تعلیم گاہ کو نفرت سے بچانا ضروری!

  تحریر: جاوید اختر بھارتی 

ہمارا ملک بھارت ایک طرف چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے پوری دنیا بھارت کی تعریف کرنے کے لئے اور بھارت کو مبارکباد پیش کرنے کے لئے مجبور ہے خود ہندوستان میں لوگ ذات برادری و مذہب سے اوپر اٹھ کر قومی تہوار کے انداز میں خوشیاں منا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کررہے ہیں لیکن ملک میں ایسے شرپسند عناصر بھی ہیں جن کو یہ سب کچھ آسانی سے ہضم نہیں ہوتا وہ دن رات مذہبی منافرت کی آگ میں جلتے بھنتے رہتے ہیں وہ کبھی انسانیت کی بنیاد پر نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کے فروغ کے لئے دو قدم چلتے ہیں ان کی آنکھوں پر ہندو مسلم کی عینک چڑھی رہتی اور اسی نفرت و تعصب کی دین ہے کہ کب کہاں کس کا دماغ خراب ہو جائے گا اور انسانیت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہو جائے گا نفرت کا اظہار کرنا شروع کردے گا،، کبھی اذان پر اعتراض تو کبھی نماز پر اعتراض، کبھی مساجد نشانے پر تو کبھی مدارس نشانے پر ، کبھی مذہبی کانفرنس و سمیلن کے نام پر نفرت انگیزی تو کبھی جلوس نکال کر مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی تنگ آکر مسلمان اپنا دفاع بھی کرے تو جرم ہوجاتاہے پھر گرفتاریاں ہوتی ہیں مکانوں اور دکانوں کو بلڈوزر سے ڈھادیا جاتاہے دن بدن فرقہ پرستی کا ننگا ناچ بڑھتا ہی جارہا ہے فرقہ پرستوں کے ذریعے ملک کی فضا کو زہر آلود بنایا جارہا ہے اور حکومت سب کچھ دیکھ رہی ہے اور تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ اب تو لگتا ہے کہ حکومت فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے تبھی تو کبھی ہجوم کی شکل میں کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ، کبھی ٹرین میں سفر کے دوران فائرنگ کرکے خون خرابہ کیا جاتا ہے کبھی کانوڑ یاترا نکال کر مسجد کے قریب زہر افشانی کی جاتی ہے اور مسلمانوں پر پتھر پھینکنے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی بستی کو آگ لگادیا جاتاہے تو کبھی کسی غریب اور کمزور کے چہرے پر پیشاب کردیا جاتاہے آج سے حکومت منصفانہ کاروائی شروع کردے تو ملک کی تصویر بدل جائے گی اور بھارت امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کے آئین کے تحت ہندوستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والے اور سانس لینے والوں کے تحفظ کیلئے اور ملک کو فرقہ پرستی سے پاک کرنے کے لئے ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا جاتا جس سے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور اس مقام تک نفرت کی چنگاری پہنچ گئی کہ جہاں سے نفرت کی آگ کو بجھانے کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور تربیت بھی کی جاتی ہے-

حال ہی میں اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے ایک اسکول میں ایک چھوٹے بچے کو اسکول کی ٹیچر ترپتا تیاگی نامی خاتون نے دوسرے بچوں سے تھپڑ مروایا کلاس میں جس بچے کو طمانچہ مروایا گیا وہ بچہ مسلم ہے اور جن بچوں سے تھپڑ مروایا گیا وہ بچے ہندو ہیں جب ویڈیو وائرل ہوا تو پورے ملک میں غم وغصے کا اظہار ہونے لگا تو چند چاپلوس اسکولی بچوں کو گلے ملوانا شروع کردیتے ہیں جبکہ ہندو بنام مسلم اسکول کے بچوں میں تو دشمنی تھی ہی نہیں تو پھر مارو گھٹنا پھوٹے سر والا قدم کیوں اٹھایا گیا چوٹ سر میں لگے اور ٹانکا پیٹ میں لگایا جائے کیا اس طرح مرض کا علاج ہوسکتا ہے ہرگز نہیں ،، اس خاتون ٹیچر ترپتا تیاگی کے دل و دماغ میں مسلمانوں کے تئیں اس قدر نفرت بھری ہوئی ہے کہ کوئی بچہ آہستہ سے طمانچے مارتا ہے تو کہتی ہے کہ تمہارے ہاتھوں میں طاقت نہیں ہے باری باری سب مارو اس مسلم لڑکے کو اور زور زور سے مارو میں مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے بچوں کو دیکھنا نہیں چاہتی ،، یہ تو سچ ہے کہ تم مسلمانوں کو دیکھنا نہیں چاہتی لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم ایک اسکول کی ٹیچر ہو جبکہ ملک کی آزادی کے بعد سب سے پہلا وزیر تعلیم ایک مسلمان ہی ہوا تھا جس کا مقام ومرتبہ اتنا بلند ہے اور تحریک آزادی میں وہ کردار ہے کہ تم ان کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتی اس مایہ ناز شخصیت کو مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے جانا جاتا ہے اور یاد کیا جاتا ہے دوسری شخصیت جس نے ملک کو ایٹمی طاقت دی جنہیں اے پی جے عبدالکلام کے نام سے جانا جاتا ہے تمہیں مسلمانوں سے نفرت ہے اور نفرت کی چنگاری تمہاری آنکھوں میں تعصب کی عینک بنی ہوئی ہے تبھی تو تم نے دہشت گردی والا کام کیا ہے ورنہ اسکول جہاں اچھائی اور برائی کی پہچان کرائی جاتی ہے ،چھوٹے اور بڑے کا ادب واحترام سکھایا جاتاہے ،جہاں جینے کا سلیقہ بتایا جاتا ہے درسگاہ میں بچے استاد کا کنبہ مانا جاتا ہے اور کنبے کو اچھی تعلیم دی جاتی ہے اور بہترین تربیت کی جاتی ہے اور یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ بچے ملک کے مستقبل ہیں اور ملک کا مستقبل روشن رکھنا سب کی ذمہ داری ہے،، یہ بھی کہاوت ہے اور حقیقت بھی ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ بچوں کو جو سکھایا جائے گا وہی وہ سیکھیں گے، جو پڑھایا جائے گا وہی وہ پڑھیں گے اور جو بتایا جائے گا وہی وہ جانیں گے،، اب یہ کتنی حیرت کی بات ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ جس کی ذمہ داری ہے بچوں کو پیار محبت کا پیغام عام کرنے کی تعلیم دینا وہی بچوں کے دل و دماغ میں مذہبی منافرت پھیلانے کا طریقہ سکھا نے جیسی ناپاک حرکت کرنے پر آمادہ ہے،، جب ملک بھر میں غم وغصے کا اظہار ہونے لگا تو ترپتا تیاگی معافی مانگنے لگی لیکن اسی بیچ بھگوا عناصر اس کی حمایت میں آگئے اور اس نے پھر اپنا تال سر بدل کر بے حیائی اور ڈھٹائی ظاہر کرنے لگی اور کہنے لگی کہ مجھے اپنے کئے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے یاد رکھیں کہ 

 ایسی حرکت کسی دہشت گردی سے کم نہیں ہے ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ اسکول کے کلاس میں ایک بچہ کھڑا ہے سارے کلاس فیلو باری باری اس کے قریب آکر تھپڑ مار رہے ہیں اور خود کلاس کی ٹیچر مارنے کا حکم دے رہی ہے وہ بچہ اپنے آپ کو کتنا کمزور اور بے یارومددگار محسوس کرتا رہا ہوگا باپ غربت کے مارے کہہ رہا ہے کہ مجھے ایف آئی آر نہیں کرانی ہے ، مجھے عدالت کی خاک نہیں چھاننی ہے یقیناً اسے اپنی حیثیت کا احساس ہوگا اس وجہ سے وہ ایسی بات کہہ رہا ہے ورنہ سوچنے کی بات ہے کہ جس کا بیٹا اس طرح سے مار کھائے اس باپ کے دل پر کیا گذری ہوگی لیکن اس تعصب و تنگ نظر ٹیچر کے خلاف کاروائی تو ہونی چاہئے اور سخت کارروائی ہونی چاہئے اور اس کی جتنی بھی تدبیریں ہیں سب اپنانی چاہئے اور یہ کام ملی تنظیموں کا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں اور اس ٹیچر کو سبق سکھائیں آخر کس دن کے لئے ملی تنظیمیں ہیں صرف پریس ریلیز اور مذمت سے کام چلنے والا نہیں ہے اگر ملی تنظیموں نے قدم آگے نہیں بڑھایا تو پھر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ مسلم رہنماؤں کا وہ نعرہ بھی کھوکھلا ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بناؤ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ آگے پھر کسی اسکول میں ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کہیں کچھ ہوتا ہے تو وہ روایت چل پڑتی ہے اس لئے ایسی روایت اور ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی شعبہ اور تعلیمی میدان خوف و دہشت سے بالکل پاک ہو اور نفرت و تعصب سے بھی پاک ہو-

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

ہندوتوا‘کی سیاست کا سماجی مساوات کے نعرے کے ذریعہ مقابلہ

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے