اور راجیشور سنگھ اور پروین توگڑیا بالترتیب 2021تک ہندوستان سے اسلام اور عیسائیت کے خاتمے کا اعلان کرتے اور اسلام اور عیسائیت کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں تو مسلمان اورعلمائے کرام اورمسلم لیڈران بجائے ایمان کی حفاظت اور سلامتئ مذہب کی تدابیر پر غور کرنے کے ، آر ایس ایس اور ہندو تنظیموں کے خلاف رد عمل میں وہی گھسی پٹی باتیں کرنے لگتے ہیں جو وہ عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔ کہ ’ہم آر ایس ایس کی حرکتیں برداشت نہیں کریں گے‘۔۔۔ آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جو یہ چاہتی ہی ہے کہ مسلمانوں میں ردّ عمل ہو اور اس ردّعمل کی بنیاد پر وہ اپنی اور اپنی سیاسی جماعت بی جے پی کی دکان چمکائے ، ہندوؤں کومسلمانوں سے متنفر کرے او رملک کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی سمت ایک قدم اور بڑھادے۔
ردّ عمل اور وہ بھی جذباتی ردّ عمل سے مسلمانوں کا کوئی بھلا ہونے وا لا نہیں ہے۔ شدھی کی تحریک عرصہ سے جاری ہے۔ شدھی کی تحریک ہی کا دوسرا نام ’گھرواپسی‘ کی تحریک ہے۔ آگرہ ، علی گڑھ، ہاتھرس، متھرا، برہانپور، ہریانہ اور مہاراشٹر میں ست پڑا کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں پھیلے گاوؤں میں یہ تحریک زوروں پر ہے۔ حضرت مولانا الیاسؒ نے اس تحریک کے جواب میں ’تبلیغی تحریک‘ شروع کی تھی۔ مسلمانو ں کو کلمہ، روزہ ، نماز اور دین ومذہب کے بنیادی احکامات سے واقف کرانے کا کام بڑے ہی خلوص سے شروع کیاتھا اور یہ سچ بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ’تبلیغی تحریک‘ نے بڑی تعداد میں ایسے مسلمانوں کو دوبارہ مذہبِ اسلام کے درست احکامات پر چلنے کی توفیق عطا کی، انہیں کلمے، نماز اور دین کے بنیادی ارکان سے واقفیت دلائی، جو ارتداد کی کگار پر پہنچ گئے تھے۔۔۔ آج یہی ضرورت ہے کہ ’دعوت دین‘ کے کام کو ایک ’تحریک ‘ کی شکل دی جائے۔ علمائے کرام کیوں وعظ اور تقریریں کرنے کے لیے شہر ممبئی اور دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں؟ کیوں نہیں وہ اپنا بوریہ بستر سمیٹ کر آگرہ، متھرا، ہاتھرس، علی گڑھ، ہریانہ، پانی پت، برہانپور اورمہاراشٹر کے پہاڑی علاقوں میں پھیل جاتے اور لوگوں کو دین کی دعوت دیتے، ’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کی حقیقت سے آگاہ کرتے اور ان کی اصلاح کرتے؟
یہ ایک واضح سچائی ہے کہ ’تبدیلئ مذہب ‘ کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد ’رائی ‘ بھر ہوتی ہے۔۔۔ مسلمان چاہے ہندوستان کے ہوں، امریکہ یا یوروپ کے یا کہ افریقہ کے وہ اپنے مذہب پر ہی قائم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں اخلاقی برائیاں اِن میں ہوسکتی ہیں لیکن یہ دین سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ دوسرے مذاہب کے لوگ ضرور اسلام کے دامن میں بڑی تعداد میں پناہ لیتے ہیں۔ لہذا ’تبدیلئ مذہب‘ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو دین کے راستے سے دور ہوتے جارہے ہیں دوبارہ دین کے راستے پر لانے کی کوشش نہیں کرتا، اصلاحِ معاشرہ کی فکر نہیں کرتا، اچھائیوں کی طرف بلانے اور برائیوں سے روکنے سے اس نے اپنا منہ موڑ رکھا ہے۔
اگر واقعی مسلمان، چاہے وہ عالم دین ہوں، دانشور ہوں یا سیاست داں، غریب مسلمانوں میں ’ارتداد ‘ کے واقعات سے تشویش میں مبتلا ہیں۔۔۔ حالانکہ یہ ارتداد اپنے اصل معنوں میں ارتداد نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کی اسلام کے ارکان سے عدم واقفیت ہے جو بھولے بھالے مسلمانو ں کو سنگھی لیڈروں کے لیے تر نوالہ بنارہی ہے۔۔۔ تو انہیں چاہیے کہ وہ ون پوائنٹ پروگرام بنالیں۔۔۔ یہ پروگرام کہ ’ہم ان مسلمانوں‘ کو جو راہ سے بھٹک کر ’گھرواپسی ‘ جیسے بے بنیاد نعرے کا شکار ہورہے ہیں اسلام کی بنیادی باتوں سے واقف کرائیں گے، انہیں دعوتِ دین دیں گے، ان کے معاشرے کی اصلاح کریں گے۔۔۔ مسلم تنظیمیں بھی الیکشن یا فسادات وغیرہ کے موقع پر بیان بازیوں کو تج کر یہ عزم کرلیں کہ وہ عام مسلمانوں میں اسی طرح محنت کریں گے جیسے کہ ’تبلیغی جماعت‘ یا ایسی ہی چند اورجماعتیں کرتی ہیں ۔۔۔ پھردیکھئے گا کہ پھر یہ سنگھی اور یرقانی تنظیمیں سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑی ہوں گی۔
جواب دیں