عابد انور
نئی دہلی میں واقع حضرت نظام الدین تبلیغی مرکز کے بارے میں میڈیا کے منفی پروپیگنڈے اور بدنام کرنے کی کوشش کے درمیان پرت در پرت کھلنے لگی ہے۔ حکومت کے اشارے پر پولیس اور انتظامیہ جان بوجھ کر تبلیغی جماعت والوں کو نکلنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی بسوں کے پاس مہیا کرائے۔ جب کہ مسلسل تبلیغی جماعت کے ذمہ دار پولیس او ر انتظامیہ کے چکر لگاتی رہی ہے کہ ہمارے مرکز میں اتنے لوگ پھنسے ہوئے ہیں ان کو نکالا جائے اور ہم نے گاڑی اور ڈرائیور کا انتظام کرلیا ہے آپ صرف پاس مہیا کرائیں تاکہ یہ لوگ اپنی منزل تک پہنچ سکیں لیکن پولیس اور انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگیں۔ چوں کہ حکومت اور انتظامیہ نے اپنا منصوبہ تیار کر رکھا تھا اس لئے اس کی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور کورونا کے معاملے کو سنگین ہونے دیا اور جب معاملہ سنگین ہوگیا اور معلوم ہوگیا ہے کہ کورونا سے متاثر لوگ موجود ہیں، پولیس نے کارروائی کی اور میڈیا میں اسے ویلن بناکر پیش کردیا۔ ساری تفصیلات پبلک ڈومین میں ہے۔ سارے خط و کتابت میڈیا اور سوشل میڈیا میں گشت کر رہی ہے۔ اس میں جائے بغیر صرف تبلیغی جماعت کا سرکاری بیان پیش کرنے اور امتیازی سلوک کی بات پیش کر رہا ہوں۔ حکومت اور میڈیا کا یہ کہنا کہ تبلیغی جماعت والے چھپے ہوئے ہیں، انتہائی بے ہودہ، غلط بیانی اور غیر قانونی ہے۔ لوگ اپنے گھر میں یا اپنے ٹھکانے میں چھپتے نہیں ہیں رہتے ہیں۔ چھپا ہوا اسے کہا جاتا ہے جہاں دوسری جگہ پرجہاں ہونے کا کسی کو گمان نہ ہو اور وہ مجرم بھی ہو۔ جماعت والوں کا ٹھکانہ مسجد ہی ہوتا ہے۔ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہ مسجد میں ہی رہتے ہیں یہاں تک کے مسجد میں کھانا پینا، سونا، اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ ہندی میڈیا اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اور اپنے آقا فسطائی طاقتوں کے اشارے میں بدنام کرنے کے لئے ہر جگہ اسے چھپے ہوئے بتایا گیا۔ چھپتا وہ ہے کہ جو کوئی جرم کرتا ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں تھے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنس گئے تھے، کہیں پھنس جانا جرم ہے؟ اگر کوئی پھنستا ہے کہ اسے نکالا جاتا ہے جیسا کہ ویشنو دیوی مندر سے چارسو سے زائد پھنسے (ہم گھٹیا قوم نہیں ہیں جو چھپے ہوئے لکھیں گے)لوگوں کو نکالا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد جگہ سے ریسکیو (راحت رسانی) کرکے نکالا گیا ہے۔ اب بھی ہندی میڈیا مسجد میں پھنسے تبلیغی جماعتوں کو چھپے ہوئے ہی لکھ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عقل سے پیدل یہ لوگ جھوٹ اور گمراہ کن باتوں پر گیتا سے بھی زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ پورے ملک میں واٹسپ کے ذریعہ یہ بات پھیلادی گئی ہے کہ کورونا وائرس کو پورے ملک میں جماعت والوں نے پھیلایا ہے اور ہندوؤں نے اسے آسانی سے مان لیا ہے۔ماننے والوں میں آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس، آئی آئی ایس اور پڑھا لکھا طبقہ شامل ہے۔ جاہلوں کی بات تو جانے دیجئے۔وہ گوبر گومتر کوامرت سمجھ کر پی لیتے ہیں۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ سب سے پہلا معاملہ 30جنوری کا ہے۔ اس کے بعد سے 15لاکھ افراد بیرون ملک سے ہندوستان آئے ہیں جس کی اسکریننگ نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی جانچ کی گئی ہے کہ وہ کورونا سے متاثر ہیں یا نہیں۔ تبلیغی جماعتوں کا معاملہ تو 25مار چ کے بعد کا ہے۔اس سے پہلے پانچ سو سے زائد کی تعداد میں متاثر پائے گئے تھے۔ ہندوستان میں ابھی ساٹھ ستر ہزار لوگوں کی ہی جانچ ہوئی ہے اگر سب کی جانچ ہوگی تو اصل میں پتہ چلے گا۔ اس وقت ساری توجہ سے تبلیغی جماعتوں پر ہے اور سب کو چھوڑ کر ان کی جانچ کی جارہی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ مثبت یا منفی یہی لوگ نکلیں گے۔
تبلیغی جماعت پر الزام ہے کہ لاک ڈاؤن کی ان لوگوں نے خلاف ورزی کی ہے۔ جب کہ وہ لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے اور اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ یہاں رہنے پر مجبور تھے۔ اسے لاک ڈاؤن کا احترام کرنا کہتے ہیں نا کہ اس کی خلاف ورزی کرنا،جب کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ممبران پارلیمنٹ نے کی۔مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے حلف لیکر کی، ان کے اراکن اسمبلی نے کی۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کی۔کیوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے سیکڑوں لوگوں کے ساتھ اور بغیر سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹنس) کا خیال رکھے رام کی مورتی نصب کی۔ انڈین ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رسم و رواج کے ساتھ مہاراشٹر کے شولا پور میں رام نومی کا جلوس نکالا گیا۔ پولیس نے جب روکنے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے پتھراؤ کردیا۔ اسی طرح کے پتھراؤ کا واقعہ مظفر نگر کا بھی ہے۔ اسی کے ساتھ تبلیغی جماعت کے لوگوں کا تھوک پھیکنے کا واقعہ بھی فرضی نکلا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ دو مارچ کا مہاراشٹر کا ہے۔ تھوکنے والا شخص کو پولیس نے اس کے گھر سے لایا ہوا کھانا کھانے نہیں دیا تو وہ غصے میں پولیس والے پر تھوک پھینک دیا۔ اسی طرح ایک سازش کے تحت پورے اترپردیش سے تبلیغی جماعت کے بارے گمراہ کن خبریں جاری کی جارہی ہیں۔غازی آباد میں سی ایم اور تبلیغی جماعت والوں پر نرسوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے، گانے گانے،ننگا ہونے کا الزام لگادیا۔ کوئی مان سکتا ہے کہ نرسوں کے سامنے جماعت والے ننگا ہوسکتے ہیں۔وہ بھی غیر ملکی جماعت جو یہاں کی زبان نہیں جانتے۔ اس کا جواب مشہور صحافی ششی بھوشن اپنے فیس بک پوسٹ میں جواب دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ”خواتین کے سامنے عوامی طور پر برہنہ گھومنے، فحش اشارے کرنے اور گانا سننے کے الزام جماعتیوں پر… ہضم نہیں ہوتا… وہ ہر مسلم کو پکڑ پکڑ نمازی ہونے، ٹی وی نہ یکھنے، گانے نہ سننے کی صلاح دیتے رہتے ہیں۔ کوارنٹن وارڈ میں بغل میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہوئے فوٹو آسکتا ہے، تو اس فحش کے ویڈیو بھی آنے چاہئے نا..؟ وہ پنچ وقتہ نمازی ہوتے ہیں، ٹی وی، فلم سے بہت دور، ٹخنے کے اوپر پائجامہ پہنتے ہیں،نظر اٹھاکر بات تک نہیں کرتے،خواتین کو گندے اشارے کیا گھنٹہ کریں گے؟ اتنی سختی سے اسلامی قوانین پر عمل کرتے ہیں کہ دیگر مسلمان انہیں مذاق میں ”اللہ میاں کی گائے“ کہتے ہیں۔ مودیو الزام تو ڈھنگ سے لگانا چاہئے۔ کورونا کو ہراؤگے۔ قصاب کی بریانی ٹائپ کا الزام لگاکر، یہ کوئی لوک سبھا کا چناؤہے؟
پورے ملک میں خاص طور پر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں پولیس مسجدوں پر چھاپے مارکر مسلمانوں کی گرفتاریاں کررہی ہے۔ لاٹھیاں برسا رہی ہیں، کیا آپ نے کسی مندر میں پولیس کو لاٹھیاں برساتے دیکھا ہے جب کہ مندروں میں بھیڑ بھاڑ جاری ہے۔ ایک ویڈیو ضرورو وائر ل ہورہا ہے کہ ایک پولیس والا مندر میں لوگوں کو روکنے کے لئے چلا جاتا ہے وہیں پجاری سمیت سب لوگ پولیس والوں کو گراکر کو زبردست طریقے سے دھنائی کررہے ہیں۔ پولیس نے اب تک کسی مندر میں چھاپہ مارکر کسی کو گرفتارنہیں کیااور نہ ہی کوئی مقدمہ درج کیا۔ رام نومی کے دن پورے ملک میں جلوس نکالا اور مندروں میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے پوجا پاٹ کی، کیاپولیس نے کسی کو گرفتار کیا؟بی جے پی کے دہلی کے صدر منوج تیواری لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیکڑوں مجمع میں لوگوں کوماسک تقسیم کیا اور خواتین کو ماسک پہنایا، کیا اس کے خلاف کوئی کاررورائی کی گئی۔ کیوں کہ غیر اعلانیہ طور پر ہندوؤں پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ قانون تو صرف مسلمانوں پر نافذ ہوتا ہے۔ اگر لاک کی ڈاؤن کی خلاف ورزی میں مولانا سعد پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے تو اسی طرح شیو راج سنگھ چوہان، یوگی آدتیہ ناتھ، منوج تیواری اور اس کی طرح ہزاروں ہندوؤں کے خلاف ایف آئی آر درج ہونی چاہئے جنہوں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی ہے۔
جہاں تبلیغی سے کورونا وائرس پھیلنے کی بات ہے کہ کورونا وائر کے معاملہ اجاگر ہونے کے بعد سے اب تک 15لاکھ بیرون ملک سے ہندوستان آئے ہیں کیا ان کی جانچ ہوئی، کیا انہیں نہیں ڈھونڈا جانا چاہئے؟ تبلیغی جماعت والوں کا معاملہ آنے سے پہلے سات ڈاکٹروں کو کورورنا وائرس مثبت پایا گیا۔ ان کو کس نے کورونا سے متاثر کیا اور ان کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو کورونا وائرس پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ تیرو مالا مندر میں بھی 60 ہزار لوگ پھنسے تھے۔ پولیس کی موجودگی میں گونڈی میں لاک ڈاؤن کا مذاق اڑاتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے کیا ان کے خلاف کوئی کاررورائی ہوئی۔ وزارت داخلہ نے ٹورسٹ ویزا پرتبلیغی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے کی وجہ سے 960 غیرملکیوں کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کا ہندوستانی ویزابھی رد کردیا گیا ہے۔
نظام الدین مرکز کے منتظمین میں سے ایک مولانا یوسف سلونی نے 31 ماراچ کو ایک بیان جاری کرکے کہا کہ تبلیغی جماعت کا یہ مرکز پوری دنیا کا مرکز ہے اور گزشتہ ایک سو برسوں سے عام لوگوں تک اسلامی تعلیم پہنچانے کا کام کرتا رہا ہے۔ یہاں آنے والوں کا پروگرام ایک سال پہلے طے ہوتا ہے اور جو لوگ بھی یہاں آتے ہیں وہ صرف تین سے پانچ دن یہاں قیام کرتے ہیں۔ اس کے بعد مختلف علاقوں میں اسلامی تعلیمات کے کام پر نکل جاتے ہیں۔مولانا سلونی نے کہا کہ جب ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان ہوا، اس وقت بہت سے لوگ مرکز میں موجود تھے۔ اسی دن مرکز کو بند کر دیا گیا۔ باہر سے کسی کواندر آنے نہیں دیا گیا اور جو لوگ یہاں رہ گئے تھے، انہیں گھر بھیجنے کا انتظام کیا جانے لگا۔ اکیس مارچ کو ہی ریل خدمات بند ہونے لگیں، تو باہر کے لوگوں کو بھیجنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود دہلی اور ارد گرد کے تقریباً 1500 لوگوں کو گھر بھیجا گیا لیکن قریب 1000 لوگ مرکز میں باقی رہ گئے تھے۔ جنتا کرفیو کے ساتھ ساتھ 22 سے 31 مارچ تک کے لئے دہلی میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ بس یا پرائیویٹ گاڑیاں بھی ملنی بند ہو گئیں۔ ایسے میں پورے ملک سے آئے لوگوں کو ان کے گھر بھیجنا مشکل ہو گیا۔مولانا نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلی اروند کیجریوال کا حکم مانتے ہوئے لوگوں کو باہر بھیجنا درست نہیں سمجھا گیا اور انہیں مرکز میں ہی رکھنا مناسب سمجھا گیا۔ چوبیس مارچ کو نظام الدین تھانے کی جانب سے نوٹس بھیج کر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے جواب میں پولیس کو بتایا گیا کہ مرکز کو بند کر دیا گیا ہے۔ یہاں سے 1500 لوگوں کو ان کے گھر بھیج دیا گیا ہے لیکن 1000 لوگ جانے سے رہ گئے ہیں جنہیں بھیجنا مشکل ہے۔ پولیس کو یہ بھی جانکاری دی کہ یہاں رہنے والوں میں کچھ غیر ملکی شہری بھی ہیں۔ مرکز کی جانب سے لاک ڈاؤن پر مکمل عمل کرتے ہوئے ایس ڈی ایم کو عرضی دے کر 17 گاڑیوں کے لئے کرفیو پاس کا مطالبہ کیا گیا تاکہ یہاں پھنسے ہوئے لوگوں کو گھر بھیجا جا سکے لیکن گاڑیوں کے لئے کرفیو پاس جاری نہیں کئے گئے۔ پچیس مارچ کو تحصیلدار اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آئی جس نے کچھ لوگوں کی جانچ کی۔ چھبیس مارچ کو انہیں ایس ڈی ایم دفتر میں بلایا گیا اور ضلع مجسٹریٹ سے بھی ملاقات کرائی گئی۔ یہاں بھی مرکز میں پھنسے ہوئے لوگوں کی معلومات دی اور کرفیو پاس کا مطالبہ کیا۔ ستائس مارچ کو چھ افراد کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے طبی جانچ کیلئے لے جایا گیا۔ 28 مارچ کو ایس ڈی ایم اور عالمی ادارہ صحت کی ٹیم 33 لوگوں کو جانچ کے لئے لے گئی، جنہیں راجیو گاندھی کینسر اسپتال میں رکھا گیا۔ 28 مارچ کو اسسٹنٹ پولیس کمشنر لاجپت نگر کے پاس سے نوٹس آیا کہ مرکز شرائط و قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ دوسرے ہی دن اس نوٹس کا مکمل جواب دے دیا گیا۔ 30 مارچ کو اچانک سوشل میڈیا میں افواہ پھیل گئی کی کورونا وائرس کے متاثرین کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔
تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کا مقصد جہاں کروڑوں کی تعداد بھوکے، مزدور، بے سہارا،بے گھروں اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مرنے والوں درجنوں لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹانا تھا وہیں اس کامقصد مسلم قوم کو اجڈ، گنوار، جاہل، جانور، انسانیت کے قاتل ثابت کرنا تھا۔ شاہین باغ مظاہرے سے جو مسلمانو ں کے تئیں نطریے میں تبدیلی آئی تھی اس کو ختم کرنا تھا۔ اس لئے دہلی حکومت، مرکزی حکومت، پولیس، میڈیا، انتظامیہ، ڈاکٹرس و دیگر فسطائی ذہن کے لوگ اس شرمناک مہم میں شامل ہوگئے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ہندو یہ کہنے لگے ہیں کہ کورونا تبلیغی جماعت والوں کی وجہ سے ملک میں پھیلا ہے۔ اس سے بڑھ کر جہالت، ذہنی قلاشی،تعصب اور مسلم دشمنی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
جواب دیں