تبدیلی مذہب پر روک لگانا جائز یا ناجائز

جس طرح بچھو کی عادت ڈنک مارنا ہے اسی طرح پانچ مہینوں بعد بی جے پی نے اپنے خفیہ اجنڈے پر کام کر نا شروع کر دیا . انہوں نے نہایت ہی حکمت سے کام لیتے ہوے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا کہ انکا خفیہ اجنڈا بھی پورا ہو جائے اور الزام بھی نہ آئے . آر یس یس نے اپنے 180 اداروں کو الگ الگ کام سونپ دیے . وزیر اعظم اور دیگر وزراء ڈیولپمنٹ اور گورننس کی بات کر نا اور دیگر متنازعہ مسلوں پر خاموش رہنا ، دوسرے ادارے اور پارٹی لیڈرالگ الگ شوشے ایک کے بعد ایک کچھ کچھ وقفے کے بعد عوام کے سامنے چھوڑ نا ( آرٹیکل 370 ، یونیفارم سیول کوڈ ، بابری مسجد ، لو جہاد ، تبدیلیء مذہب وغیرہ ) اور دیکھنا کہ عوام کا ردعمل کیا ہو تا ہے . اس رد عمل کی بنیاد پر وہ اپنے خفیہ اجنڈے کو آگے لے جا تے ہیں . اگر عوام نے کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ شوشہ یا مسلہ اس شخص یا ادارے کی ذاتی رائے ہے جس سے حکومت اور پارٹی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے . اگر عوام احتجاچ نہ کرے تو اس پر عمل شروع ہو جائے گا . آر یس یس کو ڈر ہے کہ لوگ اسلام اور عیسائیت کو قبول کر نے لگے ہیں . اس پر روک لگا نے کے لئے انہوں نے Anti convertion law لانے کی کوشش کی مگر خود انہیں کے مذہب والے ان کے مخالف ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ دستور ہند کے خلاف ہے . اس کے بعد انہوں نے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی جس کے چلتے خود مسلمان اور عیسائی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ہاں اس Anti convertion law کو لاگو کر دینا چاہیے . وہ اس طرح کہ انہوں نے مسلمانوں کو اور عیسائیوں کو تبدیلیء مذہب کی طرف راغب کر نا شروع کر دیا . ہو سکتا ہے کہ کچھ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے بھیس میں لا کر ناٹک بھی کیا ہو . وہ سوال کر تے ہیں "کہ جب دوسرے لوگ اسلام اور عیسائیت قبول کر لیتے ہیں تو مسلما ن ور عیسائی خوش ہو جا تے ہیں اور جب کوئی مسلما ن اور عیسائی دوسرا مذہب قبول کر تے ہیں تو یہ غمگین ہو جا تے ہیں . ایسا کیوں ؟ ملک کے دستور کے مطابق ہر کسی کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کر نے کا حق ہے تو پھر یہ واویلا کیوں ؟ کوئی جننت اور برابری کا لالچ بتا رہا ہے تو کوئی مال و دولت کا . بھاگوات کہتے ہیں کہ اگر مسامانوں اور عیسائیوں کو اتنا ہی ڈر ہے تو l ٓAnti conversion bil کی مخالفت مت کیجئے ". آر یس یس کے زہریلے اور غیر ضروری بیانات پر مسٹر مودی کی خاموشی جو ماحول پیدا کر رہی ہے وہ ویسا ہی ہے جو مسٹر من موہن سنگھ کے دور میں تھا . دراصل یہ تبدیلیء مذہب کا مسلہ روزی روٹی اور سماج میں برابری اور عزت سے جڑا ہے . بھوکا پیٹ اور ننگا بدن اکثر یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے ۔ بس اسے کھانا ، کپڑا ، مکان ، ملازمت اور سماج میں برابری چاہیے . اگر مسلمان اور عیسائی چاہتے ہیں کہ انکے لوگ مذہب چھوڑ کر نہ جائیں تو ان کے لئے وہ سب کر نا ہو گا جو انکی ضرورت ہے . خالی خولی جذباتی باتوں سے کچھ نہیں ہو گا . ذکوات کے نظام کو قابل عمل اور اچھا کر نا ہو گا ، فضول خرچی کو بند کر نا ہو گا جو شادی بیاہ اور دیگر دکھاوے کے کاموں پر ہو رہی ہے ، بار بار حج اور بار بار عمرے پر خرچ ہو نے والی رقم کو غریب رشتہ داروں پر خرچ کر نا ہو گا ۰ (ہر سال تیس لاکھ لوگ حج کر تے ہیں جنمیں کچھ بار بار حج کر نے والے ہو تے ہیں اور ستر لاکھ عمرے پر جا تے ہیں . صرف عمرے پر چار سو پچاس لاکھ کڑوڑ روپیے خرچ ہو تے ہیں ) ، نوجوانوں کو تعلیم دیں یا ہنر مند بنائیں اور روزگار مہیا کریں ، کچھ برسوں کے لئے سادی مسجدیں بنائیں ، آبادی کو مذہبی طریقے سے کم کریں ( آجکل پڑھے لکھے اور مالداروں کے ہاں ایک یا دو اولاد ہو رہے ہیں جبکہ اکثر غریبوں کے ہاں پانچ سے آٹھ بچے پیدا ہو رہے ہیں جنکی وہ تعلیم و تربیت نہیں کر سکتے اور جو آگے چل کر ملک و ملت کے لئے نقصان دہ بن جا تے ہیں ) اور عوام میں دینی اور دنیاوی شعور پیدا کر نا ہو گا . کچھ برسوں پہلے میناکشی پورم میں جب پورے کا پورا گاوں مسلمان ہو گیا تو کچھ دور اندیشی سے عاری مسلم جماعتوں نے خوب جلسے کئے اور خوشیان منائے اور اس طرح غیر مسلموں کے غصہ کو ہوا دیتے رہے . نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک پروپگنڈہ نہیں ہوا کام چلتا رہا مگر جیسے ہی پروپگنڈہ شروع ہوا کام پر روک لگنے لگی . مسلکی دوریاں بھی غیر مسلموں کے اسلام قبول کر نے میں رکاوٹ بن رہے ہیں . اسلئے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کے اندر حالات کو ٹھیک کر نا ہے ، اتحاد پیدا کر نا ہے اور فلاحی کام کر نا ہے اور بعد میں بیرونی مسائل پر توجہ دینا ہے . ملک بھر میں عیسائیوں اور غیر مسلموں کے بے شمار فلاحی ادارے ، یتیم خانے ، معزور بچوں کے گھر ، بیواوں کے گھر اور عمر رسیدہ لوگوں کے گھر موجود ہیں مگر ہمارے کتنے ہیں . شہر بنگلور میں غیر مسلموں کا ایک ادارہ Association for physically disabled ہے جہان 177 مکینوں میں 70 مسلمان ہیں . وہیں سومن ہلی میں عیسائیوں کا Leprosy centre ہے مگر مسلمانوں کا کیا ہے ؟ ہماری پوری دولت دکھاوے کے کاموں پر خرچ ہو رہی ہے . سوائے الامین اور علی گڑھ کے ہمارے نہ اچھے تعلیمی ادارے ہیں ، نہ ہسپتال ہیں اور نہ ہی دیگر فلاحی ادارے . ہمیں فخر ہے ہماری شاندار شادیوں پر ، بار بار کے حج اور عمرے پر ، عالیشان عمارتوں پر اور دکھاوے کے کاموں پر . امریکہ میں اس بات کو اچھال کر کہ وہاں کے زیادہ سے زیادہ کالے مسلمان ہو رہے ہیں ہم خود اس کام میں رکاوٹیں کھڑ وا رہے ہیں اور دوسروں کو غصہ دلا رہے ہیں . در اصل ہم لوگ کر تے کم ہیں مگر کہتے زیادہ ہیں . ہمارے مذہبی حضرات ایسے حکایات اور کہانیاں زیادہ سنا تے ہیں جنہیں یوروپ اور امریکہ کی عوام نہیں مانتے بلکہ انکا مزاق اڑاتے ہیں . ہماری جماعتیں رسمی عبادتوں پر زیادہ زور دیتی ہیں جبکہ برائیاں ختم ہو نے کا نام بھی نہیں لے رہی ہیں . غنڈے اور جھوٹے بھی آج مذہبی حلیہ کی اہمیت کو سمجھے بغیر اسے اپنا رہے ہیں اور اسلام کو بد نام کر رہے ہیں جس سے لفظ مولانا کی اہمیت گھٹتی جا رہی ہے . کچھ مسلم مبلغ لاکھوں کے مجمع میں ایک دو کو مسلمان بنا کر ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں اورغیر مسلموں کو غصہ دلا رہے ہیں . اب سوچنا یہ ہے کہ کیا غیر مسلموں کا غصہ جائز ہے کہ نہیں ، ہماری حکمت عملی اچھی ہے کہ نہیں اور ہماری شیخیاں اور بڑائیاں فائدے مند ہیں کہ نہیں

«
»

عرب دنیا پریشانیوں میں گرفتار کیوں؟

لہوکے عطرمیں بسے بچوں کاسفرِ شہادت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے