یہودی قوم جن کے عتاب کا شکار آج یہ سرزمین بنی ہوئی ہے اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ظلم و بربریت اور سفاکانہ حرکت سے ماضی کے ان تمام ظالم و جابر بادشاہوں کے ظلم و ستم کو پیچھے چھوڑ کر تاریخ میں ایک ایسے سیاہ باب کا اضافہ کیا جسے قیامت تک نہیں بھلایا جاسکتا ، آج جس طرح غزہ میں نہتے مسلمانوں کو محصور کرکے ان کوخون میں نہلایا جارہاہے اور آگ برسائی جارہی ہے اور انہیں غذا اور ضروری اشیاء سے محروم کرکے ان کی مشکلوں کو مزید طول دیا جارہا ہے اور ہر وہ طریقہ اغیار کی طرف سے وہاں کے بے گناہ مسلمانوں کیلئے اپنا یا جارہاہے جو انسانیت کو شرمسار کردے ۔اور اب حالات اس قدر نا زک ہوچکے ہیں کہ غزہ ان لوگوں کے لئے جو وہاں محصور ہیں ہر دن ایک نئی مصیبت لے کر نمودار ہورہی ہے۔ جبکہ آج جو صورت حال غزہ اور اس فلسطین کی ہمارے سامنے ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے اور یہودیوں کے ظلم و بربریت کی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ قوم جس کو حضرت عیسیؑ ٰ نے ’’سانپ اور سانپوں کے بچے بتایاتھا‘‘ ماضی کے ان تمام واقعات کو بھول گئی جس کا مزہ وہ اہل روم اور دنیا کے دوسرے جابر حکمرانوں کے ذریعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ متعدد بار ہوچکی ہے، یہی ہولناک محاصرہ جو غزہ میں یہودیوں کی طرف سے سالوں سے جاری ہے اسی طرح رومیوں نے ان کا محاصرہ کیا تھا جو تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں۔ ’’رومی فوج نے شہر کے قریب پہنچ کر اپنا قاصد بھیجا اور باشندگان شہر سے کہا، کہ شہر حوالہ کردیں مگر وہ بیت المقدس کے مستحکم حصار اور آہنی عمارت جنگ کی طرف سے مطمئن تھے، انہوں نے تسلیم شہر سے انکار کر دیا، اب رومی فوج کے لئے محاصرہ ناگزیرتھا، تیس ہزار آہنی پوش فوج نے چاروں طرف سے شہر کا محاصرہ کرلیا بیت المقدس اس وقت نہایت ہی محفوظ تھایکے بعد دیگر تین نہایت ہی مستحکم شہر پناہ تھیں اور ان کے باہمی فاصلے مدافعت کے آلات اور اسباب جنگ کے لئے نہایت ہی مضبوط عمارتیں رکھیں تھیں، طیطس نے اپنی فوج کے چار حصہ کردئے ۔اور وہاں کے تمام درخت اکھڑواڈالے گئے تھے تاکہ فوجی نقل و حرکت میں مانع نہ ہوں، اطراف شہر کی سرسبزی کا اسوقت یہ حال تھا کہ یہ تمام قطعات طرح طرح کے شاداب درختوں کی کثرت سے جنت ارض کا منظر معلوم ہوتے تھے اور اس کے بعد ایک ایسے مقام پر رومی فوج خیمہ زن ہوگئی جہاں سے چند برج تعمیر کئے گئے اور ان میں بیٹھ کر بیت المقدس پر جنگی گولے برسانے شروع کردئے۔
یہ وہی بیت المقدس تھا جس کو خدائے ذوالجلال نے اپنی رحمت و برکت کا نشیمن بنایاتھا، بنی اسرائیل کی عظمت وجبروت کے سیلاب اس کی شہر پناہ سے نکلتے تھے اور دنیا کی بڑی بڑی عظیم الشان سرزمینوں کواور ان کے بسنے والوں کو بہالے جاتے تھے مگر انہوں اس پیمان عہد کو توڑ دیا جو مصر کی غلامی سے نجات پانے کے بعد خدا وند قدوس سے سینا کے پہاڑ پر باندھاتھا، جب وہ طرح طرح کی بد اعمالیوں اور فسق و فساد میں مبتلا ہوگئے تو رحمت الٰہی ان سے روٹھ گئی اور اس نے اپنی برکت کی جگہ اپنے قہر و غضب کو بھیج دیا، خدا کا اس دنیا میں سب سے بڑا قہر یہ ہے کہ وہ کسی قوم سے حکومت و فرماں روائی چھین کر اور غیر قوموں کی غلامی و محکومی کی زنجیریں اس کے پاؤ ں میں ڈالدے ، پس یہودیوں کے لئے اب دنیا میں اس سزا کے سوا کچھ نہ تھا، بدبخت نے فوج کشی اور بابل کی قید کے بعد عزیز علیہ السلام کی آہ وزاری نے ان کی سزا کی مہلت بڑھادی تھی پر انہوں نے اسی فرصت سے فائدہ نہ اٹھایا، اس لئے ضروری تھا کہ آخری غضب الٰہی کسی جابر قوم کے استبداد و تسلط کی شکل میں ظاہر ہوا ور اب وہ جب کسی قوم سے روٹھتا ہے تو اس کی عادت ہے کہ اپنی کسی جابر مخلوق کو اس پر مسلط کردیتاہے پھر وہ اس کے تحت حکومت کو الٹ دیتی ہے، غلامی و محکومی کی بیڑیاں اس کے پاؤں میں ڈال دیتی ہے، اور عزت ملی اور شرف قومی کی روح اس کے اندر سے کھینچ لیتی ہے، رومیوں کا یہ حملہ یہودیوں کے لئے اسی سلسلہ غضب الٰہی کی آخری سزاتھی جس کے بعد بنی اسرائیل کی عظمت کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا، یہ قوموں کے اعمال کے قدرتی نتائج ہیں جس بیت المقدس پر ملائکہ الٰہی رحمت و برکت کے پھول چڑھاتے تھے آج حملہ آوروں کے برجوں سے اس پرپتھروں گو لوں کی بارش ہورہی ہے، یہودی اب نہایت مضطرب ہوے کیونکہ رومیوں کی تاب نہ لاکر محصور ین کے دل بیٹھ گئے اور ان کی ہمتوں نے جواب دیدیا کیونکہ رومی فوج نے محصورین پر اس قدر گولہ باری کی کہ یہودی بالکل مایوس ہوکر پیچھے ہٹ آئے، وہ برابر ہلاکت اور بربادی پھیلاتے رہے اور آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ آخری شہر پناہ میں شگاف پڑگئے، اس سے بڑھ کر مصیبت عظمیٰ یہ تھی آتش انگیز روغن کی بارش نے مقدس ہیکل کی دیواروں تک پہنچنا شروع کردیا تھا، بدبخت یہودیوں نے ہر چند کوشش کی مگر اپنی ہزار سالہ عظمت کو نہ بچاسکے اور عروج و زوال امم کے قانون الٰہی کے نفاذ کو کوئی انسانی سعی روک نہ سکی، ایک دن صبح کو یہودیوں نے دیکھا کہ رومی لشکر عظیم قتل و غارت کے ہتھیار ہاتھوں میں لئے آخری شہر پناہ سے اندر داخل ہورہاہے ، پھر وہ سب کچھ ہوا جو اس کے بعد ہونا تھا اس قتل و غارت کا کون اندازہ کرسکتاہے جو کئی دن تک اسی قیدی شہر میں جاری رہا عورتوں اور بچوں کو خونخوار فاتحین کی تلوار سے امان نہ تھی عمارتیں جل رہی تھیں اور دیواریں زمین کے برابر ہوگئی تھیں جو بچ رہے تھے وہ قیدی بنائے گئے اور جو بھاگ گئے انہوں نے بنی اسرائیل کے ہزار سالہ گھر کی نسبت کوئی اچھی خبر نہیں سنی۔
ان مذکورہ تاریخی واقعات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں اور اس کے علاوہ بھی اور بہت سے حساس واقعات ہیں لیکن یہ قوم جس کے اندر احسان فراموشی، ظلم و عصیان۔ ماضی کے واقعات پر غفلت اور نسیان دوسری قوموں کے مقابلہ زیادہ ہی پایا جاتا ہے اور آج اسی کا یہ قوم فلسطین میں مظاہرہ کررہی ہے اور ان یہودیوں نے ماضی کے تمام حساس واقعات کو بھلا کر ایک مرتبہ پھر فلسطین میں نسل کشی اور حیوانیت کا ایسا ننگاناچ ناچا جس سے پوری انسانیت سکتے میں پڑگئی اور ابھی بھی ان کے ظلم و بربریت کے داستان جاری ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی جارہی ہے لیکن ابھی تک ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہیں ہو پائی، واقعہ یہ ہے کہ کمزور اور نہتے مسلمانو ں پر دہشت و بربریت کے وہ تمام اصناف جو موجودہ دور میں ایجاد ہوچکے ہیں ایک ایک کرکے آزمائے جارہے ہیں جبکہ دنیا کے تمام امن پسند لوگ ان کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کررہے ہیں۔ لیکن ان درندوں نے نہ کبھی پہلے دنیا کی اس چیخ و پکار پر عمل کیا اور نہ اب امید کی جاسکتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی باب سماعت کوہی مسدود کر رکھا ہے۔ لیکن بہر حال جلسے اور احتجاجی مظاہرے یہ جمہوری حق ہے اس قوم کے لئے جس کے اندر ضمیر ہو ۔ لیکن جن کا ضمیر مردہ ہوچکا ہو اور انسانیت کی محبت اور ہمدردی ان کے دل و دماغ سے نکل چکی ہو تو ان کے سامنے احتجاجی مظاہرے بے کا ر ہیں۔
جبکہ تاریخ میں عروج و زوال کوئی نئی بات نہں یہ زندہ قوموں کی تاریخ کا ایک حصہ ہے اگر آج اسرائیل کو اپنی جنگی طاقت پر ناز اور غرور ہے تو یہ فصل بہار ہم پر بھی گزرچکی ہے زمانہ ہم سے ہمیشہ برگشتہ نہیں رہا ،تاریخ پھر عود کرے گی ،اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر قوموں کے عروج و زوال کے تعلق سے صاف اور واضح طور سے بیان کیا ہے ’’امیدویاس ، خوشی و غمی، فتح و شکست کے ایام ہیں جو نوبت بہ نوبت تمام انسانوں پر گزرتے رہتے ہیں‘‘
بہر حال ہم اہل فلسطین کو مبارک باد دیتے ہیں جنہوں نے اپنی بہادری اور ہمت و استقلال سے دشمنوں کے تمام منصوبوں کو ناکام بنادیاتمام دنیا کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاس تمام جدید جنگی سازوسامان ہے ۔ان کے مقابلے میں اہل فلسطین کے پاس کچھ بھی نہیں بلکہ ان کے پاس کھانے کی ضروری اشیاء جو انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے اس کے لیے بھی وہ دوسروں کے محتاج ہیں گویا وہ اس وقت بالکل بے یارو مددگار مظلوم و محصور ہیں اس کے باوجود انہوں نے جانفروشی کی دنیا کے سامنے وہ نظیر پیش کی جو ان لوگوں کے لیے درس عبرت ے جنہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے اور اپنے قلب و جگر پر جمود تعطل کے تالے لگاکر ان کے چابیوں کو اپنے مغربی آقاؤں کے سپردکردی، یہی وجہ ہے کہ آج ان کو فلسطین میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہاہے کیونکہ وہ اپنے قوت سماعت پہلے ہی کھوچکے ہیں، دوسری طر اہل فلسطین نے اس بات کو بھی ثابت کردیا کہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے جنگی ساز و سامان کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ طاقت کے زور پر ایک ظالم و جابر قوم وہ تمام اسباب اختیار کرسکتی ہے جس سے دشمن پر غلبہ حاصل ہوجائے لیکن دلوں پر کسی کی حکومت نہیں ایک طاقت ورقوم اپنی دفائی طاقت سے قوموں کے دلوں کو چھین لے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ! اس لیے اگر آج فلسطینی مسلمانوں کے پاس وہ جنگی ساز و سامان نہیں جس سے دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے لیکن ان کے سامنے غز وہ بدر کاوہ ابدی پیغام ہے جس میں یہ بات دشمن کے خلاف پہلے ہی معرکہ میں ثابت ہوگئی تھی کہ جنگ جدید جنگی ساز وسامان اور کثرت تعداد پر موقوف نہیں۔ یقیناً جس طرح غزوہ بدر میں دشمنوں کے پاس جنگی ساز و سامان کی کثرت تعداد کے باوجود فتح مسلمانوں کی ہوئی اسی طرح فتح اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی ہی ہوگی، دوسری سب سے اہم بات جب کسی قوم کے اندر حریت پرستی ،مصائب پر صبر ، پختہ ایمان، جوش حق، حفظ و طن ہوتو دنیا کی کوئی طاقت اس کو کو شکست نہیں دے سکتی اور یہ تمام چیزیں ہمیں بر وقت اہل فلسطین کے مسلمانوں میں نظر آرہی ہے جو ایک ظالم و جابر قوم کا تنہا نصف صدی کے زائد سے مقابلہ کررہے ہیں۔
ہمیں سب سے زیادہ افسوس ان عرب حکمرانوں پر ہے جنہوں نے اپنی غفلت اور لعنت میں گرفتار پر غیروں کی غلامی و محکومی کا طوق پہن لیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور ہمدردی میں کو ئی دوسرا حکمراں بولتا ہے ۔ تو اس کی آواز سے آواز ملا نے سے بھی ان کی زبا نیں بندہو جا تی ہیں ،حمایت اور تا ئید تو ندارد۔ حا ل ہی میں تر کی کے وزیر اعظم طیب اردغان نے جس جر أت اور بے باکی سے غزہ کے محصور کی مدد اور انسانی بنیا دوں پر ان کے ساتھ معا ملہ کی اپیل ،موصوف وزیر اعظم نے عا لمی برادری سے کی۔ اس کے لئے یقیناًوہ پو ری مسلم امہ کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
جواب دیں