’’اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیئے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً وکرہاً وہ حقوق ہم کو دلا دے گی‘‘سرسید مسلمانوں کو مشرقی علوم کے ساتھ جدید سائنسی اور مغربی تعلیم سے بھی آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اور معاشی بہتری اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان اپنی علمی صلاحیت اور تعلیمی قابلیت سے اچھے برے کی تمیز کرنا سیکھ جائیں، اسی لئے وہ تعلیمی کوششوں کو سب سے مقدم تصور کرتے تھے۔ سرسید کے اسی خیال سے متاثر ہوکر پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا۔
’’سیاست سے علاحدہ رہ کر تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا سرسید کے فکرکی صحیح انقلابی سمت کو ظاہر کرتا ہے‘‘
سرسید کے ذہن میں تعلیم کی اہمیت کا احساس غدر سے پانچ سال بعد اس وقت پیدا ہوا جب انگریزوں نے ہندوستان کا تعلیمی نظام اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں کلکتہ، ممبئی اور بنارس میں انگریزی اسکول کھولے گئے، مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا تو وہ محض انگریز دشمنی میں جدید مغربی تعلیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہندومغربی تعلیم سے فیض یاب ہونے لگے یہی وہ پس منظر تھا جس میں سرسید نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کی تعلیم انگریزوں کے بجائے خود ان کے ہاتھ میں رہنا چاہئے تاکہ نہ صرف مسلمانوں کی غلط فہمی دور ہو بلکہ مشنری اسکول کی نظریاتی یلغار سے بھی وہ محفوظ رہ سکیں۔
سرسید کے اس ضمن میں جونظریات تھے ان کو سمجھنے میں مسلم قوم خاص کر ان کے علماء کرام کو اس لئے بھی مغالطہ ہوا کہ ابتداء میں سرسید نے مذہب کے بارے میں کچھ ایسی تعبیریں پیش کیں جو قرآن وحدیث سے متصادم تھیں اس لئے علماء اور عام مسلمان ان کی نیت اور عمل پر شک کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی خیالات سے بھی متوحش ہوگئے، بعد میں سرسید نے خود اپنے بعض نظریات سے رجوع کیا لیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی، اسی طرح جب ۱۸۸۵ء میں کانگریس کی بنیاد ڈالی گئی تو سرسید نے اس کی سخت مخالفت کی جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی انگریز دوستی انگریز پرستی میں تبدیل ہوگئی تھی حالانکہ علامہ شبلی نعمانی اور دوسرے علماء کانگریس کی حمایت میں آگے آئے اور اس کے پرچم تلے انہوں نے بہت کام بھی کیا اس لئے سرسید کو یاد کرتے وقت اس عہد کے علماء کو طعن تشنیع کا نشانہ بنانا جو کہ ایک روایت بن گئی ہے درست طرزِ فکر نہیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ سرسیدکا کانگریس سے اختلاف یا مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کا مشورہ دو قومی نظریہ کی حمایت یا علاحدگی پسندی کی علامت نہیں ہے۔ ایک انگریز اے او ہیوم نے کانگریس کی بنیاد انگریزوں سے ہندوستانیوں کو مراعات دلانے کے لئے رکھی تھی جس کے مخالف تنہا سرسید نہیں راجے ونواب بھی تھے، سرسید صرف یہ چاہتے تھے کہ مسلمان سرگرم سیاست میں داخل ہونے کے بجائے اپنے تعلیمی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر توجہ دیں یعنی سیاست کیلئے پہلے خود کو تیار کرلیں، سرسید پر جو لوگ دو قومی نظریہ کی وکالت کا الزام عائد کرتے ہیں یا انہیں ہندوؤں کا مخالف قرار دیتے ہیں، ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے کانگریس کی تاریخ جلد اول کی یہ سطریں کافی ہونا چاہئے کہ ’’سرسید پر یہ بہتان ہے کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ دو قومیں مانتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ سرسید ہندو اور مسلمانوں میں اتحاد کے زبردست حامی تھے‘‘ سرسید کا معروف زمانہ قول ہے کہ ’’ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے، ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں، ان میں سے ایک آنکھ بھی خراب ہوگی تو دلہن کی خوبصورتی غارت ہوجائے گی۔‘‘ سرسید نے بارہا اپنے خطاب میں ہندو اور مسلمان کو ایک قوم کی حیثیت سے مخاطب کیا اور اپنے نظریہ قومیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قوم سے میری مراد مسلمان نہیں، ہندو اور مسلمان دونوں ہیں، جو دال چاول کی طرح گھل مل گئے ہیں۔‘‘ انہیں اسی طرح رہنا چاہئے۔
سرسید ایک مصلح قوم اور مسلمانوں کے بہی خواہ ضرور تھے لیکن عالم دین نہ تھے ان کے مذہبی نظریات میں بعض کمی یا کوتاہی ہوسکتی ہے جس کو رد کیا گیا تاہم اس سے سرسید کی بلند وبالا شخصیت پر حرف نہیں آتا اور ان کی ملت کے تئیں خدمات کو باطل قرار نہیں دیا جاسکتا ، سرسید کے ایک اور کارنامہ کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے، وہ ہے اردو زبان اور اس کی مختلف اصناف نثر، نظم، تنقید، تحقیق اور صحافت کے معیار کو بلند کرنے اور اپنے احباب کے ذریعہ اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی خدمت، جس کا ذکر کم ہوتا ہے ، حالانکہ بقول علامہ شبلی نعمانی ’’اردو زبان سرسید کی بدولت اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی، ہرقسم کے مضامین، اس زور واثر، وسعت وجامعیت ، سادگی وصفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اس کی استاد فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں ہوئی‘‘موجودہ صورت حال میں سرسید کو خراج عقیدت اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ قوم کے رہنما اور دانشور سرسید جیسے فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہد حاضر اور مستقبل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر قوم کی تعلیمی ترقی کیلئے قلیل مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کریں، تاکہ مسلم قوم ۲۱ویں اور ۲۲ویں صدی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوجائے۔
جواب دیں