اِن سرفروشوں میں بہادرشاہ ظفرؔ ، بیگم حضرت محل، جنرل بخت روہیلہ، احمداللہ شاہ ، فیروزشاہ، مہارانی لکشمی بائی، نانا صاحب پیشوا، تاتیا ٹوپے، بابو کنور سنگھ سب کے فرمان ، خطوط اور مُہروں میں اردو ہی استعمال ہوتی تھی۔
اردو کا پہلا اخبار ’’جامِ جہاں نما‘‘ ۱۸۲۲ء میں شائع ہوا اور مغلیہ سلطنت کے خاتمہ تک تقریباً ۴۰ اردو کے اخبارات جاری ہوچکے تھے، جنھوں نے عوام میں وطن پرستی اور ملک کی آزادی کا جذبہ پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، ’’تاریخِ صحافت اردو‘‘ کے مؤلف کے بقول ’۱۸۵۷ء میں ہندوستانیوں نے انگریز سامراج کے خلاف جو بغاوت کی اُس کی ذمہ داری انگریزوں نے اردو کے مذکورہ اخبارات پر ہی ڈالی اور اِس کی پاداش میں ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے بانی مولوی محمد باقر کو سولی پر چڑھادیا گیا، اُن کے بیٹے محمد حسین آزادؔ کے نام بھی گرفتاری کا وارنٹ تھا لیکن وہ بچ کر نکل گئے، اُن کے ہم عصر ’’صادق الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر جمیل ہجرؔ پر بغاوت کا مقدمہ چلایا اور انہیں تین سال کی سزا ہوئی۔ اِسی سلسلہ کی ایک کڑی ۱۸۵۷ء میں بہادرشاہ ظفرؔ کے نواسے مرزا بیدار بخت کے تحریری حکم سے شائع ہونے والا اردو اور ہندی کا اخبار ’’پیامِ آزادی‘‘ ہے جو حقیقی معنوں میں آزادی کا نقیب بن کر منظرِ عام پر آیا، اِس اخبار نے جنگِ کی آگ بھڑکانے میں ایندھن کا کام کیا، یہی وجہ ہے کہ انگریز حکمرانوں نے اس اخبار کو بند کرنے کے ساتھ اِس کے پڑھنے والوں کو بھی سزا کا مستحق قرار دیا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں کے گھروں سے اِس باغی اخبار کا شمارہ یا ایک ورق دستیاب ہوا اُنہیں بھی انگریز حکومت کے عتاب کا شکار ہونا پڑا، اِس اخبار کے ایڈیٹر ، پرنٹر، پبلشر اور ایڈیٹر بیدار بخت کو موت کی سزا دی گئی۔ اخبارات کی اشاعت کا باقاعدہ مرحلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اردو زبان عوام کے درمیان رابطہ کی زبان کا درجہ حاصل کرچکی تھی ، صرف دہلی سے بارہ ایسے قلمی اخبار سپرد ڈاک کئے جاتے، جن کا مقصد انگریز حکومت کے خلاف عوام کو بیدار کرکے بغاوت کے لیے اُکسانا تھا، یہی وجہ ہے کہ لارڈ آک لینڈ اور اور لارڈ کیننگ کو اعتراف کرنا پڑا کہ ’’قلمی اخبارات کی صحافت نے ہندوستانی عوام میں برطانوی حکومت کے خلاف بدگمانی پھیلاکر ۱۸۵۷ء کے انقلاب کی راہ ہموار کی ہے‘‘ ۔
اردو اخبارات کے اس باغیانہ رول سے گھبراکر انگریز حکمرانوں نے ہندوستانی پریس کا گلا گھونٹنے کے لئے کاروائی شروع کی جس کے نتیجہ میں اردو اخبارات کی تعداد گھٹتے گھٹتے صرف ۲ ۱ رہ گئی، اِس کے بعد آگرہ سے مکندلال کی ادارت میں ماہنامہ ’’تاریخ بغاوتِ ہند‘‘ ، اجمیر سے اجودھیا پرساد کی ادارت میں ہفت روزہ ’’خیرخواہِ خلق‘‘ ، علی گڑھ سے سرسید احمد کی ادارت میں ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ یا ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ اور لکھنؤ سے پہلے ’’اودھ اخبار‘‘ اور اس کے بعد ’’اودھ پنچ‘‘ جاری ہوئے، ان اخبارات نے عوام میں آزادی کے لئے جدوجہد کا جذبہ اور سیاسی شعور پیدا کرنے کا اہم کام انجام دیا۔ ۱۸۶۰ء میں دہلی کے مختلف امراء اور نواب زادوں کی زیرسرپرستی چھ اخبارات شائع ہورہے تھے، اِن میں سب سے مشہور ’’اکمل اخبار‘‘ تھا، جسے حکیم عبدالحمید نے شائع کیا۔ ۱۸۷۷ء میں تین مزید نئے اخبارات کا اجراء عمل میں آیا، یہ اخبار ’’نصرتُ الاکبر‘‘ ، ’’نصرتُ الاسلام‘‘ اور ’’مہرِ درخشاں‘‘ تھے، جن کا مقصد عوام کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رکھنا تھا، ۱۸۸۰ء کے دوران بارہ نئے اخبارات منظر عام پر آئے، اُس وقت تک میرٹھ، آگرہ، لکھنؤ، علی گڑھ اور لاہور میں اردو اخبارات اپنا حلقۂ اثر قائم کرچکے تھے، نیز آزادی کے لئے جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مصروف تھے۔
۲۰ویں صدی کا آغاز ہوتے ہی آزادی کے لیے قومی تحریک نے نئی کروٹ لی، حسرتؔ موہانی اور ظفرعلی خاں نے اپنے اخبارات ’’اردوئے معلیٰ‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ کے صفحات پر مضامین اور اشعار کے وسیلہ سے ملک کے عوام کو آزادی کی ضرورت واہمیت سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، بنگال سے مولانا ابوالکلام آزادؔ کا ’’الہلال‘‘ یا اُس کی ضبطی کے بعد ’’البلاغ‘‘ دہلی سے محمد علی جوہر کے ’’ہمدرد‘‘ ،لکھنؤ سے ’’جواہرلال نہرو کے ’’قومی آواز‘‘، پنجاب سے لالہ لاجپت رائے کے ’’وندے ماترم‘‘ ، بجنور سے ’’مدینہ‘‘، لاہور سے ’’ملاپ‘‘ ، ’’پرتاپ‘‘، ’’انقلاب‘‘ اور ’’پیام‘‘، دہلی سے ’’ریاست‘‘، ’’الجمعیۃ‘‘ اردو کے وہ اخبارات ہیں جو تحریکاتِ آزادی کے بارے میں خبریں، پیغامات، تقاریر اور منصوبوں کو پھیلاکر نیز سلگتے عصری مسائل پر اداریے لکھ کر بیرونی حکمرانوں کا ناطقہ تنگ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سابق ریاستِ بھوپال سے ’’صداقت‘‘، ’’صبح وطن‘‘ ، ’’آواز‘‘ اور ’’رہبروطن‘‘ کا جنگ آزادی میں نمایاں حصّہ رہا، مذکورہ اخبارات کے مدیروں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ لیکن بھوپال کی اردو صحافت کو بغاوت کا پہلا سبق ’’صداقت‘‘ کے ایڈیٹر مرزا عبدالکریم اُوجؔ نے پڑھایا، جس کی پاداش میں انہیں ریاست بھوپال سے بے دخل ہونا پڑا۔ وہ ۱۸۸۷ء میں بھوپال سے اپنا گھربار چھوڑکر ہوشنگ آباد چلے گئے اور وہاں سے ’’موجِ نربدا‘‘ کے نام سے ہفت روزہ جاری کیا، جو جدوجہد آزادی کا زبردست علمبردار اور انقلابی اخبار تھا۔
اردو زبان ، ادب اور صحافت کا خمیر سیاسی شعور، سماجی انصاف اور مذہبی رواداری سے اُٹھا ہے، اِسی لیے اردو کے صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ سماج میں وقوع پذیر حادثات و واقعات کو جہاں بیان کیا، وہیں جابر طاقتوں کے خلاف پوری شدت سے آواز بلند کی اور عوام الناس کے دل ودماغ میں وطن سے محبت کے اُس تصور کو گہرا کیا جو مدہم پڑگیا تھا، میر تقی میرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ ، واجد علی شاہ اخترؔ ، ظہیرؔ دہلوی نیز بہادرشاہ ظفرؔ سبھی نے اپنے عہد کی بربادی اور انگریزوں کی غلامی پر نوحہ خوانی کی تو حالیؔ ، چکبستؔ ، اقبالؔ اور جوشؔ نے اپنی نظموں سے، مومنؔ نے اپنی مثنوی سے، داغؔ ، سالکؔ ، مجروحؔ نے اپنے مرثیوں سے ہندوستانی عوام کو آزادی کی برکات اور غلامی کی لعنتوں سے اس فنکاری کے ساتھ آگاہ کیا کہ اُن کے اشعار اپنے عہد کی دھڑکن بن گئے، اردو شعراء نے ہندو اور مسلمانوں کو قریب لانے اور اُن میں اتحادِ عمل پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کی برگزیدہ ہستیوں پر نظمیں لکھیں جو کافی مقبول ہوئیں اور اخبارات کی زینت بنیں۔
منیرؔ شکوہ آبادی اردو کے پہلے شاعر تھے جن کو قید کرکے انڈومان بھیجا گیا، غالبؔ کے شاگرد میکشؔ کو قیدوبند کی آزمائش سے گزرنا پڑا، امام بخش صہبائی کو توپ سے اُڑایا گیا، اِسی طرح اُن علماء کرام کو اور مجاہدینِ جنگِ آزادی کو جن کا اوڑھنا بچھونا اردو اور اُس کی صحافت تھی، جلاوطنی اور دیگر صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا، مولانا محمودالحسن، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا برکت اللہ بھوپالی، لالہ ہردیال، لالہ لاجپت رائے تو چند نام ہیں، ایسے سیکڑوں بلکہ ہزاروں محبانِ وطن اور اردوداں حضرات نے قربانیاں پیش کرکے تحریکِ آزادی کو اپنے خون و پسینہ کا نذرانہ پیش کیا، اُس زمانے میں اردو کے خلاف نہ تو کوئی تعصب تھا، نہ امتیازی سلوک کی شکایت تھی بلکہ اردو ہی ملک کی وہ مؤثر زبان تھی جو لوگوں تک اپنا نقطۂ نظر پہنچانے کا ایک اہم وسیلہ بن گئی، علمائے دیوبند جن کا اثر ورسوخ ہر مذہب اور فرقہ پر یکساں تھا، اُن کی تقاریر سننے اور خیالات جاننے کے لئے سبھی مذاہب اور مسلکوں کے لوگ بے چین رہا کرتے تھے، مولانا ابوالکلام آزادؔ ، مولانا حسین احمد مدنی، عطاء اللہ شاہ بخاری، مولا حبیب الرحمن اس میدان کے شہ سواروں میں شامل تھے۔ ۲۰ویں صدی کے آغاز سے ۱۹۴۷ء تک تین ہزار سے زیادہ اردو کے اخبارات ورسائل شائع ہوئے، اُن میں ۹۰ فیصد اخبارات یعنی ۲ ہزار ۷۵۰ اخبارات نے آزادی کی لڑائی میں مختلف طریقوں سے حصّہ لیا اور قربانیاں پیش کیں، اُس دور کے سیاسی قائدوں میں آپ کو دو خصوصیتیں ملیں گی اوّل صحافی ہونا، دوم وکالت کرنا، مہاتما گاندھی، مولانا آزادؔ ، حکیم اجمل خاں، آصف علی، محمد علی جوہرؔ ، حسرتؔ موہانی، بال گنگا دھرتلک ، لالہ لاجپت رائے سبھی صحافی تھے۔
اُس زمانے میں جنگ آزادی پر جو فلمیں بنائی گئیں، ناول ، گیت اور نغمے لکھے گئے وہ سب اردو میں تھے، اردو کے ادیب، صحافی اور شعراء کی اِس اجتماعی کوشش کا اثر یہ ہوا کہ انقلاب زندہ باد اور انگریز حکومت مردہ باد کے نعروں سے ملک کے درودیوار گونجنے لگے، ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی کے لیے جدوجہد کے اپنے جس سفر کا آغاز کیا اور جس کے اسٹیج سے قومی رہنما الفاظ وجذبات کے دریا بہاتے رہے، وہاں بھی اردو زبان کا استعمال ہوتا تھا، مہاتماگاندھی نے اردو زبان کی اہمیت کا احساس کرکے اِس زبان کو خود سیکھا، کانگریس کے صفِ اوّل کے قائدوں میں موتی لال نہرو یا سروجنی نائیڈو اور دادا بھائی نوروجی ہوں یا بال گنگا دھرتلک، لالہ لاجپت رائے ، جواہرلال نہرو ہوں یا ڈاکٹر راجیندر پرساد، گووندولبھ پنت ہوں یا لال بہادر شاستری، ماسٹر تارا سنگھ ہوں یا پرتاپ سنگھ کیروں، جے پرکاش نرائن ہوں یا رام منوہر لوہیا سب اردو جانتے ہی نہ تھے اپنی تنظیم کی بہبود کے کام اور عوامی رابطہ کی مہم میں اردو زبان اور اُس کی صحافت کا استعمال کرتے رہے۔ مہاتما گاندھی نے تو اردو زبان کی اہمیت کا اندازہ لگاکر اپنے اخبار ’’ہری جن‘‘ کواردو میں بھی نکالا، اِسی طرح ’’ملاپ‘‘، ’’پرتاپ‘‘، ’’تیج‘‘ اور دیگر متعدد ہندو صحافیوں کے اخبارات نے تحریکِ آزادی میں برطانوی سامراج کے خلاف اہم رول ادا کیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ انگریز حکمراں اگر کسی سے خوف زدہ تھے تو وہ اردو اخبارات اور اُن کے صحافی تھے۔ اِسی لئے اردو کے اخبارات وصحافیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، اُنہیں قیدوبند کا شکار بنایا گیا، اُن سے ضمانتیں طلب کی گئیں۔ اِس کے باوجود اخبارات کے مالکوں اور صحافیوں نے بیرونی حکمرانوں کا سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا اور تحریکِ آزادی کے ہراول دستہ کا کردار نبھایا، لیکن افسوس کہ آزادی کے بعد آزادی کی تحریک میں اردو صحافت کے اِس کردار کا کھلے دل سے اعتراف نہیں ہوا، اردو جیسی عوامی اور مقبول زبان کی شاعری ہوکہ نثر، فکشن ہوکہ صحافت سب نے حصولِ آزادی کا ایک جمہوری تصور پیش کیا اور عوام میں آزادی کی خاطر جان پر کھیل جانے کا جذبہ اُبھارا، اِس کو بھی فراموش کردیا گیا ہے۔
جواب دیں