اللہ سے ملاقات کا شوق جب بھی خواہشوں کی فہرست نے نکال دیا جاتا ہے پھر قوم وملت سمندر کے جھاگ کی طرح تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود مال و زر کے انبار میں دبے رہنے کے باوجود بے قیمت ہو جاتی ہے ۔اقوام عالم بھوکوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور کسی ذی روح کو ان سے دلچسپی نہیں رہتی کوئی انکے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والا نہیں رہتا۔
مایوسی کی ضروت نہ کل تھی نہ آج ہے ، مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا بلکہ اپنے حالات اور اعمال کا جائزہ لیتا ہے ، عوامل اور علتوں پر غور کرتا ہے اسباب کو ٹٹولتا ہے ۔ خلافت عمر ابن خطاب کا زمانہ تھا قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے طویل وقت گزر رہا تھا، صحابہ کی ایک بڑی جماعت متفکر تھی اور اباب وعلل پر غور کرتے ہوئے خلیفہ وقت کو صورت حال سے آگاہ کیا گیا ، دانش اور دوررسی کے پیکر خلیفہ وقت نے جن کی بصیرت زمانہ نبوت میں تسلیم کی جاچکی تھی ، کوئی تازہ کمک نہیں بھیجی نہ جنگی چالیں لکھ بھیجیں بلکہ حکم ہوا کہ اپنی روز مرہ کے اعمال کا جائزہ لیا جائے کہیں جنگی مصروفیات میں نبی کریم ٰﷺکی کوئی سنت تو نہیں چھوٹ رہی ہے ، یہ صرف ایک مثال نہیں ایک پیمانہ ہے مسلمان کی زندگی کا ۔
اب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے چلیں کہ کل اور آج میں کیا فرق ہے ، ہم نے کیا چھوڑا کیا اختیار کیا کہ آج امت کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے۔اس کا جواب شعری آہنگ میں دیا جائے تو یہی ہو سکتا ہے کہ وہ زمانے معزز تھی مسلماں ہوکر اور تم خوارہوئے تارکِ قرآں ہوکر۔شریعت مطہرہ نے حکم دیا کہ نکاح آسان اورزنا مشکل کرو، اور ہمارے اردگرد نکاح مشکل زنا آسان ہوگیا ۔ ہمیں سادہ زندگی کی تعلیم دی گئی اور ہم نے اپنی دعوتوں اور شادی بیاہ کو عزت و جاہ کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔دولت وعورت کو پردہ میں رکھنے کا مشورہ دیا گیا اور ہم نے دولت کا اظہار کرنے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوئی صورت نہیں چھوڑی،عورت آزادی نسواں کے نام پر اسقدر آزاد کردی گئی کہ الحفیظ والاماں ،یہاں تفصیل کی ضرورت نہیں ہم اپنے احوال سے بخوبی واقف ہیں۔پڑوسی کے گھر میں کوئی بھوکا نہ سونے پائے یہ تعلیم دی تھی بنی روف و رحیم ﷺنے مگر ہم نے کھانا کھلانے کے لئے عیاش دولتمندوں اورمنصبوں پر بیٹھے ہوئے گمراہ لوگوں کی دعوتیں کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ ہم دعوتیں اپنے کام نکلوانے کیلئے کرنے لگے۔نیک اور صلحا لوگ جنہیں اللہ نے عقل و بصیرت نے نوازا صلح کل بن کر اپنے سجود و رکوع میں ایسے مصروف ہو گئے کہ انہیں قوم کی فکر نہ رہی حالانکہ حدیثوں میں یہ مضمون صاف ملتا ہے کہ جو امت کے معاملات سے دلچسپی نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں ۔خرد نے کہہ بھی دیا لاالٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا ہم اس وقت بھی تباہ بربادہ ہو سکتے ہیں جب ہم میں صلحا اور متقی لوگ موجود ہوںِ قربان جائیں خاتم الانبیاﷺ پر ،ارشاد ہوا ہاں جب خباثت غالب آجائے ۔ خباثت کے غلبہ کو ختم کرنے کی محنتوں کواپنی زندگی کا حصہ بنا نا ہوگاعبادتوں پر اکتفا فرض اعمال کا شوق اور معاشرے کے سدھار کی فکر نہ کرنا مسؤلیت سے نہیں بچا سکتا ۔اب بھی وقت ہے کہ ہم جنگی پیمانے پر اپنی اور اپنے معاشرے کی فکر کریں رسوم و عادات کو تبدیل کرنے لئے اُٹھیں نام و نمود کیلئے بیس سے تیس ڈشوں پر مشتمل دعوتیں کرکے غریبوں کا حق مارنا چھوڑیں،گھروں میں بیٹھی ان بیاہی بیٹیوں کو زنا سے ،غیر مسلموں کی طرف راغب ہونے سے بچائیں ۔ کاروبار کے نام پر سود ی معاشرے سے اجتناب کریں کریڈٹ کارڈ کلچر کو اپنی تہذیب کا حصہ نہ بننے دیں۔ بہو بیٹیاں پردے کا اہتمام کریں،مسلکی اختلافات سے ہٹ کر سوچیں ۔دشمنوں کی چالوں کو سمجھیں ۔خدارا ! اب ابھی عقل نہ آئی تو پھر موقع نہ مل سکے گا۔نہ مانو گے تو۔۔۔۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
جواب دیں