تعلیم یامعیاری تعلیم

اسکول چھوڑنے (Dropout)میں جہاں بچے یا ان کے والدین کی تعلیم کے لئے سنجیدگی اور معاشی حالات کا دخل ہے وہیں اسکول میں بچوں کی تعداد کے لحاظ سے جگہ و اساتذہ کی کمی بچوں کی طرف سے اساتذہ کی بے توجہی ،داخلوں میں دشواری اور لڑکیوں کے لئے الگ بیت الخلاء کا نہ ہونا جیسی وجوہات بھی شامل ہیں ۔
سرکار نے اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے 2009میں بچوں کے لئے مفت لازی تعلیم ایکٹ (RTE)لاگو کیا گیا تھا ۔اس ایکٹ کے تحت سرکار نے 8ویں کلاس تک مفت تعلیم دینے کی ذمہ داری اپنے زمہ لے لی ۔ بظاہر سرکار کا یہ مثبت قدم تھا ۔ لیکن دوسری اسکیموں کی طرح اس کا زمینی سطح پر الٹا اثر ہوا ۔اس ایکٹ میں مفت تعلیم کے ساتھ یہ شرط بھی شامل ہے کہ کسی بھی بچے کو آٹھویں تک فیل نہیں کیا جائے گا ۔ شاید ایکٹ بنانے والوں کی یہ منشاء رہی ہوگی کہ چھوٹی عمر میں فیل ہونے پر بچوں کی تعلیم میں دلچسپی کم ہو جاتی ہے ان کا اسکول سے من اچاٹ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں .ڈراپ آؤٹ کو روکنے کیلئے یہ شرط لگائی گئی ہوگی ۔پرائیویٹ اسکول اس ایکٹ سے متشنی ہیں یا وہ اس ایکٹ کی پرواہ نہیں کرتے ۔ پرائیوٹ اور سرکاری اسکولوں میں بٹی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں پرائیویٹ اسکول ہی آگے ہیں ۔سرکاری اسکولوں کا رہا سہا معیار بھی اس ایکٹ کی نذر ہو گیا ۔
کمزور طبقات اور پچھڑے علاقوں کی تعلیمی آس سرکاری و نیم سرکاری اسکولوں کے ساتھ جڑی ہے ملک کے زیادہ تر نو نہال انہیں اسکولوں میں پڑھ کر اپنے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ زندگی کی رفتار اتنی دھیمی نہیں جتنی انہیں اپنے اسکول یا اس کے ماحول میں نظر آتی ہے ۔تعلیم کے پرائیویٹائزیشن کے بعد سماج دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک وہ جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قیمت چکا سکتے ہیں اور دوسرے وہ جو تعلیم تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔خریدنے کی طاقت رکھنے والوں کے لئے آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہیں ان میں بھی جو زیادہ قیمت ادا کر سکتے ہیں وہ زیادہ حاصل کرتے ہیں اس سے سماج کا ایک بڑا طبقہ محرومی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کی تعلیمی و سہ تعلیمی سرگرمیاں ، اساتذہ و طلبہ کے رشتے ، والدین و اساتذہ کی تعلیم کی طرف توجہ ، سماجی حمایت اور اسکول کے ماحول کا اجائزہ لیا جائے تو واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔پرائیوٹ اسکولوں کے اساتذہ طلبہ کے ساتھ پوری محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ نئی کتابوں کا مطالعہ کرکے اسکول جاتے ہیں تاکہ اپنی کلاس کے بچوں کو نئی نئی معلومات باہم پہنچا سکیں کیونکہ جس استاد کے کلاس کا ریزلٹ جتنا اچھا رہتا ہے اس استاد کی اسکول میں اتنی ہی عزت ہوتی ہے ۔ اسکول انتظامیہ اور پرنسپل اس کی کوششوں کو سراہتے ہیں ان کی ترقی کے مواقع ان کی طلباء کے ساتھ محنت اور لگن پر منحصر ہوتے ہیں ۔پرائیوٹ اسکولوں میں ہر ماہ اوپن ہاؤس ہوتا ہے جس میں استاد طلباء کے والدین سے مل کر ان کی تعلیمی رپورٹ پر گفتگو کرتے ہیں اس سے ایک طرف بچوں کے والدین میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف اگر ان کے بچے کسی مضمون میں کمزور ہوتے ہیں تو والدین اس کے لئے الگ سے ٹیوشن وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے کو کلاس کے دوسرے بچوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔ پرائیویٹ اسکول سال میں دو تین مرتبہ تعلیمی پکنک / ٹور کراتے ہیں تاکہ بچے ماحول سے بھی سیکھ سکیں ۔یہاں اساتد شاگرد کا رشتہ ڈر اور محبت سے الگ کچھ اس طرح کا دیکھنے کو ملتا ہے کہ طلباء میں یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ استاد ان کے ساتھ پوری محنت کررہا ہے اور وہ ان کا بہتر مستقبل بنا سکتا ہے ۔لہذا بچے استاد کی بات خوشی خوشی مانتے ہیں جو شرارتی بچے ہوتے ہیں وہ بھی استاد کو ناراض کرنے کا جوخم نہیں لینا چاہتے۔
بچوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اوپن ہاؤس میں ان کی ساری پول ان کے والدین کے سامنے کھل جائے گی اس طرح تین پہیوں والی گاڑی کی طرح کا ایک مضبوط ربط استاد ، طالبعلم اور والدین کے درمیان قائم ہوتا ہے ۔یہی تعلق بچوں کو آگے بڑھنے میں مدد کرتا ہے بچے یہاں تک خیال رکھنے لگتے ہیں کہ ان کی ڈریس دوسرے بچوں سے کسی بھی طرح خراب نہ ہو ، وہ کبھی بھی اسکول دیر سے نہ پہنچیں ،استاد کلاس میں کسی کی تعریف کرے تو اس کی تعریف کی جائے یہ خوبیاں اسکول کے تعلیمی ماحول اور استادوں کے رویہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں پرائیویٹ اسکول اور ان کے طلباء کو سماج کی حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول کے استادوں کا انتخاب سخت مقابلہ اور انٹرویو کے بجائے اسکول کی انتظامیہ اور پرنسپل کے ذریعہ کیا جاتا ۔
سرکاری اسکول میں بچوں کا داخلہ کسی ٹیسٹ کے ذریعہ نہیں بلکہ علاقہ کی بنیاد پر لیا جاتا ہے البتہ اساتذہ کا تقرر مقابلہ کے امتحان اور انٹرویو کے بع ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری تعلیمی محنت تقرر ہونے تک ہی رہتی ہے اسکول جوائن کرنے کے بعد کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو پڑھنے بڑھانے میں دلچسپی لیتے ہیں اساتذہ کی توجہ طلباء کی تعلیم و تربیت کی طرف اتنی نہیں ہوتی جتنی درکار ہے انہیں اپنی کلاس کے اچھے برے نتائج سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا نہ کوئی تعریف کرنے والا ہوتا ہے نہ ہی اس کی وجہ سے ان کو کوئی خاص اضافہ فائدہ ، اوپن ہاؤس ، تعلیم ٹور یا پکنک کا تو ان کے یہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے کئی اسکولوں میں تو اساتذہ طلباء سے انتۃائی بدتمیزی سے بات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جیسے ( ابے کیا کررہا ہے ۔۔۔۔۔ہان بتا کیسے آیا ۔۔۔۔۔ابے بیٹھ جا ۔۔۔۔۔ وغیرہ ) ۔
پڑھانے یا نہ پڑھانے پر انہیں نوکری کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا انہوں نے یہ مان لیا ہوتا ہے کہ ان کے اسکول میں آنے والے بچے ردی ہیں یا کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتے یا کمتر سوسائٹی کے ہیں ان پر محنت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آگے چل کر انہیں کوئی چھوٹا موٹا دھندہ ہی کرنا ہے ، دکان پر بیٹھنا ہے ، ورک شاپ میں کام کرنا ہے ، مزدوری کرنی ہے یا پھر رکشا یا آٹو وغیرہ چلانا ہے اس لئے ان سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی پوری توجہ اوپر کی آمدنی پر ہوتی ہے کوئی ٹیوشن بڑھا کر تنخواہ سے زیادہ کما لیتا ہے تو کوئی پروپرٹی ڈیلر بن جاتا ہے یا اپنی خدا کی دی ہوئی صلاحیت کا قوم کو بنانے میں استعمال نہیں کرتے پھر سونے پر سہاگہ سرکار کے سارے کاموں کی ذمہ داری بھی انہیں کے کندھوں پر ہوتی ہے کبھی مردم شماری میں انہیں لگا دیا جاتا ہے تو کبھی شناختی کارڈ کی تصدیق میں تو کبھی انتخابات میں یا کسی سروے میں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں تعلیمی یا سہ تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ہی کہاں ملتا ہے ۔جبکہ یہ محض ایک بہانہ ہے لیکن یہاں بھی سارے اساتذہ ایک جیسے نہیں ہیں کچھ میں جذبہ ہوتا ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کی وجہ سے کبھی کبھی کوئی نگینہ ان سرکاری اسکولوں سے بھی نکل کر سامنے آجاتا ہے ۔

حکومت نے تعلیم کے لئے 2013-14میں 26608.01کروڑ اور 2014-15میں 27758کروڑ روپے مختص کئے ۔سرکاری اسکول ملک میں تعلیم کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے ضرورت ہے اس میں بہتری لانے کی بہتری کے لئے کئی اقدام کرنے ہوں گے ،مثلا سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کے بشمول اساتذہ کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھنا لازمی کیا جائے ۔اس سے سرکاری افسران اور اساتذہ کی توجہ اسکولوں کی طرف بڑھ جائے گی دوسرے پرائیویٹ اسکول میں RTEایکٹ کو سختی سے لاگو کیا جائے وہاں بھی آٹھویں تک کی تعلیم کو مفت کیا جائے ۔ اس کے لئے سرکار جتنے پیسے آٹھویں تک کی تعلیم پر اپنے اسکولوں میں خرچ کرتی ہے اتنے پیسے پرائیویٹ اسکولوں کو طلباء کی تعداد کے لہذا سے مہیا کرائے جائیں تعلیم کے لئے GDPکی کم از کم چھ فیصد رقم مختص کی جائے کیونکہ یہ اسکول جن زمینوں پر بنے ہیں انہیں سرکار نے ہی نہ کے برابر قیمت پر فراہم کیا ہے ۔اور بلڈنگ وغیرہ کے لئے بھی خاصی مدد کی گئی ہے اس لئے ان کو اس کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے اگر کوئی پرائیویٹ اسکول سرکار کی بات نہیں مانتا تو اس کی منظوری کو رد کرکے آٹھویں تک کے درجات کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ آٹھویں تک پورے ملک میں چاہے پرائیوٹ ہو یا سرکاری یکساں تعلیمی نظام رائج ہونا چاہئے ۔

یہ بچوں کی بنیاد بنانے کی سطح ہے اسی سے ملک کی بنیاد مضبوط ہوگی لہذا اس سلسلہ میں کوئی نرمی نہیں برتنی چاہئے ۔ تیسرے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سے سرکار اپنے کام لینا بند کرے ان کے بجائے جو طلباء گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن ہیں ان سے یہ خدمات لی جا سکتی ہیں ۔اس سے ان طلباء کو تجربہ بھی ہوگا اور کچھ جیب خرچ بھی مل جائے گا یہ نو جوان سرکار کے کام کو زیادہ بہتر اور کم وقت میں کر سکیں گے چوتھے اساتذہ کو ٹیوشن یا پرائیوٹ کوچنگ میں پڑھانے یا کاروبار کرنے پر پابندی عائد کی جائے جس طرح دوسرے سرکاری ملازمین پر ہے پانچویں کی کلاس کے نتائج کے ساتھ ان کی ترقی اور تنخواہ کو جوڑا جائے ۔ اچھا کام کرنے والوں کو کچھ اضافی رقومات بھی دی جائیں اور اجتماعی طور پر ان کے کام کو سراہا بھی جانا چاہئے ۔ اساتذہ کی اس سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کہ سرکاری اسکول میں آنے والے بچے ردی ، بے صلاحیت یا کمتر سوسائٹی کے ہوتے ہیں ، بچے تو سبھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ان کے ساتھ اساتذہ کو مہذب و عزت دار طریقہ اپنانا چاہئے کیونکہ انہیں بنانے سنوارنے کا کام کو اساتذہ کا ہی ہوتا ہے ۔سوچ بدلے گی تو سماج کی حمایت بھی انہیں حاصل ہوگی ۔

اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں بڑی قیمت لیکر بہت معیاری تعلیم دی جا رہی ہے ۔حال میں ترقی کی راہ میں گامزن ممالک میں تعلیم کے معیار کی سروے رپورٹ شائع ہوئی تھی اس سروے کے مطابق ہندوستان دوسرے ممالک سے تعلیمی معیار کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے گریجویشن کر چکے بچے ایک درخواست تک صحیح طریقہ سے نہیں لکھ سکتے اسکول و کالجوں سے نکلنے والی بھیڑ بڑی رقم خرچ کرنے کے با وجود معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی طرف بڑھ رہی ہے یہ حالت روایتی تعلیم ہائی اسکول ، انٹر ، بے اے ، بے کام ، بی اے سی ، کرنے والوں کی نہیں بلکہ انجینئرنگ اور پروفیشنل کورسیز کرنے والوں کی بھی ہے انہوں نے جس مضمون میں ڈگری حاصل کی ہے انہیں اس کی بنیادی معلومات تک نہیں ہوتی ۔مثلا ایک بچے نے سول میں ڈپلومہ یا ڈگری کی ہوئی ہے وہ ساہل ، سود ، پلاسٹر ، بلڈنگ کے اندر باہر کتنے ایم ایم کا ہوگا ؟ اسٹیل انفورسمنٹ کا فارمولہ کیا ہے ؟ کنکریٹ مکس میں کیا تناسب ہوتا ہے ؟ اس سے واقفیت نہیں ہوتی ۔ پھر عمارت کا آئٹم کے لحاظ سے بل بنانا تو بہت دور کی بات ہے ۔جنہوں نے محنت سے بڑھا ہوتا ہے اور دل لگا کر سیکھا ہوتا ہے انہیں نوکری ملنے میں دیر نہیں لگتی لیکن جو بس کسی طرح ڈگری ، ڈپلوما لیکر نکل آتے ہیں وہ اپنی اسناد کو لئے ادھر سے ادھر گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس میں پرائیویٹ کالجوں سے نکلنے والے طلباء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔

ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا تھا کہ تعلیم وہی ہے جو معیاری ہو اس کسوٹی کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تعلیم کے ذریعہ اپنے نئی نسل کو کیا دینا چاہتے ہیں اس نسل سے کیا صرف سرکار کے لئے کام لینا ہے یعنی سرکاری نوکری فراہم کرنی ہے ؟ سرکار کے پاس صرف دو کروڑ نوکریاں ہیں ظاہر ہے سب کو سرکار نوکری نہیں دے سکتی تو پھر کیا ہم عالمی بازار کے لئے اپنی نسل کو تیار کرنا چاہتے ہیں یعنی بین الاقوامی سطح پر انہیں نوکری یا روزگار مل سکے ۔اس میں کارپوریٹ سیکٹر کو شامل کرلیا جائے تو یہ دائرہ اور بڑا ہو جاتا ہے کہ ہم اس کے لئے اپنی نسل کو تیار کررہے ہیں یا پھر اسے خود کفیل بنا کر اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں کہ وہ کئی اور لوگوں کو روزگار دینے کی حیثیت میں آجائے ۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو ان تینوں زمروں کے لئے نئی نسل کو تیار کرسکے تاکہ ان کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں ۔

