شام پر جنگ کے خطرات منڈلارہے ہیں

جن امریکیوں کو مسلمانوں کا خون بہانے میں مزہ آتا ہے ، وہ شام کے مسلمانوں کے لہوکو بہانے کے لئے حملوں کا ماحول بنارہے ہیں اور مسلسل ایسے مواقع کی جستجومیں ہیں کہ وہ شام پراپنے حملے کو جائز ٹھہراسکیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں جیسے ہی شام میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا واقعہ سامنے آیا ، امریکہ کے عسکریت پسندوں نے شام پرحملے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنما ایلیٹ اینجل نے براک اوبامہ سے پرزور اندازمیں یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد سامنے آنے کے بعد شام کے خلاف فضائی حملے کریں۔اینجل نے یہ بھی کہا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی جانب سے مبینہ طورپر مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال دراصل اس ریڈ لائن  کو عبور کرنا ہے جو امریکی حکومت کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ شامی حکومت کے خلاف کارروائی کرے…اگر ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسد حکومت کی جانب سے خوفناک ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد سامنے آنے کے بعد بھی کارروائی نہیں کرتے تو اس سے دنیا کی جابر حکومتوں کو غلط پیغام جائے گا۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کا بھی کہنا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔
ان تمام بیانات سے یہ اندازہ لگالینا کچھ مشکل نہیں کہ امریکہ کے ارادے اچھے نہیں ہیں اور وہ شام میں براہ راست مداخلت کی تیاری کررہا ہے اور اس کے لئے حملے کے متبادل پر بھی غور کر رہا ہے۔ امریکہ کااپنے بحری بیڑے کو شام کی طرف لے جانابھی اس کے جنگی ارادوں کی عکاسی کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ کیاشام پر امریکی حملہ ناگزیر ہے؟ شام کے خلاف جس طرح ماحول بنایاجارہا ہے ، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اب شام پر حملہ ہوکر ہی رہے گا۔شام میں گزشتہ کئی سالوں سے بڑے پیمانہ پرخوں ریزی جاری ہے اور اس میں کمی نہیں آرہی ہے بلکہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مرنے والوں کی تعداد بھی روزبہ روز بڑھ رہی ہے جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔اب شام میں امن وسلامتی کی صورت حال اتنی زیادہ خراب ہوگئی ہے کہ وہاں جان کا تحفظ دشوار ہوگیا ہے، اس لئے بڑی تعدادمیں لوگ دوسرے ملکوں میں پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ شام کی اس صورت حال پر دنیا کے مختلف ممالک پہلے ہی سے تشویش کا اظہار کررہے ہیں لیکن اب جب کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی بات سامنے آئی ہے تو حالات اور زیادہ بگڑگئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ اب کیمیائی ہتھیاروں کے مسئلہ کو اٹھاکرامریکہ شام پر حملہ کرنے کی پور ی کوشش کرے گا۔
یہاں یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا شام کی سلامتی کی فکر صرف امریکہ ہی کو ہے ؟ کیا شام میں مداخلت کا حق امریکہ ہی کو حاصل ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بشارالاسد کی فوجوں نے گزشتہ سالوں میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہر معاملہ کو طاقت کے زور پر حل کرنے کی کوشش کی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ شامی حکومت کی کارروائیوں کو بہانہ بناکر کوئی دوسرا ملک اس پر چڑھائی کردے لیکن ایسا نظرآرہا ہے کہ امریکہ عالمی برادری سے اوپر ہوچکا ہے ۔اگر دنیا کے کسی حصہ ،خاص طورسے کسی مسلم ملک کے حالات بگڑتے ہیں تو امریکہ وہاں کود پڑتا ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہو اکہ امریکہ اپنی بالادستی چاہتا ہے۔جہاں تک بات شام کی سا لمیت کی ہے تو پوری عالمی برادری کو مل بیٹھ کر اس سلسلے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے اور مثبت کوششیں کرنی چاہئیں، مگر اس کا اختیار صرف امریکہ کو کیسے دیاجاسکتاہے؟ امریکہ کی مداخلت سے حالات قطعی طورپر سدھرنے والے نہیں ہیں۔اس کا تجربہ عراق اور افغانستان میں ہوچکا ہے۔2001میں امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی لیکن 12سال گزرنے کے بعد بھی وہاں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں اور امن وامان کی صورت حال خراب ہے۔ 2003میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا اور صدام کی حکومت کا خاتمہ کرکے پورے نظام کو بدل ڈالا تھا لیکن 10کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی عراق آج بھی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ یہاں آئے دن بم بلاسٹ ہوتے ہیں جن میں درجنوں افراد مارے جاتے ہیں۔ بعض بم دھماکوں میں تو مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔اگر شام پر امریکہ حملہ کرتا ہے تو وہ بھی برسہابرس تک افغانستان اور عراق کی طرح بدامنی کا شکار رہے گا۔اس لئے عالمی برادری کو سوچنا چاہئے کہ وہ شام کے حالات کو بہتربنانے میں خود پیش قدمی کرے اور امریکہ کو اس بات کا اختیار نہ دے کہ وہ براہ راست اس پر حملہ آور ہوجائے۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا ہے یا نہیں ، اس بابت بھی عالمی برادری کوگہری اور انصاف پر مبنی تحقیق کرنی چاہئے۔ بلاشک وشبہ گزشتہ دنوں پیش آنے والا 1300افراد کی ہلاکت کا معاملہ بہت سنگین ہے لیکن اس کی تحقیق ضروی ہے۔ مکمل تحقیق اور ثبوتوں کی فراہمی کے بعد ہی واجبی کارروائی کی جاسکتی ہے ، صرف الزامات کی بنیادپر حملے یا اس طرح کی کسی اور کارروائی کو درست قرار نہیں دیاجاسکتا۔عالمی برادری کو یہ بات بھی پیش نظررکھنی ہوگی کہ ان دنوں شام سازشوں کا شکار ہے۔ نہ صرف اندرونی گروہ سازشیں رچ رہے ہیں بلکہ بیرونی طاقتیں اور جماعتیں بھی سازشیں رچنے میں مصروف ہیں۔ایسے حالات میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کسی گہری سازش کا بھی نتیجہ ہوسکتا ہے۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری سے بھی کو ئی پختہ امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس پر بھی امریکہ جیسے ممالک کا غلبہ ہے ۔اس لئے اگر امریکہ شام سے جنگ کا فیصلہ کرچکا ہے تو پھر ایسا نہیں لگتا کہ اقوام متحدہ اسے جنگ سے باز رکھ پائے گی۔
بظاہر ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ شاید اب جنگ ٹل نہ سکے گی۔لیکن اس کا ذمہ دار جہا ں امریکہ ہوگا وہیں خود شامی حکومت بھی ہوگی جس نے اپنے ملک کے حالات کو سنوارنے کی مثبت کوشش نہیں کی اور ساتھ ہی وہ جنگجو گروہ بھی جنہوں نے پر امن طریقے سے مسائل کو حل کرنے پر تصادم کوترجیح دی۔شامی حکومت کو اس بات پر ذرا بھی ترس نہ آیا کہ اس کی کارروائی کے نتیجہ میں کتنی ہی معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں،معصوم بچے مررہے ہیں، عورتیں بیوہ ہورہی ہیں اور شام کا ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے۔اقتدار پر براجمان ہونے کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا ہے کہ عوام کے مطالبات کو ہی تسلیم نہ کیاجائے ۔کیا ملک شام پر صرف بشار الاسد یا ان کے ہمنواؤں کا حق ہے اور کسی کا کوئی حق نہیں؟ بشار الاسد کو سوچنا چاہئے تھا کہ وہ جس اقتدار کی کرسی پر ہیں ، وہ ان کے پاس ہمیشہ نہیں رہنے والی ۔انسان کی زندگی تو بہت مختصر ہے ۔ جس کے بہت جلدپورا کرنے کے بعد بالآخر اسے دنیا کو الوداع کہنا ہی ہوگا۔کیا کوئی حاکم ، کوئی بادشاہ ، کوئی فاتح اس دنیا میں رہا ہے؟ وہ لوگ جنہوں نے اپنی تلواروں کے زورپر بہت سے ممالک کو فتح کیا ، آج ان کا نام ونشان تک باقی نہیں ہے۔شامی حکام اگر غوروفکر کرکے بہتر حکمت عملی اختیارکرتے تو شاید اتنا خون خرابہ نہ ہوتا اور نہ ہی آج امریکہ شام پر حملے کے لئے پر تولتا۔اگر امریکہ نے جنگ شروع کردی تو اس کے بعد شام کے حالات اور زیادہ خراب ہوجائیں گے ۔ ابھی تک جتنے لوگ مارے گئے ہیں ،ممکن ہے کہ جنگ کے دوران اس سے زیادہ لوگ مارے جائیں اور پھر جنگ کے بعد بھی تباہی وبربادی کا سلسلہ جاری رہے ۔ امریکہ جس ملک میں گھستا ہے اسے اس طرح تاراج کرتا ہے کہ وہ برسوں تک سنبھل نہ سکے اور وہاں کے لوگ باہم دست وگریباں رہیں۔ حالات کے رخ کو دیکھتے ہوئے شام کو فوری طورسے جنگ کے خطرات کو ٹالنے کے لئے سرگرم ہوجانا چاہئے۔ اگر شامی حکومت اب بھی مثبت اقدامات پر غور کرلے تو ممکن ہے کہ کوئی راہ نکل آئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بشارالاسد اور ان کے ہنموا حکام شام کو بچانے کی فکر کرتے ہیں یا پھر شام کو تباہی کے سمندر میں ڈھکیل دیتے ہیں۔

«
»

کب تک لٹتے رہیں گے مذہبی منافرت کے ہاتھوں؟

بانجھ پن…….(Infertility)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے