کرلینا ،اتنا ہی برا جرم اور موجب مواخذہ عمل ہے۔
پچھلے چند ماہ سے اخبارات و سوشل میڈیا کے ذریعہ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے میں ارتداد کی لہر دوڑنے اور دین اسلام کو خیرباد کہنے کے متعدد واقعات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں ،پہلے نوجوان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ معاشقےتبدیلئ دین وملت کا سبب بنتے تھے؛مگر اب بہ کثرت عصری تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان مسلم لڑکیوں کے سلسلہ میں ارتداد کی خبریں مسلسل گشت کررہی ہیں،معتبر اطلاعات کے مطابق کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلم لڑکیوں کے درمیان ایسے طلباء تیار کرکے چھوڑے جارہے ہیں جو درحقیقت آر ایس ایس کے ایجنٹ ہیں ،وہ اپنے جھوٹے عشق اور دام محبت میں الجھا کر دین سے برگشتہ کرنے کی سازش کررہے ہیں،کئی مقامات میں رونما ہونے والے واقعات نےہردردمنددل رکھنے والے مسلمان کو مکمل طوپر اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہےکہ دشمنان دین و ملت کس طرح ملت کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں۔ پٹنہ سے لیکر ہریدوار تک اور دہلی سے لیکر آسام تک ارتداد اور دین بیزاری کی خوفناک لہر چلائی جا رہی ہے۔اسی طرح ممبئی ،دہلی ،حیدرآباد اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں دفتروں کےاندر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی مسلم لڑکیوں کے سلسلہ میں بھی ارتدادکے متعدد واقعات روز بروز سامنے آرہے ہیں جو وابستگان اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ اور ہماری دینی حمیت کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں:
کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا کیسا ہے؟ اس میں اسلامی قانون کی کیسی خلاف ورزی پائی جاتی ہے؟اور اس طرح کرنے والا دائرۂ اسلام میں رہتاہے یا خارج ہوجاتاہے ؟آئیےہم اس سلسلہ میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔چناں چہ غیرمسلم مرد سے نکاح کے بارے میں قرآن پاک کا صاف اور کھلا حکم موجودہے: اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ( سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
یہ حکم کس قدر اہميت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن نے صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مومن مرد اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کرنےکےساتھ اس کی حکمت اور وجہ بھی بیان کردی۔ اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو اس وقت تک منع قراردیاجب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں ۔ پھر فوراہی فیصلہ کن انداز میں اس صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں بیان کیا: ”ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے ” ۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللّٰہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے؛اس لیے اخیر میں شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کیے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔
پتہ چلا کہ صدق دل سے اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی غیر مسلم کا نکاح مسلمان خاتون کے ساتھ جائز نہیں، نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، ازدواجی تعلق حرام کاری کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے، ایمان جیسی قیمتی دولت کو جنسی خواہش کی بھینٹ چڑھا دینا اور غیر مسلم کی ہمہ وقت صحبت و معیت اختیار کرکے اپنے دین و ایمان کو خطرہ میں ڈالنا کس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی بدکاری کی حالت میں دین و ایمان کا سلامت رہ جانا بھی دشوار ہے، اسی حالت میں موت آجانے کی صورت میں آخرت میں جو انجام ہوگا، اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک مسلمان بندی اپنے خالق و مالک کے روبرو کس طرح کھڑی ہوگی اور اپنے اعمال و ایمان کا کیا جواب اس کے پاس ہوگا؟حضرت محمدﷺ جن کے طفیل ہمیں دین وایمان کی دولت ملی، انہوں نے ایک ایک امتی کے لیے کیسی کیسی دعائیں کیں، مسلمان بندی ان کو کیا منہ دکھائے گی، اپنے دین و ایمان کوغارت کرنے کا کیا جواز وہ پیش کر سکے گی؟
ارتداد کے بنیادی اسباب :
غور کیاجائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تواس برائی؛بل کہ بےحیائی کےبہت سارے اسباب ہیں ؛جن میں فحش وناجائزتعلقات پرمبنی ٹی وی سیریل ،موبائیل کا غلط استعمال،مخلوط نظام تعلیم، ذاتی طورپردینداری کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان وغیرہ سر فہرست ہیں،آج عفت وعصمت ،پاکیزگی وپاک دامنی کی کوئی فضیلت واہمیت دلوں میں باقی نہ رہی؛ بل کہ عفت وعصمت کی قدروں کو پامال کرنا، ایک فیشن بن گیا اور جو شرم وحیاء اور عصمت کی بات کرے وہ ان لو گوں کی نظرمیں دقیانوسی اور حالات زمانہ سے بے بہرہ اور تاریک خیال ٹھہرا یاگیا۔اخلاق وشرافت، تہذیب وانسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی، دنائت و بدتہذیبی نے لے لی اور انسانیت واخلاق کی توہین کرنا ،ایک محبوب مشغلہ بن گیا ۔ آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی فرق ہے؟آج کی نسل طہارت کے موٹے موٹے مسائل بھی نہیں جانتی !ہمارے بچوں کو محرم ونامحرم کسے کہتے ہیں اس کی بھی تمیز نہیں !یہ کتنے افسوس بات ہے کہ کھانے کے لیے جینا اور جینے کے لیے کھانا ہمارا مقصد بن چکاہے ،ہمیں اپنے دین کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ،والدین کو اولاد کی تربیت کاکوئی احساس نہیں ،نوجوانوں کو اپنےدینی مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہر شخص ذمہ داری کے احساس سے خالی ہے جب کہ سرکار دوعالم ﷺفرمارہے ہیں :تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ ادرای کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔(متفق علیہ)
عہد نبوی کا ایک فکرانگیز واقعہ:
خواتین کی ایمانی غیرت ، دینی حمیت اورمذہبی وابستگی کاعہدنبوی میں پیش آمدہ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جب بیوہ ہوئیں تو مدینہ منورہ کے ایک رئیس زادےابو طلحہ نے شادی کا پیغام بھیجا ،اس وقت ام سلیم تو مسلمان ہوچکی تھیں؛مگر ابو طلحہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے،لہذا ام سلیم نے یہ دو ٹوک جواب دے کر ان کے پیغام کو رد کردیا کہ اے ابو طلحہ! اللہ کی قسم آپ کی وہ حیثیت ہے کہ آپ کا پیغام رد نہ کیا جائے؛لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کافر ہیں، میں مسلمان ہوں اور کسی مسلمان عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کافر کے ساتھ شادی کرے( مسند احمد ، سنن نسائی ) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ابھی مسلم و کافر کی شادی کے بطلان کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا پھر بھی ایک مسلمان عورت کی غیرت اور عزت نفس دیکھئے کہ اپنے کو کسی کافر کی ماتحتی اور نگرانی میں دینا گوارا نہیں کیا ۔
الغرض: مسلم لڑکیوں کی اس بے راہ روی کے حقیقی مجرم ان کےوالدین ہیں؛ کیونکہ باپ ماں نے نہ تو اپنے گھر کا ماحول دینی رکھا ، نہ ہی اولاد کو دینی اقدار سکھلائے اور نہ مومن و کافر کا حقیقی فرق بتلایا ، ان کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہی کہ میری بیٹی اعلی تعلیم حاصل کرلے ، اسے اچھی نوکری مل جائے؛ لیکن اس طرف قطعا توجہ نہ دی کہ ان حالات میں میری بیٹی مسلمان بھی رہ جائے گی کہ نہیں ؟ انہیں یہ فکر تو صبح و شام ستاتی رہی کہ میری بیٹی ڈاکٹر بن جائے ، انجنیئر بن جائے لیکن مومن و مسلمان بھی بنے اس کے بارے میں شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو ، ان کی یہ کوشش ضرور رہی کہ میری بیٹی اچھے نمبرات حاصل کرے اسے اچھا ٹیوٹر ملے؛لیکن اس بارے میں کبھی خیال تک نہ گزرا کہ میری بیٹی کا استاذوٹیچر دین و اخلاق کا مالک ہے یا نہیں ؟اس کے کالج یا اسکول کا نظام مخلوط ہے یا علیحدہ ، اگر بیٹی امتحان میں کم نمبر سے پاس ہوتی ہوگی تو سخت برہمی کا اظہار کیا ہوگا مارنے کی دھمکی دی ہوگی؛لیکن لڑکی نے نماز میں کوتاہی کی ہوگی تو اسکے عوض ماتھوں پر بل نہ آئے ہوں گے ، ان کی توجہ اس پر تو مرکوز رہی ہوگی کہ میری بچی انگریزی زبان بولنے اور سمجھنے لگے لیکن یہ کبھی نہ سوچا ہوگا کہ اسے قرآن مجید کا صرف ترجمہ ہی پڑھا دیا جائے ، غرض یہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے سونپی گئی حقیقی ذمہ داریوں کو وہ بھولے رہے ، انہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے اوپر اولاد کی کیا ذمہ داری رکھی ہے ؛جب کہ اللہ تعالی کاارشادہے: " ایمان والو ! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں " ۔(التَّحريم:6)نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جس کسی بندے کو اللہ تعالی رعایا کی ذمہ داری دیتا ہے اور اس کی موت اس حالت میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ کرنے والا ہے تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کردیتا ہے( صحیح بخاری و صحیح مسلم ) ۔
ہمارے مسلم نوجوانوں کا حال بھی علامہ اقبال کی اس منظر کشی کے عین مطابق ہے،وہ ارقام فرماتے ہیں : آج کے نوجوان تشنہ لب ہیں، ان کے دل کا پیالہ شراب عشق سے خالی ہے، چہرے دھلے دھلائے، صاف ستھرے (فیشن کے دل دادہ) مگر جان اندھیروں میں گھری ہوئی ہے، (ایمان کی شمع فروزاں گل ہو چکی ہے)، (بس علوم مغربی سے) دماغ روشن ہیں، نہ (زندگی کے مسائل پر) ان کی نظر ہے، نہ (حقائق کے متعلق انہیں) یقین حاصل ہے، نہ (مستقبل کے بارے میں انہیں کچھ) امید ہے، انہوں نے دنیا میں آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان نا اہلوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی خودی سے تو انکار کرتے ہیں اور غیروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں (جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ) بت خانہ تعمیر کرنے والا معمار ان کی مٹی سے بنی ہوئی اینٹوں کو اپنی عمارت میں لگا رہا ہے (اغیار اپنی ترقی کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں) ہماری درسگاہوں کو (جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں) اپنی منزل مقصود ہی کا پتا نہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے (اور حقیقی مقصد کی طرف انہیں) متوجہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ان درسگاہوں نے نوجوانوں کے دلوں سے فطرت کے نور کو بالکل دھو دیا ہے، ان میں سے ایک طالبعلم بھی ایسا نہیں نکلا جسے (گلشن اسلام کا) گل رعنا کہا جا سکے۔ ہمارا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے، ہمارے معلمین ابتدا ہی سے شاہین کے بچوں میں بطخوں کی عادتیں پیدا کرتے ہیں۔ علم جب تک زندگی سے سوز و ساز حاصل نہ کرے، اس وقت تک طالب علم کا دل اپنے افکار سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ تجھے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے جو مدارج عالیہ عطا کیے گئے ہیں ان کی تشریح و تفصیل ہی کا نام علم ہے، فطرت کی جو نشانیاں تجھے دی گئی ہیں علم ان کی تفسیر کے سوا اور کیا ہے؟ تجھے پہلے اپنے وجود کو محسوسات کی آگ میں تپانا چاہیے اس کے بعد کہیں تو یہ سمجھ سکے گا کہ تیری چاندی (اسلامی تہذیب) اور غیروں کے تانبے (مغربی تہذیب) میں کیا فرق ہے۔ حقیقت کا علم سب سے پہلے حواس ظاہری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا آخری درجہ حضور قلب سے میسر آتا ہے، معرفت حق کا یہ اعلیٰ مقام شعور میں نہیں سما سکتا، اس سے ماورا ہوتا ہے۔(خطاب بہ جاوید)
کرنے کے اہم کام :
ارتداد کی اس تیز و تند آندھی کو روکنے اور اس سیلاب بلا خیز پربندھ لگانےکےلیے معاشرے کے تین طبقات پر تین بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر نقل و حرکت پر غیرمحسوس طریقے سے نظر رکھیں،بچپن ہی سے انہیں اسلامی تعلیمات اور نبوی اخلاق کا پابند بنائیں، مغربی کلچر اور بےحیا تہذیب سے کوسوں دور رہنے کی تلقین کریں، بلوغ کے بعد نکاح میں عجلت سے کام لیں،پڑھائی کے عذر کو ہرگز اس راہ میں حائل نہ ہونے دیں،ادراک وشعور سے پہلےموبائل اور انٹرنیٹ سے حتی الامکان بچائیں اور اگر ناگزیز ضرورت کے سبب اجازت بھی دیں تو مثبت ومنفی استعمال کی کڑی نگرانی کریں۔
علماء امت اور ائمہ مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوان طبقہ سے اپنے تعلقات استوار کریں،انہیں مختلف حیلوں سے اپنے قریب کرتے رہیں اور یاد رکھیں یہ زمانہ کنویں کو پیاسے کے پاس خود جاکر تشنگی بجھانے کا ہے؛تاکہ اسلام اور ایمان کی عظمت و رفعت ان کے ذہن و دماغ میں جاگزیں کی جاسکے۔نسل نو کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس بات سے آگاہ کریں کہ ایمان اور اسلام ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا سرمایہ اور دولت گراں مایہ ہے؛اس لیے کہ دونوں جہاں کی کامیابی اسی ایمان پر منحصر ہے ۔ انہیں مکی دور میں صحابہ کرام کے مجاہدات سے روشناس کرائیں اور بتائیں کہ ایمان و اسلام کی حفاظت اور بقا کےلئے ادنی سا ادنی مسلمان جان، مال اور عیال سے گذر جانا تو گوارا کرلے گا؛لیکن اس سرمایے پر کسی سمجھوتے اور سودے کےلئے تیار نہيں ہوگا،کیوں کہ محسن انسانیتﷺ نے حضرت معاذ ؓ کے واسطے سے پوری امت کو یہ وصیت فرمائی ہے کہ ” کسی حال میں شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کردیئے جاؤ یا جلا دیئے جاؤ ( مسند احمد ) ” ۔
اسی مضمون پر مشتمل پوری ایک سورت قرآن میں سورہ کافرون کے نام سے موجود ہے ۔ اس سورت کا بنیادی مضمون ہی یہ ہےکہ کفر اور شرک پر کسی صورت میں کوئی مصالحت نہيں ہو سکتی۔
دینی وملی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موضوع کو مستقل تحریک کی شکل دے کر شعور بیداری مہم چلائیں، شہرشہر،گھر گھر،قریہ قریہ،چپہ چپہ اس حوالے سے لوگوں کو بیدار کریں،بڑے پیمانے پر مکاتب کا قیام اور تعلیم بالغان کا اہتمام کیاجائے،نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کے لیے چھوٹے چھوٹے ورک شاپ منعقد کیے جائیں،اجتماعی شادیوں کا انتظام بھی اس سلسلہ میں موثر اقدام کی حیثیت رکھتاہے۔
اخیر میں ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بارگاہ ایزدی میں استقامت علی الایمان کی دعائیں کریں،اللہ سے گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنی اپنی حیثیت و وسعت کے مطابق دین وایمان کے تحفظ کا سامان کریں ۔لعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً
جواب دیں