تبلیغی جماعت پر بھی بری نظر

جتنی غیراسلامی رسمیں تھیں وہ چھڑائیں مردوں اور عورتوں کا لباس پردہ والا پہننا سکھایا۔ اور ان کے بچوں کو اپنے ساتھ لائے اور انہیں اپنے مدرسہ کاشف العلوم میں رکھا اور ان کی تعلیم کا انتظام کیا۔ حضرت مولانا نے برسہابرس صرف میوات میں ہی کام کیا۔ اس زمانہ میں انگریزوں کی حکومت تھی انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کون مسلمان ہندو ہوتا ہے اور کون ہندو مسلمان ہوتا ہے؟ اس لئے کہ انہوں نے لاکھوں ہندوستانیوں کو عیسائی بنایا تھا۔ ایسے ماحول میں اگر حضرت مولانا الیاسؒ مسلمانوں کو مسلمان بنانے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں میں بھی اسلام کی تبلیغ کرتے تو نہ جانے کتنے ہندو مسلمان ہوچکے ہوتے۔ لیکن حضرت مولانا نے ہمیشہ اس لئے پرہیز کیا کہ کوئی کام کی مخالفت کرے۔ پانچ سال کے بعد اس کام کو 100 برس ہوجائیں گے۔ اس 85 برس کی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کروڑوں مسلمان نمازی ہوگئے کروڑوں مسلمان زکوٰۃ دینے لگے اور کروڑوں حاجی ہوگئے۔
ہمارے بچپن میں کوئی حج کرکے آتا تھا تو وہ عمر بھر حاجی کہلاتا تھا اور عمرہ کا تو ہم نے بس اس حد تک نام سنا تھا کہ جو حاجی حج کرنے جاتے ہیں وہ وہاں قیام کے زمانے میں عمرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ صرف عمرہ کے لئے جانا شاید 50 سال کی عمر تک ہم نے سنا بھی نہیں تھا جبکہ ہمارا گھرانہ دینداروں اور عالموں کا گھرانہ تھا۔ اس وقت میرا بڑا بیٹا مدینہ منورہ میں ہے وہ اپنے کاروبار کے سلسلہ میں مہینے دو مہینے میں جدہ جاتا رہتا ہے۔ وہ جب بھی جدہ جاتا ہے واپسی مکہ معظمہ ہوکر ہوتی ہے جہاں وہ عمرہ ضرور کرلیتا ہے اس میں صرف 80 کلومیٹر کا سفر بڑھ جاتا ہے جو ایک کھیل ہے۔
میری ایک بیٹی بھی 25 سال سے جدہ میں ہے۔ وہ ہر مہینے میں دوبار ضرور عمرہ کر آتی ہے۔ ہندوستان میں حج کی اہمیت اور عمرہ کی فضیلت تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہر ایک نمازی کو معلوم ہوگئی اور ہر دین سے تعلق رکھنے والے گھر میں فضائل نماز، فضائل حج، فضائل رمضان پڑھنے سے حالت یہ ہوگئی ہے کہ روزہ نہ رکھنے والے بہت کم ہوگئے ہیں اور مسجدیں نمازیوں سے بھرگئی ہیں۔
ملک کے آزاد ہونے کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوا لیکن تبلیغ کا کام کرنے والی تبلیغی جماعت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ابتدا میں ہندو افسروں کو اُن کے گشت کرنے، ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے اور جگہ جگہ جلسے کرنے سے وحشت ہوئی۔ لیکن پھر جب اسے باریکی سے دیکھا تو سب نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو کلمہ نماز کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ 1975 ء میں مسز اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی تو ہر غیرکانگریسی جماعت کو غیرقانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگادی۔ انتہا یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو بالکل غیرسیاسی جماعت ہے اس پر بھی پابندی لگادی اور اس کے ذمہ داروں کو جیل میں ڈال دیا لیکن تبلیغی جماعت کو کسی نے نہیں چھیڑا۔ حضرت مولانا الیاسؒ صاحب کے بعد حضرت مولانا یوسف صاحب جماعت کے امیر ہوئے اُن کے بعد حضرت مولانا انعام الحسن صاحبؒ امیر ہوئے اور جماعت کا کام اتنا بڑھا کہ سب سے پہلے جو عالمی اجتماع بھوپال میں ہوا تھا شاید 1955 ء میں۔ اس میں پچاس ہزار سے زیادہ آدمی آئے تھے تو پورے ملک میں شور مچ گیا تھا۔ اس کے بعد کہیں اجتماع میں ایک لاکھ کہیں دو لاکھ اور کہیں تین لاکھ مسلمان آئے تو جیسے مقابلہ شروع ہوگیا اور اب جہاں کہیں عالمی اجتماع ہوتا ہے تو تیس لاکھ اور چالیس لاکھ مسلمانوں کا جس میں ہزاروں غیرملکی ہوتے ہیں شریک ہونا عام بات ہے۔
لیکن جماعت اپنے اس اصول سے نہیں ہٹی ہے کہ صرف مسلمانوں کو سچا مسلمان بنانا ہے۔ لکھنؤ میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں ایک عالم دین ہر اتوار کو قرآن کا درس دیتے تھے۔ وہ اتنا مقبول ہوا کہ بارہ بنکی، رائے بریلی، سنڈیلہ، ملیح آباد اور سیتا پور تک سے درس میں شریک ہونے کے لئے لوگ کاروں سے آنے لگے۔ پھر باہر سے آنے والے کچھ اپنے غیرمسلم دوستوں کو بھی لانے لگے اور کئی ہفتے کے بعد معلوم ہوا کہ دو چار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا لیکن جب یہ خبر جماعت کے مرکز دہلی پہونچی تو جو عالم درس قرآن دے رہے تھے انہیں دہلی طلب کیا گیا اور ہدایت کی کہ قرآن کریم کے صرف ان حصوں کی تفسیر بیان کی جائے جن کا تعلق عبادت سے ہو۔ دین پر عمل کرنے کے اجر سے ہو اور نہ کرنے پر وعید سے ہو۔ ان حصوں کی تفسیر نہ بیان کی جائے جن کا تعلق دعوت سے ہو۔ مقصد صرف یہ تھا کسی ہندو کو مسلمان بنانے کی کوشش نہ ہو۔ یہ بات آسانی سے حلق سے اترنے والی نہیں تھی۔ لیکن ملک جن ہاتھوں میں ہے ان کی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے یہی وہ عمل ہے جس کی بنا پر تبلیغی جماعت کے لوگ دنیا میں جارہے ہیں اور سب کو پاسپورٹ ملتا ہے اور ہر ملک ویزا بھی دیتا ہے۔ اور ملک میں 40-40 لاکھ کا تین روزہ اجتماع ہورہا ہے لیکن حکومت نے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ جو عالم درس دیتے تھے وہ غیرمسلموں کے اسلام لانے کو اپنا کارنامہ سمجھ رہے تھے وہ اس پر تیار نہیں ہوئے کہ درس کو محدود کرائیں۔ مجبوراً ان سے کہہ دیا گیا کہ مرکز کی مسجد میں آپ درس بند کردیجئے۔ مولانا نے اس کے بعد شہر کی ایک بڑی مسجد میں درس شروع کیا۔ لیکن وہ بند ہی ہوگیا۔
اور یہ تو شاید ہر جگہ کے مسلمانوں نے دیکھا ہوگا کہ اگر کہیں جماعت آئی ہے اور وہاں کوئی بڑے عالم ہیں انہوں نے علم اور دانش سے بھری ہوئی تقریر کی تو سب نے بیحد تعریف کی۔ اس کے بعد جماعت کے امیر صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا نے بہت اہم تقریر فرمائی۔ ہم سب کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن جماعت کا پیغام صرف چھ باتوں کا ہے اور تبلیغی نصاب جو بزرگوں نے بنادیا ہے۔ ہم اس کے پابند ہیں۔ پھر انہوں نے وہ کہا جو کہنے کے لئے آئے تھے۔
ایک سال پہلے جو حکومت بنی ہے وہ بالکل مختلف ہے وہ ہندو کو مسلمان بنانے کی بات تو سن بھی نہیں سکتی، اسے یہ بھی برداشت نہیں کہ مسلمان واقعی مسلمان بنے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے جواہر لال نہرو کی قائم کی ہوئی اس روایت کو توڑا کہ رمضان میں کسی دن مسلم ملکوں کے مسلمان سفیروں کو افطار پر بلائے اور اپنے مسلمان وزیروں اور سفیروں سے ملائے اور آپس کے تعلق کی بات بھی کرے۔ یہ ایسی حکومت ہے جس نے عید کی اپنے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں کو مبارکباد بھی نہیں دی۔ اس کے نزدیک مسلمان کو ایسا مسلمان نہیں ہونا چاہئے جیسے مولانا بدرالدین اجمل یا مولانا اسرار الحق قاسمی ہیں بلکہ ایسا مسلمان ہونا چاہئے جیسے شاہنواز حسین ہیں، مختار عباس نقوی ہیں، ایم جے اکبر ہیں یا ظفر سریش والا ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ گیارہ مہینے کے اندر اندر تبلیغی جماعت کے افراد پر کئی بار حملہ ہوچکا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس جگہ ہوا ہے اور ہوگا۔ جہاں شیوسینا کا دفتر ہے اور آر ایس ایس کی شاکھا لگتی ہے۔ موہن بھاگوت یا نریندر مودی ہرگز اُسے برداشت نہیں کریں گے کہ مسجدیں بھری رہیں۔ عیدگاہیں تنگ پڑجائیں۔ رمضان آئے تو درودیوار سے قرآن کی آواز آنے لگے اور صاحب حیثیت مسلمان اتنی زکوٰۃ دیں کہ غریب سے غریب مسلمان بھی عید کے دن شاہزادہ معلوم ہو اور ان کی خواہش یہ بھی ہے کہ مسلمان مکہ اور مدینہ سے زیادہ خواجہ غریب نواز کے اجمیر کو اجمیر شریف سمجھنے اور کہنے لگے۔ اس مزار کے لئے وہ ایسی چادر بھی بھیجنے پر تیار ہیں جس پر لکھا ہے ’’لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ اس چادر پر نریندر مودی کا نام بھی لکھا ہے اور یہ چادر مزار کے اندر رکھنے کے لئے نہیں بھیجی ہے بلکہ اوپر ڈالنے کے لئے بھیجی ہے۔ یہ تاریخی چادر معلوم نہیں کس مجاور کے پاس ہے اور وہ اس کا کیا کریں گے؟ حالانکہ یہ ایسی چادر ہے جسے کروڑوں روپئے میں کوئی بھی مخالف خرید سکتا ہے جو ملک بھر میں اس کی زیارت کرائے گا اور اس کے فوٹو بانٹ کر کہے گا کہ نریندر مودی نے کلمہ پڑھ لیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اس لئے ہندو انہیں ووٹ نہ دیں۔
تبلیغی جماعت میں اب کوئی اتنا بڑا نہیں رہ گیا ہے جو کوئی بات کہہ دے اور سب اسے مان لیں۔ لیکن یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اب جماعت کو کسی ایسی جگہ نہیں بھیجنا چاہئے جہاں شرپسند عناصر حاوی ہوں۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے وہ باوردی ہندو جماعت ہے۔ تبلیغ والے چاہے کتنے ہی معصوم ہوں اور کتنے ہی مظلوم ہوں پولیس شرپسندوں کا ہی ساتھ دے گی اس لئے کہ کوئی ان سے بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کیا ہو؟ لیکن اپنے کو شر سے بچایا جائے اور اس کے لئے مشورہ سے جو بھی فیصلہ ہو، اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ ہر بلا سے محفوظ رکھے۔

«
»

خبر ہونے تک …..

آر.ایس.ایس. کی ذہنیت اورمسلم خواتین مجاہد آزادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے