تحریر: منزہ فردوس بنت عبدالرحیم آکولہ
جس طرح کسی بھی فرد کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ اسی طرح اقوام کی بنیاد بھی تعلیمی فلسفے کے ذریعے ہی پڑتی ہے۔اور افراد اور اقوام تعلیمی فلسفے کے ذریعے ہی اپنے نصب العین تہذیب و تمدن اور معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ تعلیم کی اہمیت بلاشبہ علم ہی انسانیت کی معراج ہے آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کچھ چیزوں کے نام سکھائے تھے وہ علم ہی تو تھا جس کی وجہ سے آدم علیہ السلام مسجود ملائک ٹھہرے!
علم ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز کرتا ہے۔اور اسلام نے بھی اپنے ظہور کے اول دن سے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم پر اقرا کے حکم کے ذریعے جہالت کی تاریکیوں میں علم کی روشنی اور اس کی عظمت و اہمیت کو واضح کیا۔اسلام میں علم کی اہمیت معلم انسانیت خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهٖ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّةِ" جو ایسے راستے پر چلے جس میں علم کو تلاش کرے، اس کے سبب اللہ عَزَّ وَجَل اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔مسلم، کتاب الذکر و الدعاء حدیث: 2699
مشہور عربی مقولہ ہے "تعلیم الام تعلیم الامۃ ایک ماں کی تعلیم پوری امت کی تعلیم ہے"۔بلاشبہ قوم کے نونہالوں کی نیک اور صالح تربیت اور نشو و نما میں ان کی ماؤں کا اہم رول ہوتا ہے۔کسی بھی قوم یا معاشرے کی اصلاح اور تعمیر میں جو بنیادی کردار خواتین ادا کرتی ہیں اس سے ہر خرد مند واقف ہے۔چاہے وہ بچوں کی نشوونما ہو یا معاشرے کی فلاح و بہبود اور اصلاح اس کا تعلق مردوں کی نسبت عورتوں سے زیادہ ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: اصلاح قوم آپ کو منظور ہو اگر
بچوں سے پہلے ماؤں کو تعلیم دیجئے
اسلام نے ہی عورت کو عزت اور تحفظ دیا اور تمام حقوق عطا کیے۔اسلام نے شروع ہی سے جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام راہیں ہموار رکھی ہیں۔ اسی طرح اس دینِ حنیف نے عورتوں کو بھی تمام حقوق کے ساتھ تعلیم کا حق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیا ہے۔ اور ہر دور میں مردوں کے شانہ بشانہ دختران اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہی ہیں جنہوں نے اطاعت گزار بیٹی،وفا شعار بیوی اور سراپا شفقت بہن ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اپنے علم و فن کا ڈنکا بجایااور ان کے علم و تحقیق کے لاتعداد خرمن آج بھی آباد ہیں۔
امہات المومنین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا علم الفرائض کی ماہر تھی اور ایک وقت میں ان کی مجلس میں کئ تابعین علم حاصل کرنے کے لئے شامل رہتے تھے۔اسی طرح دور صحابیات اور دور تابعیات اور ان کے بعد کی خواتین کے زمانے میں بھی اس طبقے میں ہمیںبڑی عالمہ زاہدہ اور امت کی محسن وہ باکمال خواتین ملتی ہیں۔ جن میں سرفہرست صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی بہن ہےجنہوں نے دمشق میں مدرسہ قائم کروایا تھا اور وہ آج تک قائم ہے۔
موجودہ نظام تعلیم مذکورہ حقیقتوں سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح اسلام نے خواتین کو عزت اور حقوق عطا کئے اسی طرح تعلیم کا حق بھی عطا کیا لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظام تعلیم کی (co-education)کو ایجوکیشن مخلوط نظام تعلیم جو کہ مغربی نظام تعلیم ہے جو عورت کی عصمت و عفت کی چادر کو تار تار کرنے کی چال ہے جس کی اسلام کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا۔اللہ تعالی نے مرد اور خواتین کی ذمہ داریاں اور فرائض الگ الگ رکھے ہیں تو دونوں کا تعلیمی نظام اور تربیتی مضامین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہونا چاہیے۔