بھارت رتن انعام یافتہ سائنس داں ایم آر راؤ کا بیان بہت اہم ہے ان کا کہنا ہے کہ نرسمہا راؤ جب وزارت برائے انسانی وسائل و ترقی تھے تو ان کا کہنا تھا کہ تعلیم پر GDPکا 6فیصد خرچ ہونا چاہئے لیکن جب وہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے کبھی اس بات کو یاد نہیں کیا صرف دو فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا گیا مسٹر راؤ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے اسکولوں و کالجوں میں پڑھائی جانے والی سائنس ’’ فرسودہ اور اباؤ ‘‘ ہے ۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو سائنس پڑھائی جا رہی ہے یہ وہ سائنس نہیں ہے جس کا جدید تجربہ گاہوں میں تجربہ کئے جا رہے ہیں ۔اس سائنس کو کون سیکھنا چاہتا ہے زیادہ تر اساتذہ اباؤ ہیں ۔ ہندوستان میں اساتذہ اور تعلیم اچھی نہیں ہے ہمیں اپنی بڑھائی کو سدھارنا ہوگا ۔

در اصل پورا تعلیمی نظام اتنا بوجھل ہے کہ اس سے اچھے نتائج کا برآمد ہونا بہت مشکل ہے مثلا ابتداء سے بچے کو تین تین زبانیں پڑھنی ہوتی 
ہیں اوپر سے سائنس ڈرائنگ ، ریاضی ، سماجیات ،عام معلومات اور ماحول کی تعلیم ، پھر مڈل میں اس پر اور وزن بڑھا دیا جاتا ہے ایسی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں جس کا اس کے مستقبل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مثلا سنسکرت۔سکنڈری میں سائنس ، ریاضی ، سماجیات ، انگریزی ، ہندی سنسکرت وغیرہ جبکہ ابتدائی تعلیم بچی کی مادری زبان میں ہونی چاہئے اس سطح پر اس کی مادری زبان کے ساتھ ریاضی ، ڈرائنگ اور ماحولیات کی تعلیم ہونی چاہئے تاکہ اس کی بنیاد مضبوط بن سکے اور تعلیم میں اسے اجنبیت کا احساس نہ ہو بلکہ وہ اس میں دلچسپی لے ۔ مڈل کی سطح پر دوسری زبان ( انگریزی) کو اس کی مادری زبان کے حوالے سے جوڑا جائے اسی سطح پر بچے کے مستقبل کی بنیاد طے ہوتی ہے کونسلنگ کے ذریعہ یہ تلاش کیا جائے کہ کس شعبہ میں یہ بچہ بہتر کر سکتا ہے یا اس کے مستقبل کے لئے کونسا شعبہ زیادہ بہتر ہوگا اس کے بعد سکنڈری میں اسی شعبہ پر توجہ دی جائے اور سینئر سکنڈری میں اس کے مستقبل کا میدان طے کر دیا جائے ۔
ہمارا تعلیم کے تعلق اسے المیہ یہ ہے کہ کوئی اس پر مذہبی رنگ چڑھانا چاہتا ہے کوئی اسد کا بھگوا کرن اور کوئی تعلیم کو سیکولر رکھنا چاہتا ہے ہماری ملک کی تہذیب و تمدن و اقدار کا کسی کو خیال نہیں آتا بچوں پر نظریات کو تھوپنے کے بجائے ان میں صلاحیت پیدا کرنے پر زور ہونا چاہئے تاکہ ان کے مستقبل کو بنانے میں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ دنیا سے مقابلہ کرنے کے قابل معیاری تعلیم حاصل کر سکیں معیاری تعلیم ہی دیش اور سماج کی حالت کو بدل سکتی ہے ملک کی ترقی کا تصور معیاری تعلیم کے بغیر 

«
»

مکوکا کے تارِ عنکوب میں الجھی بے قصوروں کی زندگیاں

اے اہل عرب! اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے