شاد نے نہ صرف یہ کہ اس طرحی مشاعرے میں شرکت کی تھی بلکہ چار طرحوں پر اپنی دو دو غزلیں بھی پڑھی تھیں۔ ان ہی دنوں لکھنؤ کی سرزمین پر بھی مشاعروں اور ادبی محفلوں کا انعقاد تیزی سے عمل میں آرہا تھا، لکھنؤ کے خوش ذوق شعرا نے ’’معیار پارٹی‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن بھی قائم کی تھی اور عزیز لکھنوی کی سرپرستی میں ’’معیار‘‘ نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا، اس پارٹی میں یہ طے کیا گیا تھا کہ لکھنوی شعرا کو باضابطہ طور پر میرؔ و غالبؔ کی پیروی کرنی چاہئے، میرؔ کی پیروی تو اہلِ لکھنؤ سے نہ ہوسکی لیکن غالبؔ کی پیروی زوروشور سے ہوئی اور غالبؔ کی زمینوں میں کثرت سے طرحی مشاعرے منعقد ہونے لگے، ان ہی دنوں یگانہ چنگیزی بھی لکھنؤ میں قیام پذیر تھے اور دوسرے شعرا کے ساتھ وہ بھی معیار پارٹی کے مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے اور غالب کی زمین میں غزلیں بھی تحریر کیا کرتے تھے لیکن بعد میں یگانہ چنگیزی اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان محبت اور خلوص کا رشتہ قائم نہ رہ سکا اور معاصرانہ چشمک میں تبدیل ہوگیا۔ یگانہؔ نے لکھنؤ کے شعرا کی بھر پور مخالفت شروع کردی، ساتھ ہی غالب کے خلاف انہوں نے زبردست محاذ بھی کھول دیا اور اہل لکھنؤ کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ:
یارانِ چمن، یہ رنگ و بو مجھ سے ہے
تم سے کیا ہوگا، لکھنؤ مجھ سے ہے
میں جانِ سخن ہوں، بلکہ ایمانِ سخن
دنیائے ادب کی آبرو مجھ سے ہے
لکھنؤ میں ان دنوں ایک مشہور شخصیت جناب حامد علی خاں بیرسٹر کی بھی تھی جو ان دنوں لکھنؤ میں شعر و ادب کی آبرو تصور کئے جاتے تھے اور جن کے دم سے لکھنؤ کی فضا میں ادبی بہار تھی۔ ان کی کوٹھی پر اکثر و بیشتر شعرائے کرام کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ اس طرح اگر لکھنؤ میں جناب حامد علی خاں بیرسٹر کے دم سے وہاں کی سرزمین پر باغ و بہار کا منظر نامہ لکھا جارہا تھا تو ٹھیک اسی وقت عظیم آباد میں سید شاہ حامد حسین حامد عظیم آبادی کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا، اس لئے کہ تاریخی طور پر جب ہم واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت بہت واضح طور پر ہمارے سامنے منعکس ہوتی ہے کہ عظیم آباد میں جب رؤسائے عظیم آباد اقتصادی طور پر روبہ زوال ہوئے اور ان کی مالی حالت کمزور ہوگئی تو راجہ رام نرائن موزوں، مہاراجہ شتاب رائے اور سید بادشاہ نواب رضوی کے بعد اگر کسی دوسری ادب نواز شخصیت نے عظیم آباد میں مشاعروں کی روایت اور ادبی ماحول کو باقی رکھا تھا تو وہ شخصیت سید شاہ حامد حسین حامد عظیم آبادی کی تھی جو درگاہ شاہ ارزانی کے سجادہ نشیں بھی تھے اور معتبر حوالے کے مطابق یہ بات کہی جاتی ہے کہ خانقاہ شاہ ارزانی کے دسویں صاحب سجادہ قطب العصر حضرت شاہ حیدر علی قدس سرہ کا وصال ہوا تو آپ گیارہویں سجادہ نشیں کے طور پر مسند سجادگی پر 1316ھ میں جلوہ افروز ہوئے تھے، آپ کی وفات 1387ھ میں ہوئی جب کہ آپ کا سن پیدائش 1301ھ ہے۔ سید شاہ حامد حسین ہمارے شکریے کے مستحق ہیں، ان کی کوششوں کے نتیجے میں ہی عظیم آباد میں سال میں کم از کم ایک مرتبہ پورے ہندستان کے شعرائے کرام عظیم آباد میں جمع ہوتے تھے، اس سلسلے میں 1919ء میں منعقد ہونے والا وہ عظیم الشان مشاعرہ آج بھی تاریخ کے اوراق میں اپنی اہمیت و افادیت اور انفرادیت کے لئے یاد کیا جاتا ہے، جس میں دہلی سے داغ دہلوی کے داماد سائل دہلوی نے شرکت کی تھی اور لکھنؤ سے عزیز لکھنوی شرکت کی غرض سے عظیم آباد تشریف لائے تھے، دبستانِ عظیم آباد کی تاریخ میں حامد عظیم آبادی کی ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 1947ء میں جب ملک تقسیم ہوگیا اور عظیم آباد کے بیشتر رؤسا ترکِ وطن کرکے پاکستان چلے گئے تو عظیم آباد کا ادبی ماحول بہت متاثر ہوا اور شادؔ و بیدلؔ کی یہ سرزمین جوہر دور میں علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے اور جہاں شعر و سخن کی شمعیں سدا منور رہی ہیں اچانک ویران نظر آنے لگی، وہ فضا جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کبھی مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ نے اپنا یہ شعر کہا تھا:
گفتمش چوں بود عظیم آباد
گفت رنگیں تر از فضائے چمن
اب عظیم آباد کی اس سرزمین پر پہلے جیسی رونق تو نہ تھی مگر پھر بھی عظیم آباد، عظیم آباد تھا، تقسیم ملک کے بعد جس طرح پورے ملک کے حالات تبدیل ہوئے تھے یہاں بھی تبدیلی فطری تھی، لیکن وہ تبدیلی تادیر واقع نہ رہی اور عظیم آباد میں ایک مرتبہ پھر ہر سمت چمنِ ادب میں غنچے چٹخنے لگے، کلیاں مسکرا نے لگیں اور شعر و شاعری کے پھول بھی کھلنے لگے۔ مشاعرے بھی ماضی کی طرح منعقد لگے اور اس سرزمین کی عظمت دوبارہ بحال ہوگئی۔ مشاعروں کے تعلق سے جب بھی عظیم آباد کی تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ کبھی اے جی آفس بہار کے ذریعے ان عظیم الشان مشاعروں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ہے، جن کے ذریعے پورے ہندستان میں علم و ادب اور شعر و سخن کی روشنی تمام اہلِ نظر نے محسوس کی تھی، اے جی آفس بہار کے ذریعے عظیم آباد میں متعدد ایسے مشاعروں کا انعقاد عمل میں آیا تھا جن کے نقش و نگار آج بھی ہمارے ذہن میں تازہ بہ تازہ ہیں۔ اے جی آفس بہار کی جانب سے منعقد ہونے والے مشاعرے کسی وجہ سے اب نہیں ہوتے ہیں، لیکن دوسرے اداروں کے ذریعے آج بھی بہار میں مشاعروں کا انعقاد عمل میں آرہا ہے اور ان مشاعروں کے توسط سے اردو زبان و ادب کا کارواں آگے کا سفر طے کررہا ہے، زبان ترقی کررہی ہے، عوام کے درمیان ادب کا ذوق و شوق پروان چڑھ رہا ہے۔ ایسے ہی مشاعروں میں گذشتہ 8نومبر 2014ء کا وہ عظیم الشان مشاعرہ بھی اب تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے جو متھلانچل کی سرزمین پر دربھنگہ میں المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا، مذکورہ مشاعرہ اردو کے ممتاز صحافی اور المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سرپرست جناب سید اشرف فرید کی قیادت میں منعقد ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ دربھنگہ کی سرزمین پر ایسا کوئی دوسرا بڑا اور عظیم الشان مشاعرہ پہلے کبھی منعقد نہیں ہوا تھا، حالانکہ گذشتہ چار سال سے اس ادارے کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان مشاعروں کا انعقاد عمل میں آرہا ہے، لیکن اس سال کے مشاعرے کی شان و شوکت اور کامیابی نے اپنا پچھلا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ معتبر ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق اس مشاعرے میں، مشاعرہ سننے کے لئے مشاعرے کے شائقین بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے اور مجھے ڈاکٹر منصور خوشتر نے یہ بتایا ہے کہ کم از کم پچیس سے تیس ہزار کا مجمع مشاعرہ سننے کے لئے مشاعرہ گاہ میں موجود تھا جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آج بھی ہمارے سماج میں مشاعرے کی روایت کی توسیع کا عمل جاری ہے اور مشاعروں کی قدر و قیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ بیشک اردو کے مشاعروں نے عوام کے درمیان اردو زبان سے محبت پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور اس میں صرف مسلم شعرائے کرام کا عمل دخل نہیں رہا ہے بلکہ مشاعروں کو عروج بخشنے میں غیر مسلم شعرائے کرام اور شاعرات کی خدمات کو بھی ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ اس مشاعرے میں راقم الحروف کو بھی شرکت کرنی تھی لیکن 8نومبر کو ہی پٹنہ میں بہار پبلک اسکول اینڈ چلڈرن ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک مشاعرے کا اہتمام انجمن اسلامیہ ہال میں کیا گیا تھا جس کی نظامت کے لئے میں نے بہت پہلے الحرا پبلک اسکول شاہ گنج کے ڈائرکٹر ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنی منظوری دے دی تھی جس کی وجہ سے میں دربھنگہ کے کل ہند مشاعرے میں شرکت سے محروم رہ گیا۔ اس مشاعرے میں روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ اور المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کے سرپرست جناب سید محمد اشرف فرید کی کتاب ’’ماجرا۔ دی اسٹوری‘‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا، جس پر میں تفصیلی تبصرہ کرچکا ہوں۔ ڈاکٹر منصور خوشتر کے ذریعے ترتیب دی گئی اس کتاب کا اجرا سابق مرکزی وزیر محمد علی اشرف فاطمی، مہمان خصوصی ایم رحمن، ایس پی مدھوبنی، ڈاکٹر اظہار احمد، چیئرمین تخمینہ کمیٹی بہار اسمبلی، مشہور شاعر پروفیسر عبد المنان طرزی، سید ممتاز الدین پرووائس چانسلر اور ڈاکٹرانور جلال پوری کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
جناب اشرف فرید نے اس موقعے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جو اس تاریخی اور مثالی ادبی تقریب میں شریک ہوئے، انہوں نے اپنی تقریر میں مشاعرے کی اہمیت و افادیت پر بھر پور انداز میں روشنی ڈالی اور فرمایا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مشاعرے کا اہتمام بہار کے تمام اضلاع میں کیا جائے، مشاعرے کے ذریعے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے درمیان ادب کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے بلکہ اس سے زبان کا فروغ بھی ہوتا ہے،
انہوں نے دربھنگہ سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ادبی وثقافتی اورمردم خیزدھرتی پرہرسال کی طرح اس سال بھی آپ سے روبروہوکر یک گونہ سرخوشی اورطمانیت کااحساس ہورہاہے ۔ ایک ایسے دورمیں جب مادیت اپنے پیر پھیلا کراقوام عالم کواپنے سائے میں سمیٹ لینے کی کوشش کررہی ہے سائنسی شعور تصورات و تخیل کی وادیوں اورسبزہ زاروں کونگل لینے کی جدوجہد میں مصروف ہے، ایسے میں شاعروں کی محفلوں کاسجنا، شعراء کی شرکت اورسامعین کاجمگھٹ یہ اطمینان دلاتاہے کہ ادب روبہ زوال نہیں ہوسکتااورمشاعروں کی روایت کمزورپڑنے کے بجائے مزید مستحکم ہورہی ہے ۔ اس کے حسن کاجادو اور مزاج کی چاشنی سرچڑھ کربول رہی ہے، یہ مشاعروں کاحسن اوراس حسن پر لوگوں کی وارفتگی ہی توتھی کہ بادشاہوں اورنوابوں کے درباروں میں سجنے والی محفل سخن نے مشاعروں کارنگ لیااور عوام کے درمیان مقبولیت ملی ۔ اس نے عوام کے دلوں پرراج کیااور اس کی حکومت سرحدوں سے تجاوز کرگئی ۔آج مشاعرے ہندستان پاکستان تک محدود نہیں رہے بلکہ امریکہ ، برطانیہ ، کناڈہ ، جرمنی ، فرانس اورخلیجی ممالک میں بین الاقوامی مشاعرے ہورہے ہیں ۔خود مجھے دو،دو بار دبئی کے بین الاقوامی مشاعرہ میں شرکت کاموقع ملا۔ وہاں بھی جس طرح لوگ اپنی تمام ترمصروفیات چھوڑکرمحفل مشاعرہ میں وارفتگی کے عالم میں موجود رہتے ہیں اور لطف لیتے ہیں وہ اس بات کی ضمانت ہے کہ مشاعروں کی روایت کوکوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اورکیوں نہ ہو،بھاگ دوڑ اورتناؤ بھری زندگی میں مشاعرے صحت مندذہنی تفریح کاموقع ہی مہیا نہیں کراتے بلکہ ذات پات ،مذہب کی پابندیوں سے بلند ہوکر انسانی تہذیب اورمسائل پرغور وفکر کاموقع بھی دیتے ہیں۔
اردو شاعری پرعموماً رومانیت تک اورمسائل سے پہلو تہی کاالزام عائید ہوتارہتاہے لیکن یہ بالکل غلط ہے ۔ سچ تویہ ہے کہ اردو شاعری نے ہمیشہ عصری تقاضوں کوپوراکیاہے۔ چاہے غلامی سے لڑنے اور آزادی کی جدوجہد ہو، حب الوطنی ہو،اتحادوسالمیت کاپیغام غربت وافلاس ہو، حرمت انسانیت کاسوال ہواقتصادی مسائل ہوں طبقاتی کشمکش ہرجگہ اردوشاعری اپنے نمایاں کردارمیں نظرآتی ہے ۔
جب وطن غلام تھاتوایک طرف یہ آوازبلندہورہی تھی کہ ’’سرفرشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے ‘‘ تودوسری طرف اقبال کاترانہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
حب الوطنی کی قندیل روشن کررہاتھا۔ وہیں چکسبت کااے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے کا ترانہ گونج رہا تھا ۔
علامہ اقبال نے جو اشعارپڑھے وہ بھی دلوں کو چھو لیتے ہیں ۔
مثلاً بچوں کے لئے
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
وہیں نوجوانوں کوبھی انہوں نے جھنجھوڑا
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے ہے آسماں اور بھی ہیں
ساحرؔ نے اگرعورت کی انسانیت میںیہ کہہ کرحریت کی رنگ آمیزی کی کہ
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تواس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تواچھا تھا
تومنوررانا نے ’’ماں‘‘ کی آفاقیت کونیااحساس واستحکام بخشا اردو کواس المناک سانحہ کابھی سامنا کرنا پڑاکہ جس وطن کی آزادی کے لئے اس نے اپنا سب کچھ داؤپرلگادیا اسی کی تقسیم ہوگئی اوراسی وطن سے اردو کوجلاوطن کردینے کی کوشش کی گئی۔ دہلی جہاں اردو راج کرتی تھی ہر سڑک، چوک، چوراہوں ، گلیوں اوردوکانوں میں اس کاسکہ چلتاتھا راتوں رات، سڑکوں اوردفتروں کے بورڈ سے اس کے وجود کوکھرچ دیاگیا۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اردو اس سانحہ کو بھی برداشت کر گئی اورآج اس مشاعرے کاسماں یہ اعلان کرتا نظر آرہاہے کہ اس کی جڑیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں۔ہم شکرگذار ہیں سابق مرکزی وزیر جناب علی اشرف فاطمی کے جن کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے المنصور ٹرسٹ ہرسال شاندار کل ہندمشاعرہ کااہتمام کرتا رہا ہے۔ ہم مشاعرہ میںآئے شعراء کرام اورتمام سامعین کاتہہ دل سے شکریہ اداکرتے ہوئے سامعین اورشعراء عاشقین اورمحبوب کے درمیان سے خود کو الگ کرتے ہیں۔ جناب اشرف فرید نے مزید کہا کہ مشاعرے کی حیثیت صرف ایک ادبی تقریب کی نہیں ہے اور نہ ہی مشاعرے صرف سامعین کی ضیافت طبع کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں، بلکہ مشاعروں کے انعقاد سے اس تہذیب و ثقافت کو توانائی بھی حاصل ہوتی ہے جو ہماری ایک منفرد شناخت کی حیثیت رکھتی ہے۔ مشاعرہ آج کے ترقی یافتہ سماج میں اور بھی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے، آج روایت دم توڑ رہی ہے، ہمارے تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ اردو کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے۔ لہٰذا مشاعروں کا انعقاد ہر حال میں ہوتے رہنا چاہئے، مشاعرے کے ذریعے ملک میں ہم قومی یکجہتی کو بھی مضبوط کرنے کا کام کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ مشاعروں میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہوتے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے بلکہ ہندی کے ساتھ دوسری زبانوں کے اشخاص بھی مشاعروں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور اردو زبان کی شیرینی اور سحر انگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں۔ اس موقعے پر للت نارائن متھلا یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر سید ممتاز الدین، مدھوبنی کے ایس پی محمد رحمن، ڈاکٹر اظہار احمد، ایم ایل اے اور حکومت ہند کے سابق وزیر محمد علی اشرف فاطمی نے بھی مشاعروں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس بات پر تقریباً تمام مقررین نے زور دیا کہ ہمیں اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم ضرور دینی چاہئے، کیوں کہ اگر ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دلائیں گے تو ہمارے بچے نہ صرف یہ کہ اپنے مذہب سے بیگانہ ہوجائیں گے بلکہ اس تہذیب سے بھی ان کا رشتہ ختم ہوجائے گا جو مہذب سماج کی ایک خوب صورت اور دلکش علامت ہے، اس موقعے پر ڈاکٹر انور جلال پوری نے بھی مشاعرے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اردو کے فروغ کے لئے مشاعروں کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس مشاعرے کا آغاز شب کے 8بجے قاری جاوید کی تلاوت کلام پاک اور ریاض خاں قادری کے نعتیہ کلام سے ہوا۔ مشاعرے کی صدارت سابق مرکزی وزیر محمد علی اشرف فاطمی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر انور جلال پوری نے انجام دیئے، مشاعرے کے انعقاد کے لئے تمام مہمانان خصوصی نے جناب سید محمد اشرف فرید اور ڈاکٹر منصور خوشتر کی ستائش کی۔ مشاعرہ میں دربھنگہ کے علاوہ دوسرے اضلاع کے لوگوں نے بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کی اور آخر تک مشاعرہ گاہ میں موجود رہے، خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد مشاعرہ گاہ میں موجود تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مشاعرہ آج خواتین کے درمیان بھی کافی مقبول ہوچکا ہے۔مشاعرے میں انور جلال پوری، ڈاکٹر کلیم قیصر، محترمہ شبینہ ادیب، اشوک ساحل، رخسار بلرام پوری، فلک سلطان پوری، محترمہ نوری پروین، ہاشم فیروز آبادی، شمس الدین قمر، رحمت اللہ اچانک، جمیل اختر شفیق، معین گریڈیہوی کے علاوہ پروفیسر عبد المنان طرزی جیسی عظیم المرتبت شخصیت بھی مشاعرے میں موجود تھی، ان کے علاوہ بھی سہیل عثمانی، ڈاکٹر طارق انور سیوانی، ایس قمر، ایم آر چشتی، صدر عالم گوہر، حسن امام انور، ندا عارفی، منظر ریونڈھوی، ڈاکٹر نور محمد عاجز وغیرہ جیسے شعرائے کرام نے حاضرین کو اپنے کلام سے محظوظ فرمایا۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے نائب صدر نظر عالم اور تنظیم کے خازن ڈاکٹر امتیاز ہاشمی نے آخر میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ یادگار اور تاریخی مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔
میں ذاتی طور پر اس مشاعرے کے انعقاد کے لئے جناب سید محمد اشرف فرید، جناب محمد علی اشرف فاطمی، پروفیسر عبد المنان طرزی اور ڈاکٹر منصور خوشتر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس سلسلہ میں اگر المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے صدر جناب سید اجمل فرید کا شکریہ ادا نہ جائے تو بڑی بے انصافی ہوگی، جناب سید اجمل فرید کے دم سے نہ صرف دربھنگہ بلکہ جھارکھنڈ میں بھی بڑی بڑی ادبی تقریبات کا اہتمام ہوتا رہا ہے، عمر فریدؒ ایوارڈ جو ہرسال جھارکھنڈ میں دیا جاتا ہے وہ اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے اور نئی نسل کو اردو کی جانب متوجہ کرنے کا بہترین اور کامیاب وسیلہ بھی ہے، میں اس سلسلے میں جناب اشرف فرید اور جناب اجمل فرید اور جناب طارق فریدسے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بہار کی سرزمین (عظیم آباد) سے بھی عمر فرید ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کریں تاکہ بہار کی نئی نسل بھی نامور صحافی، جناب سید محمد عمر فریدؒ کے جلائے ہوئے اردو کے ایک روشن چراغ سے اپنے ذہنوں کی تاریکی کو دور کرسکے اور اس کے دل میں بھی اردو کی محبت پیدا ہوسکے۔ آخر میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آج صرف دربھنگہ ہی نہیں بلکہ بہار و جھارکھنڈ کے ہر ضلعے کو ڈاکٹر منصور خوشتر جیسے فعال اور متحرک نوجوان کی ضرورت ہے اور ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے جناب سید محمد اشرف فرید اور جناب سید محمداجمل فرید کی قیادت بھی بہت اہم اور ضروری ہے۔
جواب دیں