شام میں کیمیائی ہتھیاروں پرسمجھوتا

شمالی کوریا کے بعد شام میں امریکا کے بڑھتے ہوئے قدموں کا رک جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر عالمی اور علاقائی طاقتیں بالخصوص روس اور چین چاہیں تو امریکا کی راہ میں کامیابی کے ساتھ اسپیڈ بریکر کھڑے کرسکتی ہیں۔ امریکا کا شوق و ذوق بھی عجیب ہے۔ کہیں فلسطین، الجزائر اور مصر میں جمہوریت چھین کر نئی جمہوریت کا ڈال ڈالتا ہے، تو کہیں عراق، افغانستان اور لیبیا کی طرح آمریتوں کو جمہوریتوں میں بدلنے کے نام پر کھیل کھیلتا ہے۔ کہیں اسے آمریت کھٹکتی ہے، تو کہیں جمہوریت راس نہیں آتی۔ مطلب صاف ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت وہ دونوں اپنی پسند کی چاہتا ہے۔ اسے نظام سے زیادہ اقدار اور مفاد کی ضرورت ہے۔ امریکا کو مصر کی وہ آمریت گوارا ہے جو مغربی اقدار کی محافظ اور ترجمان ہو، جبکہ وہ جمہوریت ہرگز گوارا نہیں جو مغربی اقدار سے دوری اور فاصلے پر ہو۔
تضادات سے لبریز انہی رویوں کے ساتھ امریکا اپنی خونخواری اورسفاکی کے ساتھ مشرق وسطی کے ایک اور ملک شام پرجھپٹنے کو تیار کھڑا تھا۔ وہ شام پر حملے کے لیے بہانوں کی تلاش میں تھا مگر اسے براہِ راست مداخلت کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ناٹو اور یورپی بلاک بھی شام پر حملے کے معاملے پر اختلافات کا شکار تھا۔ چین اور روس بھی اپنے تحفظات رکھتے تھے۔ ایسے میں شام میں ایک ایسے علاقے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا جو بشارالاسد کی فوجوں نے حکومت مخالف عسکریوں سے چھڑا لیا تھا۔ اس حملے کے بعد امریکا کو بہانہ ہاتھ آگیا اور ایک بار پھر عراق کی طرح شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور تلاش کا کھیل شروع ہوگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں بالکل اسی طرح ایک ظالم و سفاک بعثی حکومت قائم ہے جس طرح عراق میں تھی۔ یہاں بھی دوسرے معاشروں اور ملکوں کی طرح مسلک سے زیادہ سیکولرازم، فاشزم کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لیبیا، عراق اور دوسرے عرب ملکوں میں شخصی اور خاندانی حکومتیں قائم ہیں۔ امریکا کو ان حکومتوں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے، ان کے جمہوری یا غیر جمہوری ہونے پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔ امریکا نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ شام میں حافظ الاسد، مصر میں حسنی مبارک، عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی کی حکومتیں اپنے عوام کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ اپنی جیلوں کو بے گناہوں سے آباد رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا مشرق وسطی میں شہری آزادیوں کے سارے فلسفے اور جمہوریت کے سارے نعرے اس بری طرح نظرانداز کرتا رہا جیسے کہ وہ ایسے کسی سبق سے آشنا ہی نہ ہو۔ اس دوران ان عرب بادشاہوں نے اپنے ملکوں میں بیداری کی تحریکوں کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر ظلم روا رکھا۔ جیلیں اور پھانسی گھاٹ سیاسی کارکنوں کے دم قدم سے ہر لمحہ آباد رہے۔ قبرستانوں کی رونقیں کسی طور ماند نہ ہوئیں۔ تعذیب اور تشدد کے ہتھیار کبھی کند نہ ہوسکے، مگر امریکا اس ظلم پر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنارہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سب حکمران امریکا کے مفادات سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کر تے تھے۔ دور کیوں جائیں، مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت اور کارکنوں کے ساتھ جو ہورہا ہے امریکا کی آشیرباد سے سیکولر فاشزم کا ایک مظاہرہ ہی ہے۔
اپنے لیے جینے کا حق مانگنے والے جہاں غالب آتے ہیں اپنے خیالات سے اتفاق نہ رکھنے والوں سے سانس لینے کا حق بھی چھین لینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی درحقیقت فاشزم ہے۔ مشرقِ وسطی میں امریکا کا صرف ایک ہی مفاد تھا عظیم تر اسرائیل کا خواب۔ امریکا کے اس خواب کی تعبیر میں واحد رکاوٹ مشرق وسطی کے وہ ممالک تھے جو فوجی اعتبار سے اس قدر طاقتور ہورہے تھے کہ اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ بن جاتے۔ عراق نے سب سے پہلے تیل کی دولت کو ایٹم بم کی تیاری کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو1981میں اسرائیل اس ایٹمی پلانٹ پر ٹوٹ پڑا اور اسے لمحوں میں تباہ کر ڈالا۔ یہ باقی مسلمان اور عرب ملکوں کے لیے ایک سنگین اشارہ تھا۔ صدام حسین ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اس کے بعد امریکا نے ہر اس عرب ملک کی گردن مروڑنے کی کوشش کی جو اسرائیل کے لیے خطرہ بنتا جارہا تھا۔ صدام حسین کو کویت پر حملے کے لیے امریکی سفیر نے ہی اکسایا، جب صدام نے یہ حماقت کی تو امریکا اس کی گردن مروڑنے کے لیے خود آگیا۔ اس طرح امریکا کو خلیج میں آنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ امریکا نے سعودی عرب میں ڈیرے ڈال دیے، جس کے ردعمل میں اسامہ بن لادن کی تحریک شروع ہوئی۔ اسامہ کی تحریک نے بھی امریکی مقاصد کو ہی آگے بڑھایا، اور اس آڑ میں امریکا نے پاکستان اور افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ لیبیا نے ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی تو کرنل قذافی کو نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ اس وقت امریکا نے مشرق وسطی کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ سعودی حکمرانوں کا حال تو سب پر آشکارا ہے جبکہ عراق، لیبیا، مصر، شام سب بدحال ہیں۔ مشرق وسطی میں اس وقت ایک ہی مضبوط اور مستحکم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی اور فوجی طاقت ہے، وہ ہے اسرائیل۔ یہی امریکا کا خواب اور مشن تھا۔ مشرق وسطی کے حالات کو ایک عظیم تر اسرائیل کی منزل سے چندگام دوری پر لا چھوڑا گیا ہے۔ شام کے بخیے ادھیڑنے کے بعد سعودی عرب اور ایران میں سے اگلی باری کس کی آتی ہے؟ اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ مگر امریکا ان دو ملکوں کو بھی موجودہ حالت میں نہیں رہنے دے گا۔ دونوں ملکوں کی قیادتیں اس خطرے سے غافل ہیں۔ پاکستان دنیا کی چند طاقتور ترین فوجوں میں سے ایک کا حامل ملک ہونے اور مسلم دنیا کی واحد اعلانیہ ایٹمی طاقت ہونے کی بنا پر اپنی باری پرلگ ہی چکا ہے۔ اب اگر پاکستان کی قیادت باری کے اس پھندے سے اپنی گردن زندہ اور صحیح بچاکر نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے قیام پاکستان کی طرح ایک ایک معجزہ ہی سمجھا جائے گا۔ شامی حکمرانوں کی سفاکی اپنی جگہ، مگر امریکا کی مداخلت خطے کے مسائل کے حل کے بجائے انہیں مزید بڑھانے کا باعث بنے گی۔ اس وقت تو لوگ شام پر امریکی حملے پر بغلیں بجا رہے ہیں، لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب سر پر ہاتھ رکھ کر روئیں گے، کیونکہ حالات اس شعر کی تصویر ہیں 
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے