جب بشارالاسد نے پرامن عوامی مظاہروں کو بے دردی سے کچلنے کا آغاز کیا تو خطے کے لوگوں نے کہا کہ ایسے تو اسرائیل بھی مختلف جنگوں میں عربوں پر بربریت نہیں کرتا۔ بشارالاسد اب تک اپنے وطن کے2لاکھ سے زیادہ شامی شہری ہلاک اور 20لاکھ سے زائد کو ہجرت پر مجبور کر چکا ہے۔
بشارالاسد نے شام کے شہروں کو جس طرح ملیامیٹ کیا ہے اس کی مثال پچھلی ایک صدی میں بھی نہیں ملتی۔ خالد بن ولید کے آخری ایام کے شہر حلب میں اب کوئی آبادی موجود نہیں اور یہی حال سارے ملک کا ہے۔ بشارالاسد کی آمرانہ حکومت نے اپنے شہریوں کو ہلاک اور ملک کو کھنڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شام میں برپا عوامی جدوجہد کو Radicalize کرنے میں لیبیا جیسی حکمت عملی اپنائی گئی۔ امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے پرامن تحریک کو ہتھیاروں کی فراہمی سے خانہ جنگی کے تمام اسباب پیدا کر دیئے اور شام، مشرق وسطی میں ایک نیا میدانِ جنگ بن گیا۔ امریکہ نے اس جنگ کو شدت دینے کے لیے جہاں القاعدہ کے حامیوں کو ہتھیار فراہم کیے، وہیں اس خطے میں اپنے اتحادیوں کو جنگ کی تیاری پر اکسانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امریکی اس جنگ کو شام، لبنان، ترکی اور ایران تک پھیلانے کے خواہاں ہیں۔ امریکی بڑی بے چینی سے شام پرجنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں، لیکن روس اور چین نے بحیر روم کے اس اہم ملک پر امریکی حملے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔
برطانوی وزیراعظم بھی اوباما کی جنگی بے چینی کے ساتھی تھے، لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے شام پر حملے کی مخالفت کرکے متوقع امریکی جنگی منصوبے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ امریکیوں نے بشارالاسد حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے دمشق کی مضافاتی آبادی غوطہ (Ghouta)پر کیمیکل ہتھیار استعمال کیے ہیں، اس لیے اب بشارالاسد کو جنگ کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ اس ساری صورتِ حال میں ترکی کا کردار بڑے اندیشوں کا سبب ہے، اس لیے اس صورتِ حال کا تجزیہ ترکی کے حوالے سے کیا جانا بڑا اہم ہے۔
عثمانی ترکی کی پہلی جنگ عظیم میں شمولیت اس ایمپائر کے خاتمے کا سبب بنی، جس میں ترکی کی 25 فیصد آبادی لقمہ اجل بن گئی۔ پہلی جنگ عظیم نے خطے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ آسٹرو ہنگرین ایمپائراور آٹو من ایمپائر (عثمانی ترکیہ) جیسی بڑی ریاستوں کو اس جنگ نے نگل لیا۔ اس لیے انور پاشا کو جو عثمانی ترکیہ کو جنگوں میں داخل کرنے کا بڑا حامی تھا، ترک تاریخ میں ایک متنازع کردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ مصطفی کمال اتاترک اور انور پاشا کے اختلافات کا سبب یہی تھا کہ اتاترک ترکوں کو جنگوں میں داخل کرنے کی مخالفت کرتے تھے اور انہوں نے تمام دفاعی جنگیں لڑیں اور فتح یاب ہوئے۔ آج ترکی جس مقام پر کھڑاہے اس نے پہلی جنگ عظیم کی تاریخ کو دماغوں میں اجاگر کر دیا ہے۔
ترکی میں 2002 میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ مارچ 2003 میں امریکی، عراق پر حملے کے لیے ترکی کی سرزمین کو استعمال کرنے کے خواہاں تھے۔ حکمران پارٹی نے واشنگٹن کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی، لیکن اس کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ سے اجازت درکار تھی۔ جب پارلیمنٹ نے اکثریت کے ساتھ امریکہ کی ترکی کی سرزمین استعمال کرنے کی مخالفت کی تو اس سے یہ پیغام بھی ملا کہ حکمران جماعت کے متعدد اراکین نے حکومت کی خواہش کے خلاف ووٹ ڈالا۔ پچھلے سال ترک حکومت نے پارلیمنٹ سے اکثریت کے ساتھ شام کے خلاف جنگ کا قانونی اجازت نامہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد واشنگٹن اور انقرہ کی شام پر حملے کی بے چینی میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ اجازت نامہ اگلے ماہ اکتوبر میں قانونی مدت پوری کرکے ازخود تحلیل ہو جائے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن اور انقرہ، اقوامِ متحدہ کی اجازت کے بغیر بھی شام پر حملے پر مکمل اتفاق کرتے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ احمد دعوت اولو حکمران جماعت کی خارجہ پالیسی Zero Problems کے بانی ہیں جس کے تحت ان کا نقط نظر ہے کہ ترکی خطے کے تمام ممالک خصوصا روس، ایران، عراق، شام، آرمینیا ، لبنان اور یونان سے خصوصی تعلقات بنائے اور انہوں نے اس سلسلے میں پچھلے پانچ برسوں میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں، اب وہ اپنے تضاد کی انتہا پر ہیں۔ ترک وزیرخارجہ احمد دعوت اولو اور وزیراعظم اردوآن آئے روز شام پر حملے کی شدید خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ 25اگست کو احمد وعوت اولو نے پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا پھر اظہار کیا کہ ہم شام پر حملے کے لیے تیار ہیں۔ وزیراعظم اردوآن جو چند سال پہلے اپنے خاندان اور بشارالاسد کے خاندان کے ساتھ مشترکہ تعطیلات گزارتے تھے، اب بشارالاسد کو سبق سکھانے کے بیانات داغ رہے ہیں۔ ترک حکومت اس لحاظ سے امریکہ کے جنگی منصوبے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس صورتِ حال میں ترکی کی اپوزیشن جماعتیں، شام پر حملے کو خود کشی قرار دے رہی ہیں۔ حکمران جماعت کو اگرچہ پارلیمنٹ میں نمایاں اکثریت حاصل ہے، لیکن شام پر حملے کے سوال پر ترک عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور دوبارہ عوامی مظاہروں کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ حکمران جماعت کی شام پر حملے کی شدید خواہش پر اس کے حامی بھی تقسیم کا شکار نظر آرہے ہیں۔ حتی کہ وزیراعظم طیب اردوآن کے پرانے دوست فتح اللہ گلین جو حکمران جماعت کے ووٹرز میں فیصلہ کن اثر رکھتے ہیں، ترکی کی شام کے معاملے میں مداخلت کو خود کشی قرار دے چکے ہیں۔
ترکی نے 2011 میں اپنی سرزمین پر امریکی پیٹرائٹ میزائل نصب کرنے کی اجازت دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میزائلوں کا نشانہ ایران ہے۔ اس لیے ترکی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر شام پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو اس کا دائر کار لبنان، ترکی اور ایران تک پھیل جائے گا، یوں اس جنگ کو محدود رکھنا خطے کی ریاستوں کے بس میں نہ ہو گا اور ایسے میں سب سے بڑا نقصان ترک ریاست کا ہوگا۔ دجلہ اور فرات کے ماخذ ملک ترکی میں کرد مسئلہ اور دیگر تضادات اس آگ کے پھیلنے کا سبب بنیں گے۔ اپوزیشن جماعت جمہوریت خلق پارٹی نے شام کے مسئلے کا حل صرف سفارتی بنیادوں پر طے کرنے پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں جمہوریت خلق پارٹی کے نائب فاروق لولو نے شام اور مصر کا دورہ کیا ہے۔ فاروق لولونے مصر میں سرکاری حکام کے علاوہ اپوزیشن کے الاخوان رہنماں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ترکی کی قومی سیاست شام کے مسئلے پر روز بہ روز تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے اور اب اردوآن حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ پارلیمنٹ سے امریکہ کے جنگ کے لیے ترک سرزمین کے استعمال کا قانونی اجازت نامہ حاصل کر لے۔
جواب دیں