طلبہ کے مظاہروں میں اردو شاعری کی دھوم

سہیل انجم

جب بھی کوئی عوامی یا انقلابی تحریک اٹھی ہے تو اردو شاعری نے اس کو بڑی تقویت بخشی ہے۔ بانیان و شرکائے تحریک اس سے ترغیب حاصل کرتے رہے ہیں۔ انقلابی اشعار مظاہرین میں جوش و ولولہ پیدا کرتے رہے ہیں۔ بالخصوص برصغیر میں عوامی تحریکوں کے دوران انقلابی شعرا کا کلام بھی مظاہرین کے لبوں پر نعروں کے ساتھ بلکہ نعروں کی مانند موجود رہا ہے۔ بالخصوص مظاہروں میں شریک طلبہ تو اردو اشعار کا سہارا لے کر اپنی مہم کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ وہ اردو جانیں یا نہ جانیں لیکن یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ اردو اشعار سے اپنی صفوں میں نیا جوش و ولولہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ انقلابی شعرا کا کلام گاتے ہیں اور انھیں نعروں کی شکل میں استعمال بھی کرتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ بھی تو اردو زبان ہی کی دین ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے تو اردو داں حضرات کی جانب سے انقلاب زندہ باد کا نعرہ ضرور لگایا جاتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور اب این پی آر کے خلاف تحریک چل رہی ہے۔ اس کا آغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے کیا تھا۔ وہاں طلبہ پر دہلی پولیس کی بربریت نے اس چنگاری کو شعلہ جوالہ بنا دیا اور اب تو طلبہ کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے بھی ان مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
ان مظاہروں میں دو شاعروں کا کلام چھایا ہوا ہے۔ ایک ہیں انقلابی و عوامی شاعر حبیب جالب اور دوسرے ہیں فیض احمد فیض۔ حبیب جالب ایک ایسے شاعر تھے کہ جنرل ایوب جیسے فوجی حکمراں بھی ان سے عاجز تھے۔ جب ایوب خاں نے اپنا نیا آئین رائج کرنے کی کوشش کی تو حبیب جالب نے ’دستور‘ کے زیر عنوان ایک نظم کہی تھی جو بے انتہا مقبول ہوئی۔ آج وہی نظم نعرے کی شکل میں ہر اسٹوڈنٹ کی زبان پر ہے۔ اس کا ایک مصرعہ ’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘ تختیوں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے دو بند ملاحظہ ہوں:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو 
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا 
میں بھی خائف نہیں تختہ ¿ دار سے 
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے 
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے 
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو 
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا 
 مارشل لا کے زمانے میں ایک بار حبیب جالب نے ایک مشاعرے میں یہی نظم سنائی جس پر عوام پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ لوگوں نے انھیں گھیر لیا اور حبیب جالب زندہ باد کے نعروں سے مجمع گونج اٹھا۔ ان کے ساتھ ایک اور بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے جالب کے کان میں کہا کہ یہ نظم سنانے کا یہ موقع نہیں تھا۔ حبیب جالب نے برجستہ کہا ’میں موقع پرست نہیں ہوں‘۔ اسی حبیب جالب کے کلام سے آج ایک بار پھر ایوان اقتدار میں لرزہ پیدا ہو گیا ہے۔
ان مظاہروں میں فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کی بھی خوب دھوم ہے۔ دراصل اس نظم کا عنوان ہے ’ویبقیٰ وجہ ربّک‘۔ یہ سورہ ¿ رحمان کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔ لیکن اب یہ نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکی ہے۔ مذکورہ احتجاجی مظاہروں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ اس نظم کو گروپ کی شکل میں گا گا کر حکمرانِ وقت کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بتانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ یوم حساب ضرور آتا ہے اور ہر حکمراں کے دن ایک نہ ایک دن لد جاتے ہیں۔ اس نظم میں یوم قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جس دن کا وعدہ کیا گیا ہے ہم اسے ضرور دیکھیں گے۔ یہ نظم بھی ایک فوجی حکمراں کے دور اقتدار میں لکھی گئی تھی۔ وہ فوجی حکمراں تھے جنرل ضیاء الحق۔ قارئین پہلے اس نظم کو ملاحظہ فرمائیں:
ہم دیکھیں گے 
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے 
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے 
جو لوح ازل میں لکھا ہے 
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں 
روئی کی طرح اڑ جائیں گے 
ہم محکوموں کے پاو ¿ں تلے 
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی 
اور اہل حَکم کے سر اوپر 
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی 
جب ارضِ خدا کے کعبے سے 
سب بت اٹھوائے جائیں گے 
ہم اہل صفا مردود حرم 
مسند پہ بٹھائے جائیں گے 
سب تاج اچھالے جائیں گے 
سب تخت گرائے جائیں گے 
بس نام رہے گا اللہ کا 
جو غائب بھی ہے حاضر بھی 
جو منظر بھی ہے ناظر بھی 
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ 
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو 
اور راج کرے گی خلق خدا 
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
یہ انتہائی ولولہ انگیز نظم ہے اور مظاہروں میں شامل طلبہ اسے گا گا کر لوگوں میں جوش و خروش پیدا کر رہے ہیں۔ جنرل ضیا ۷۷۹۱ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ فیض نے یہ نظم ۹۷۹۱ء میں کہی تھی۔ جنرل ضیا نے اس نظم پر پابندی عاید کر دی تھی۔ معروف سنگر اقبال بانو نے الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں ۶۸۹۱ء میں اسے گایا تھا۔ فیض صاحب کا انتقال نومبر ۴۸۹۱ء میں ہو چکا تھا۔ روزنامہ انڈین ایکسپریس کے سوشانت سرین نے فیض صاحب کے پوتے علی مدیح ہاشمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ فیض میلہ کے دوران ہونے والا یہ پروگرام جس ہال میں ہو رہا تھا اس میں چار پانچ سو سیٹس تھیں۔ جب ساری بھر گئیں اور لوگوں کا ہجوم لگا رہا تو اس کے سارے دروازے کھول دیے گئے اور جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں بیٹھ گیا۔ اقبال بانو جب فیض کی متعدد نظمیں گا کرکے جانے لگیں تو سامعین نے ’ہم دیکھیں گے‘ کی فرمائش کی۔ جب انھوں نے اسے گانا شروع کیا تو مجمع بے قابو ہو ہو جاتا تھا۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگ رہا تھا اور تالیوں کی گونج سے ایسا لگ رہا تھا کہ ہال کی چھت اڑ جائے گی۔ اس نظم کے گائے جانے کی وجہ سے جنرل ضیا بہت ناراض تھے۔ اگلے چند روز میں متعدد شرکائے پروگرام سے پوچھ گچھ کی گئی اور بہت سے لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ اس پروگرام کی بہت سی آڈیو کیسٹس حکومت کے اہلکاروں نے ضبط کر لیں۔ منتظمین میں سے کسی ایک شخص نے اس نظم کی آڈیو ریکارڈنگ کر لی تھی۔ ہاشمی کے ایک چچا کسی طرح اس کو اپنے پاس محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہی کاپی دبئی بھیجی گئی اور وہاں اس کی متعدد نقلیں تیار کرائی گئیں۔ وہی نقل آج یو ٹیوب پر موجود ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اقبال بانو نے ۶۸۹۱ء میں یہ نظم گائی تھی اور جنرل ضیا کے دور حکومت کا خاتمہ ان کے ایک فضائی حادثے کے ساتھ ۸۸۹۱ء میں ہوا تھا۔ آج ہندوستان کے حکمراں بھی اس نظم سے خائف ہیں اور جبر و استبداد کے ذریعے طلبہ اور دوسروں کی آوازیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
راحت اندوری کا ایک شعر بھی ان مظاہروں میں ابھر کر سامنے آگیا ہے اور اس کا ایک مصرعہ تختیوں پر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ شعر ہے: 
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں 
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
مصرعہ ثانی اگر چہ کچھ غیر شریفانہ سا ہے لیکن خوب مقبول ہو رہا ہے۔ راحت نے یہ غزل تیس پینتیس سال قبل کہی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک اسٹینڈ اپ کامیڈین ورون گروور کی ایک نظم ’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘ بھی کافی وائرل ہو رہی ہے۔ نظم قارئین کی تفریح طبع کے لیے پیش ہے:
تاناشاہ آکے جائیں گے
ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے
تم آنسو گیس اچھالو گے
تم زہر کی چائے ابالوگے
ہم پیار کی شکّر گھول کے اس کو
گٹ گٹ گٹ پی جائیں گے
یہ دیش ہی اپنا حاصل ہے
جہاں رام پرساد بھی بسمل ہے
مٹی کو کیسے بانٹوں گے
سب کا ہی خون تو شامل ہے
تم پولیس سے لٹّھ پڑا دوگے
تم میٹرو بند کرا دوگے
ہم پیدل پیدل آئیں گے
ہم منجی یہیں بچھائیں گے
ہم سمودھان کو بچائیں گے
ہم جن من گن بھی گائیں گے
تم جات پات سے بانٹوگے
ہم بھات مانگتے جائیں گے
ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے
این آر سی کے تناظر میں یہ نظم خاصی مقبول ہو رہی ہے۔(یو این این)

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے