شام میں برستی موت

یہ لوگ اگر کسی جمہوری ملک میں رہ رہے ہوتے تو ہر 4-5سال بعد انہیں اپنے حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کا آئینی اور قانونی موقع مل جاتا لیکن عربوں کے نصیب میں شائد یہ حق نہیں ہے۔ مصریوں کو ملا تھا تو ان کی کیا حالت ہورہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے عراقیوں کو ملا ہے لیکن مسلکی تشدد نے جکڑ رکھا ہے۔ جہاں ایک طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ حالانکہ اگر لیڈر شپ نے وسیع القلبی دکھائی ہوتی تو شائد یہ نوبت نہ آتی لیکن عراقی لیڈر شپ نے ملک کی تعمیر نو اور جمہوریت کے استحکام سے زیادہ بدلہ لینے میں دلچسپی دکھائی۔ سعودی عرب سمیت دیگر ملکوں میں تو شہری اور انسانی حقوق کا نام لینا بھی جرم ہے ۔ شام میں حافظ الاسد ساری زندگی برسراقتدار رہے اور مرنے سے قبل اقتدار اپنے بیٹے بشار الاسد کو سونپ گئے جو شہنشاہوں کا شیوہ ہے۔ بشارالاسد لندن سے ڈاکٹر کی تعلیم حاصل کرچکے ہیں امید تھی کہ وہ شام میں نئی سیاسی تبدیلیاں لائیں گے جمہوریت بحال کریں گے عوام کو شہری اور انسانی حقوق دیں گے اور اپنے ملک کو ایک جدید خوشحال اور جمہوری ملک بنائیں گے لیکن وہ اپنے مرحوم والد سمیت خطہ کے دوسرے ڈکٹیٹروں کے نقش وقدم پر ہی چلے اور اپنے ہی شہریوں پر وہ تمام مظالم کئے جو ان کے والد مرحوم کرچکے تھے۔ ایک تو زمانہ کی بدلتی ہوئی ہوا دوسرے بہار عرب کے ذریعہ عوامی انقلاب ۔ شامی عوام نے مظالم کے آگے جھکنے سے انکار کردیا اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچ گئی جس میں ایک اندازے کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 
اقوامِ متحدہ کے حکام نے کہا ہے کہ شام میں موجودمعائنہ کاروں کو دمشق کے نواح میں اس مقام تک رسائی دلوانے کے لئے سفارتی کوششیں جاری ہیں جہاں پر شامی حزبِ اختلاف کے مطابق بدھ کو ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں1500 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اس سے قبل اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں مبینہ کیمیائی حملے کی فوری اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ وہاں کیا ہوا۔اس مسئلے پرنیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جین الیاسن نے کہا ہے یہ واقعہ شام کی صورتحال میں ایک اہم اور سنجیدہ تبدیلی ہے۔سلامتی کونسل کے اجلاس میں واقعے کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے لیے ارجنٹائن کی سفیر ماریا کرسٹینا پرویسال نے بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’کونسل کے ارکان کو ان الزامات پر سخت تشویش ہے، یہ عمومی تاثر یہی ہے کہ اس معاملے کی حقیقت جانی جائے۔‘بی بی سی کے مطابق روس اور چین نے کونسل کے ایک سخت بیان کو روک دیا جس میں شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے معائنہ کاروں سے اس واقعے کی تحقیقات کروانے کو کہا گیا تھا۔دریں اثنا امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت 35 ممالک نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں شام میں پہلے سے موجود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں سے ہی اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس واقعے میں دو باتیں بہت حیران کن ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کا وقت بہت عجیب، بلکہ مشکوک ہے۔ آخر اسد کی حکومت، جو حالیہ دنوں میں باغیوں سے کئی علاقے خالی کروا چکی ہے اور جسے برتری حاصل ہے، ایک ایسے موقعے پر کیمیائی حملہ کیوں کرنے لگی جب ملک میں اقوامِ متحدہ کے انسپکٹر موجود ہیں۔ دوسری بات اس واقعے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد ہے، جو ماضی میں کسی بھی کیمیائی حملے سے زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جعلی طور پر مرنے اور زخمی ہونے والوں کو دکھانا بہت مشکل ہے۔ ان کے جسموں پر زخموں کے نشانات نہیں ہیں، بلکہ ان کی علامات نرو ایجنٹ کے حملے سے ملتی جلتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹر اتوار کو شام پہنچے ہیں اور وہ وہاں اس سے پہلے ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں سے متعلق الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اجازت دی جاتی ہے تو وہ تازہ حملے کی تحقیقات کے لیے بھی تیار ہیں۔برطانوی وزیرِخارجہ ولیم ہیگ نے شامی حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر معائنہ کاروں کو اس علاقے تک رسائی دی جائے تاکہ معاملے کی تحقیقات کی جا سکے۔ عرب لیگ نے بھی کہا ہے کہ معائنہ کاروں کو ان مقامات پر جانے کی اجازت دی جائے۔امریکہ نے کہا ہے کہ وہ کیمیائی حملے کی خبروں سے انتہائی فکر مند ہے لیکن شام کے حامی مانے جانے والے روس کا کہنا ہے کہ ایسے ثبوت ہیں کہ یہ حملہ حزب اختلاف نے کیا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر براک اوباما پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اس بحران کے بارے میں امریکی پالیسی کو پوری طرح تبدیل کر سکتا ہے۔اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس حملے میں بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے ہیں تو اوباما پر شام کے خلاف کارروائی کرنے کا دباؤ بڑھے گا۔اس سے قبل شامی حزبِ اختلاف نے کہا تھا کہ مہلک کیمیائی ہتھیاروں سے لیس راکٹوں سے دمشق کے مضافاتی علاقے غوتہ پر بدھ کی صبح باغیوں پر حملے کیے گئے۔حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ رضاکاروں کے نیٹ ورک نے بھی سینکڑوں ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے تاہم ان دعوؤں کی تصدیق آزادانہ طور پر نہیں کی جا سکی۔شامی حکومت اور باغی دونوں اس تنازعے کے دوران ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، تاہم ابھی تک ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔شام کے بارے عام خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس اب تک بڑی تعداد میں غیر اعلانیہ مقدار میں کیمیائی ہتھیار ہیں جن میں سارین گیس اور اعصاب کو شل کرنے والے اجزاء شامل ہیں۔
حکومت شام کا دعوی ہے کہ کیمیائی حملے کی خبر غلط ہے اور اس کا مقصد اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو متاثر کرنا ہے لیکن حقیقت کا انکشاف تو جانچ پڑتال کے بعد ہی ہوسکتا ہے لہذا حکومت شام کو ان معائنہ کاروں سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔ صورت حال یہ ہے کہ عرب لیگ اقوام متحدہ اور دیگر پلیٹ فارم اس خانہ جنگی کو ختم کرانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ امریکہ سابقہ تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے براہ راست مداخلت سے اجتناب کررہا ہے بشر الاسد کو ایران، عراق، روس اور چین کی ٹھوس حمایت اور مدد کا اعتماد ہے اس لئے وہ مصالحت کی ہر کوشش پر پانی پھیر دیتے ہیں باغیوں کو سعودی عرب سے مالی امداد تو مل رہی ہے مگر ایک منظم فوج کا مقابلہ کرنے ان کے بس میں نہیں دکھاتا۔ اقوام متحدہ کے ذریعہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک مداخلت کرسکتے ہیں جس سے مزید خون خرابہ ہوگا۔ حالات تشویشناک افسوسناک اور شرمناک ہیں لیکن بظاہر ان کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے