ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ ، مہاراشٹرا ۔
اسلاف کی تاریخ اور بصیرت صرف زیب داستان کے لیےنہیں ہے
دوسری صدی ہجری کے نصف آخرکی ایک مسحور کن صبح مدینہِ منورہ کی مسجدِ نبوی کے ایک گوشے میں طلبہ پڑھائی میں مشغول ہیں۔اچانک’ہاتھی آیا ،ہاتھی آیا‘ کا شور بلند ہوا اور تمام طلبہ استاد سے اجازت لے کر باہر کی طرف دوڑ پڑے۔صرف ایک لڑکا اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھا ہے۔ اُس کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ استاد حیرت سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ بیٹا تم تو اندلس (اسپین) سے آئے ہو، وہاں تو ہاتھی نہیں ہوتے، تم ہاتھی دیکھنے باہر کیوں نہیں گئے؟ جواب میں لڑکا جو الفاظ ادا کرتا ہے وہ سنہری ٖحرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ لڑکا بڑی استقامت اور اعتماد سے کہتاہے ، ’’ میں یہاں ہاتھی دیکھنے نہیں آیا ہوں،پڑھنے کے لیے آیا ہوں ، پہلے میں پڑھوں گا، ہاتھی دیکھنا بعد کی بات ہے ‘‘۔ آج دنیا اِس طالب علم کو یحیی بن یحیی مصمودی اور یحیی اندلسی کے نام سے جانتی ہے۔اور وہ خوش قسمت استاد تھے حضرت امام مالکؒ۔استاد نے بے ساختہ اپنے شاگرد کی پیشانی چوم لی اور کہا ’’تم اندلس کے تمام لوگوں سے زیادہ عقلمند ہو‘‘۔آج حضرت امام مالکؒ کی تصنیف ’موطا‘کا جو نسخہ مروج ہے وہ اِنہی یحیی اندلسی کی روایت سے دنیا میں رائج ہے اور مستند ترین اور معتبر ترین قرار دیا جاتا ہے۔ موطا حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ہے ۔ اس بات سے یحیی اندلسی کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اندلس( اسپین )میں بادشاہوں سے بڑھ کر آپ کی عزت و توقیر تھی ۔یہ باتیں یوں یاد آگئی کہ آج اِس واقعہ کی معنویت کو عصری تناظر میں سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔یحیی اندلسی کی عظمت صرف اُن کے علم و فضل کا باعث ہی نہیں ہے۔ یحیی اندلسی مقصد کے واضح ترین تصوراور اپنے نصب العین پر پوری توجہ کا روشن استعارہ ہے ۔ کم عمر یحییٰ کو پتہ تھا کہ اُس وقت وہ وہاں کیوں موجود تھا۔اُس کا مقصد کیا تھا، اُس وقت کیا کرناضروری تھا اور کیا نہ کرنا درست۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہم میں سے کتنوں کو پتہ ہے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ اِس وقت ہمارے لیے کیا کرنا ضروری ہے اور کن چیزوں کو چھوڑنا لازمی؟ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہماری منزل کیا ہوگی؟کیا ہمارے اسلاف کی تاریخ اور بصیرت صرف زیب داستان کے لیے ہے؟ کیا اِس پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہاتھی دیکھنے والے طلبہ کو وقتی لطف اور گمنامی کے علاوہ کیا ملا اور یحیی اندلسی کو کیا مقام حاصل ہوا۔ کیا یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جس طرح انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے اُسی طرح حصولِ مقصد کے ساتھ دلچسپیاں اور نوع بہ نوع رنگینیاں لگی ہوتی ہیں جو ہمیں للچاتی ،بہکاتی اور بھٹکاتی رہتی ہیں اور اُن سے پرہیز کیے بغیر بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہرعہد، ہر ملک اور ہر قوم کے عظیم و کامیاب افراد نے ہمیشہ ایسے ’ہاتھیوں‘ سے دامن بچاتے ہوئے اپنی منزل پر نظر رکھی اور اپنے مقصد کے حصول میں حائل دلچسپیوں، رنگینیوں اور دلفریب چالوں کو نظر انداز کیا ۔ہر زبان کے کلاسیکی سرمائے میں اِس نکتے کو ادبی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔فارسی اور اردو کی قدیم داستانوں میں اکثر جب کوئی شہزادہ کسی دور دراز کی اہم چیز کو حاصل کرنے کے خطرناک مشن پر روانہ ہوتا ہے تواُسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ راستے میں اُسے حسین پرچھائیاں نظر آئیں گی، سریلی آوازیں اُسے بلائیں گی۔لیکن اگر وہ اُن کی طرف متوجہ ہوگا یا پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو فوراً پتھر کا ہوجائے گا۔شہزادہ بڑی استقامت سے اِن سے خود کو بچا کر منزل پر پہونچتا ہے۔ امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کی شہرِ آفاق نظم Stopping by woods on a snowy evening میں ایک گھڑ سوار مسافر برف سے ڈھکے درختوں والے خوبصورت جنگل اور برفائی ہوئی جھیل کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ماحول کا سکوت اور فطرت کا حسن اُسے مبہوت کیے دیتا ہے۔گھوڑا اپنے گلے کی گھنٹی ہلا کر اُسے متوجہ کرتا ہے اورمسافر کو احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ کہ منظر بہت دلفریب ہے لیکن اُسے کئی وعدے پورے کرنا ہے اور سونے( منزل پر پہنچنے) سے پہلے کئی میلوں کا سفر طے کرنا ہے۔لہذا وہ زیادہ دیر وہاں نہیں رُک سکتا۔ احساسِ ذمہ داری، فرض اور منزل پہ نظر رکھنے سے متعلق یہ بہترین اور مترنم نظم علامہ اقبال کی نظم ’ تو ابھی رہ گزر میں ہے، قیدِ مقام سے گزر‘ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ اُس کا آخری بندبعد از مرگ پنڈت نہرو کی تحریر میں اُن کی میز کی دراز سے بھی برآمد ہوا تھا
Woods are lovely dark and deep / But I have promise to keep / And miles to go befor I sleep / And miles to go befor I sleep
جو لوگ مقصد کی راہ میں حائل خواہشات کے اسیر ہوجاتے ہیں وہ کامیابی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ مسئلہ ہمیشہ رہا ہے۔ عوام کو اصل مسائل سے غافل کرنے اور ان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مقصد سے انہیں مختلف دلچسپیوں ، رنگینیوں اور کھیل کود میں مشغول و مدہوش رکھا جاتا ہے۔یاد رکھیے، یہ گھوڑے، یہ ہاتھی، یہ فائٹر ، یہ ایکٹر، یہ کرکٹرسب آپ کو الجھائے رکھنے ، مقصد سے غافل کرنے اورتعمیری کاموں سے روکنے والی چیزیں ہیں۔ یہ وہ ہاتھی ہیں جو باضابطہ منظم طریقے سے وقتاً فوقتاً آپ کے اطراف لائے جاتے ہیں تا کہ آپ مذکورہ بالا طلبہ کی طرح اپنا درس اور مقصد چھوڑ کر انہیں دیکھنے دوڑ پڑیں۔ حال ہی میں پیش آئے ایک واقعہ کی تفصیلی مثال سے اِس نکتے کو واضح کیا جاسکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا ابھی ابھی ایک قوی الجثہ ہاتھی اپنی سونڈلہراتا ہوا ہمارے معاشرے سے گزرا ہے۔ ہم غزہ کے لیے دعاوں میں مشغول تھے کہ شور اٹھا ’ ورلڈ کپ، ورلڈکپ‘ اورچھوٹے بڑے سب اس ہاتھی کو دیکھنے دوڑ پڑے۔ Audience Research Council BARC Broadcast نے جاری کیے ڈیٹا کے مطابق صرف ہنددوستان میں 518 بلین افراد نے 422 بلین منٹ تک ٹی وی پر ورلڈ کپ 2023ء کے میچیس کو دیکھا۔اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے والے لوگ اِس تعداد میں شامل نہیں ہیں۔ہمارے پاس کھیل دیکھنے والوں کا کمیونٹی کی بنیاد پر ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن ایسے معاملوں میں ہماری حصہ داری کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔ اِس سے زیادہ بے حسی اور ناعاقبت اندیشی کیا ہوسکتی ہے کہ ملت کے کئی کئی بلین افراد کئی کئی بلین منٹ ’ہاتھی‘ دیکھنے کے لیے نکال لیتے ہیں جب معاشی بدحالی، سیاسی استحصال اور تعلیمی پسماندگی کی آندھیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ ہر روز نت نئے فتنے سرابھار رہے ہوتے ہیں۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب قوم ان حالات میں بھی ہاتھی دیکھنے دوڑ پڑتی ہے جب گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اِن ناگفتہ بہ حالات میں ہمارا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پیسہ اور ہماری انرجی کی ایک ایک کیلری اپنے مقصد کے حصول اور اپنی کشتی کو بھنور سے بچانے میں صرف ہو۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا کوئی مقصد ہی نہیں ہے یا ہم حد سے زیادہ سادہ لوح ہیں۔ عالمی اسپورٹس مقابلے نچلے اور متوسط طبقے کے نادان عوام کو دی جانے والی افیم ہے تا کہ ان لغویات کا شکار ہو کر وہ نہ تو سوچے سمجھے اور نہ ہی ترقی کرے۔ کبھی اس پر بھی غور کیجیے کہ اسرائیل کی کرکٹ ٹیم کیوں نہیں ہے؟ امریکہ کی کرکٹ ٹیم کیوں نہیں ہے؟ روس ، چین ، جاپان ، فرانس اور سوئزرلینڈ کی کرکٹ ٹیمیں کیوں نہیں ہیں؟ کرکٹ ٹیمیں ہیں تو سری لنکا کی، بنگلہ دیش کی، پاکستان کی،ہندوستان کی اور برطانیہ کے غلام رہ چکے ممالک کی ہیں۔کھیل کودکی اہمیت اور تفریح کا جواز دینے والوں کی خدمت میں جارج آرویل کے مضمون The Sporting Sprit کا یہ اقتباس پیش ہے۔’’ گاووں کے ہرے بھرے میدان پر جہاں آپ کھیل کے لیےگروپس بنا لیتے ہیں اور جہاں مقامی حب الوطنی کے جذبات کا عمل دخل نہیں ہوتا ، وہاں پر تو یہ ممکن ہے کہ آپ صرف تندرستی اور تفریح کے لیے کھیلیں۔ لیکن جیسے ہی وقار کا سوال سامنے آتا ہے، جیسے ہی آپ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شکست کی صورت میں آپ کی یا کسی ایک بڑے گروہ کی تذلیل ہوگی توفوراً وحشیانہ مقابلہ جاتی جبلتیں عود کرآتی ہیں ۔رومن عہد اور ۱۹ ویں صدی کے درمیان کھیلوں کو ذیادہ اہمیت حاصل نہیں رہی۔ پھر برطانیہ اور امریکہ میں کھیلوں کو بھاری سرمایہ کاری سے لتھڑی ایک سرگرمی میں تبدیل کر دیا گیا ‘‘۔ عالمی کرکٹ مقابلے کھیل نہیں، سیاست ہے، تجارت ہے ۔خود کھیلنے کی بات تو سمجھ میں آبھی سکتی ہے لیکن آلو چپس کے ساتھ کوک پیتے ہوئے اسکرین پر اپنا قیمتی وقت، پیسہ اور صحت برباد کرنے والوں کی نیک توفیق کے لیے خدا سے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔رہی بات تفریح کی توبہو بیٹیوں کی عصمت دری کرنے والوں کو ہار پہنتے ہوئے دیکھنے ، معصوم لاغر بچوں کو کچرے کے ڈھیروں میں روٹی کے ٹکڑے ڈھونڈتے ہوئے دیکھنے کے بعد بھی آپ کا دل تفریح کرنا چاہتا ہے تو مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ کاش قوم کے اتنے بلین افراد اتنے بلین منٹ کچھ کتابیں پڑھ لیتے یا چار پیسے کمانے میں صرف کرتے تو قوم کے نڈھال جسم میں کچھ طاقت آجاتی۔ ذہن نشین رہے کہ ہم اِس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، ہمارے وجود کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہاتھی دیکھنا غلط نہیں ہے لیکن اِس وقت ہم کسی بھی قسم کے ہاتھی کو دیکھنے کے موقف میں نہیں ہیں، جیسے اُس وقت یحییٰ اندلسی ہاتھی دیکھنے کے موقف میں نہیں تھے۔اِس وقت تویحیٰ اندلسی کی طرح پوری توجہ صرف پڑھائی پر دیجیے،معاشی استحکام ، آپسی بھائی چارے اور برادرانِ وطن سے روابط پر دیجیے۔ اِن مقاصد سے بھٹکانے والی دلچسپیوں کا شکار مت بنیے، اُن پرندوں کی مانند نہ ہو جایئے جو دانہ تو دیکھتے ہیں جال نہیں۔ مت بھولیے کہ ابھی ہم راہ گزر میں ہیں، ہمیں کئی وعدے پورے کرنا ہے، کئی میلوں کی مسافت طے کرنا ہے۔ منزل پہ پہنچ جائیںتو ہاتھی بھی دیکھ لینا۔ اِس وقت تو علامہ اقبال کی نصیحت پیشِ نظر رہے کہ
گرچہ ہے دلکُشا بہت حسنِ فرہنگ کی بہار
طائرکِ بلند بال دانہ و دام سے گزر
بشکریہ : ہفت روزہ دعوت
جواب دیں