مخلوط تعلیم کے نقصانات
مخلوط تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہ عورت سے اس کی نسوانیت چھین لیتا ہے لہذا صنف نازک کی فطری نزاکت کے لیے یہی چیز موضوع ہے کہ وہ وہی علم حاصل کریں جو اسےنسوانیت کے زمرے میں ہی رکھے اور اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کرے نہ کہ وہ ایسے علوم کے دلدادہ ہو جائے جو اسے زن سے نا زن بنادے۔
بقول علامہ اقبال جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت
مخلوط نظام تعلیم تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے پستی کا سبب بن رہا ہے اس کے نقصانات کا مشاہدہ ہم موجودہ معاشرے کا جائزہ لے کر کرسکتے ہیں کس طرح کالج اور یونیورسٹی کے حوالے سے اخبارات میں خبریں شائع ہوتی ہیں۔کوئی اخبار ایسی خبروں سے خالی نہیں رہتا جس میں مخلوط نظام تعلیم کے کسی برے اثر کا تذکرہ نہ رہتا ہو۔
ایک تباہ کُن اثر
مخلوط تعلیم کا سب سے برا اثر ملت اسلامیہ کی نئ نسل لڑکیوں اور لڑکوں کے دین و اخلاق پر پڑ رہا ہے۔خصوصا لڑکیوں کی ارتداد کی خبریں ہرجگہ سے آ رہی ہیں!اور میری نظر میں تو یہ سب سے تباہ کن اثر ہے۔چوں کہ ابتدائی جماعتوں سے ہی جب کلاس میں لڑکے اور لڑکیوں کو ساتھ بٹھایا جاتا ہے تو بچپن ہی سے ان کے اندر سے شرم حیا ختم کروائی جاتی ہے پھر کالج اور یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے لڑکیاں کئ خرابیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔
حالات حاضرہ میں دل دہلا دینے والے لڑکیوں کے ارتداد کے جو مسٔلے سامنے آرہے ہیں اس کی وجہ یہی مخلوط نظام تعلیم ہی تو ہے۔ نادان مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے جھانسےمیں آ کرصرف چند روز کی دنیاوی زندگی کے لیے اپنی آخرت کو خسارے میں ڈال رہی ہیں والدین کو عار و شرمندگی سے روشناس کروا رہی ہیں!اپنا ایمان جیسے قیمتی متاع کا سودا کر رہی ہیں اس سے بڑا اور کیا خسارہ ہے!(اہل خرد کو اس پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیےکہ ہم اس خسارہ عظیم سے بچنے کے لیے کیا اقدام کر سکتے ہیں.)
جب عقائد ہی متزلزل ہو جاتے ہیں تو اخلاق کہاں سے آئے گا؟ معرفت حشر نشر ہی نہیں تو خدا ترسی کہاں سے آئے گی؟ خوف خدا اور اخلاقی اقدار کہاں سے آئے گی؟
عزیز قارئین ! اسلام دنیاوی علوم کا منکر نہیں ہے لیکن یہ دیکھا جائے کہ علم نافع ہے یا نہیں اور اسلام عورتوں کی تعلیم کا بھی منکر نہیں ِالّا یہ کہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوئے حاصل کریں۔ "اسلام عورتوں کو تعلیم سے نہیں روک سکتا کیونکہ تعلیم تربیت بھی ہیں۔تعلیم خود شناسی کا نام ہے اور خدا شناسی بھی مگر افسوس موجودہ نظام تعلیم میں تعلیم کا یہ مقصد ہی نہیں یہ تو لارڈ میکالے کا لایا ہوا نظام تعلیم ہیں!"خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ!
کیا ہی اچھا ہو کہ مثبت اسلامی سوچ رکھنے والا طبقہ اس کے خلاف تحریک چلائے لیکن صرف تحریک چلانے سے کیا ہوگا نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور والدین کو بھی مخلوط تعلیم کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جائے!آخر میں لڑکیوں کو میں ایک پیغام دینا چاہوں گی۔
"تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو"
(اکبر الہ آبادی)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں