یوم وفات پر خصوصی تحریر
(ولادت: 24 نومبر 1914ء – وفات: 31 دسمبر 1999ء)
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔سرکڑہ ،بجنور،یوپی
حضرت مولانا اوصاف وکمالات کے جامع تھے۔ ان کی زندگی اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم آپ کے اندر موجود تھیں جو اسلام کو مطلوب ہیں اور آپ ان تمام مناہی ومنکرات سے کوسوں دور تھے جن سے اسلام نے روکا ہے۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔زندگی کا وہ کونسا محاذ ہے جہاں آپ نے اپنی کارکردگی سے دنیا کو متاثر نہ کیا ہو۔عالم انسانیت کا وہ کونسا گروہ ہے جسے آپ نے مخاطب نہ کیا ہو۔کیا مرد کیا خواتین ،کیا جوان بچے اور کیا بوڑھے و ضعیف ،عالم ،غیر عالم ،ہندو مسلمان ،عصری تعلیم یافتہ ،دینی علوم کے ماہرین،وکلاء،اطباء،مصنفین،،صحافی ،ادباء ،شعراء وغیرہ غرض ملک اور بیرون ملک میں ہر طبقے کو آپ نے مخاطب کیا ظاہر ہے ان کاموں کے اثرات کا دائرہ روز بروز بڑھ رہا ہے ۔آپ کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ جگنو بن کر اپنے ماحول کو روشن کررہا ہے ،آپ کی تصنیف کردہ سیکڑوںکتابیں ،جو نہ جانے کن کن زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں،دنیا بھر کی لائبریریوں ،دانشگاہوں اور تعلیم گاہوں میں تشنگان علم کو سیراب کررہی ہیں ۔آپ کے فیض تربیت سے سیراب ہونے والے طلبہ جہان رنگ و بو کے کوچے کوچے میں اعلائے کلمۃ اللہ کا عَلم اٹھائے ہوئے ہیں ،آپ کی دانش گاہوں سے فارغ ہونے والے علماء اور فضلاء جن کو شمار کرنا ناممکن ہے ،ہمہ وقت تکبیر مسلسل میں مصروف ہیں ۔
عاجزی وانکساری حضرت مولانا کی زندگی کا نمایاں وصف تھا۔آپ ایک درویش صفت اور متواضع انسان تھے۔ جو شخص بھی آپ سے ملتا آپ کی منکسرانہ طبیعت سے ضرور متاثر ہوتا۔ آپ ہر آنے والے کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے اور اس کی تواضع فرماتے۔ چھوٹوں کے ساتھ بھی شفقت کا معاملہ رہتا۔ اپنی ذات کے لیے کبھی کسی کو کچھ نہ کہتے، غلطی بھی ہوجاتی تو چشم پوشی فرماتے۔
آپ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو جو فکر میں بھی تھا اور عمل میں بھی، تحریر میں بھی تھا اور تقریر میں بھی ،وہ وسعتِ قلب ونظر ہے جو بہت کم علماء میں پایا جاتاہے۔آپ اپنے دشمنوں کو دعائیں دیتے اور ان کے حق میں کلمات خیر فرماتے۔ وہ لوگ جنہوںنے آپ کے ساتھ بدکلامی یا تنقید کا رویہ اپنایا ایسے لوگوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک فرماتے۔مختلف مسالک ومکاتب فکر کے علماء وقائدین کی قدر فرماتے۔ ان سے روابط استوار رکھتے۔ گروہی عصبیت اور مسلکی شدت پسندی سے ہر وقت اپنے دامن کو پاک رکھتے۔ ہر ایک کی دینی وعلمی خدمات کا اعتراف کرتے۔
مولانا کا ایک نمایاں وصف ایمانی جرأت اورحق گوئی وبیباکی تھا۔ امراء وسلاطین کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہ برتتے۔ ان کے سامنے بے ٹوک اپنا موقف رکھتے اور بلاخوف وتردد صحیح بات کہتے۔ عرب شیوخ کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی تقاریر اس کا بین ثبوت ہیں۔جب آپ شاہ فیصل کے دربار میں گئے اور وہاں آرائش و زیبائش کے مناظر دیکھے تو آپ نے دیندار بادشاہوں کے رہن سہن کی تصویر کشی کی تو شاہ فیصل روپڑے اور دیر تک روتے رہے۔ ہندوستان کے تمام وزرائے اعظم کو ملاقاتوں اورخطوط کے ذریعہ ان کی ذمہ داریاں یاددلاتے رہے۔یہ لوگ جب آپ سے ملنے آتے تب بھی آپ نہایت بیباکی اور صاف گوئی سے گفتگو فرماتے۔ جب اڈوانی جی آپ سے ملنے آئے تو آپ نے ان سے فرمایا:’’اڈوانی جی اللہ میاں کے یہاں یہ سیاست نہیں چلے گی۔‘‘
آپ کی ذات میں حمیت دینی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ہر وقت آپ کو یہ فکر دامن گیر رہتی کہ ملت اسلامیہ کو اس کاکھویا مقام کس طرح حاصل ہو۔ تقسیمِ ملک کے بعد جب ہندوستان میں بعض ہندو لیڈروں نے یہ نعرہ بلند کیاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو اب ہندو تہذیب اختیار کرلینی چاہیے تو آپ بے چین ہواٹھے۔ آپ نے پرشوتم ٹنڈن داس اورسمپورنانند کو اس سلسلہ میں خطوط لکھے اور اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ یہ آواز بلند کی کہ ہم ہندوستان میں مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔ اسلامی تشخص سے دستبرداری کسی حال میں قابل قبول نہیں ہوگی۔ چنانچہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت کے قیام کے سلسلہ میں آپ کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔غیرت ایمانی کے ساتھ اللہ نے آپ کو بصیرت ایمانی بھی عطا فرمائی تھی۔مردم شناسی، حقیقت رسی، احوال فہمی جسے ہم ایمانی فراست کے جامع لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں آپ کے یہاں بدرجہ اتم موجود تھی۔
زہد واستغناء وبے نیازی آپ کا امتیازی وصف تھا۔ آپ کا ابتدائی دورتنگی اور معاشی دشواریوں میں گزرا اور آخری دور میں مال ودولت کی بارش ہوئی مگر دونوں حالتوں میں استغناء وبے نیازی کی شان میں ذرا سا فرق نہیں آیا۔ شارجہ کے سلطان خود آپ سے ملاقات وزیارت کے لیے ندوہ تشریف لائے۔ حضرت مولانا نے اس بلیغ محاورہ کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔’’نعم الامیر علی باب الفقیر‘‘ (کیا ہی خوب ہے وہ امیر جو درویش کے دروازہ پر حاضری دے۔)
اپنے وقت کے امراء وزراء آپ کی زیارت وملاقات کو باعثِ سعادت سمجھتے تھے اور آپ کے درپر حاضری دیتے مگر آپ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی سادہ رہن سہن، معمول کا کھانا پینا ،وہی عام پہناوا، ہر طرح کی آسائش وزیبائش سے دور۔ وفات سے ایک سال پہلے ایک مخلص نے قیمتی گاڑی پیش کی۔ حضرت مولانا نے معذرت فرمائی تو وہ صاحب رونے لگے۔ آپ نے ان کی دلداری کے لیے گاڑی قبول فرمالی مگر چند لمحوں کے بعد ان سے فرمایا:’’اب میں یہ گاڑی آپ کو ہدیہ کرتا ہوں۔ آپ اس کو قبول فرمالیں۔‘‘یعنی گاڑی واپس کردی۔جب رابطہ عالم اسلامی نے طے کیا کہ ممبران کو اعزاز یہ دیا جائے تو حضرت مولانا نے یہ کہہ کر اعزازیہ لینے سے معذرت کرلی کہ کوئی کام تو ہم خالص دین کے لیے کریں۔آپ کی خدمت میں عرب شیوخ نے سونے کی تھیلیاں پیش کیں لیکن آپ نے شکریہ کے ساتھ واپس فرمادیں۔
جود وسخاوت آپ کا بہت نمایاں وصف رہا ہے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کا کوئی متعلق شخص ضرورت مند ہے تو اس کی طلب کے بغیر اس کی ضرورت پوری کرادیتے۔ آپ کے پاس جو بھی تحائف آتے اسی وقت ان کو تقسیم فرمادیتے۔ کئی مرتبہ آپ کو لوگوں نے ہدیہ میں گاڑیا ں پیش کیں وہ سب حضرت نے دارالعلوم کو عنایت فرمادیں کبھی کوئی چیز اپنے پاس نہیں رکھی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کا بھی یہ امتیازی وصف تھا کہ کتنی ہی قیمتی چیز تحفہ میں آپ کے پاس آتی وہ اسے فوراً تقسیم کردیتیں۔ حضرت مولانا کا یہ معمول تھا کہ تکیہ پر جو تحائف آتے وہ آپ گھر بجھوادیتے اور آپ کی اہلیہ اسی وقت ان کو تقسیم کردیتیں۔ اہلیہ کی وفات کے بعد بڑا حصہ باہر ہی تقسیم کردیا جاتا۔ کچھ تحفے بڑی ہمشیرہ کو بھجوا دیتے جن کو وہ تقسیم فرمادیتیں۔
خلوص وللہیت کا جوہر آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اس صفت نے آپ کی سیرت کو کندن بنادیاتھا۔ شہرت طلبی اور ریاودکھاوے سے کوسوں دور رہتے۔ ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی کہ رب العالمین کسی عمل سے ناراض نہ ہوجائے۔ شہرت سے بہت اجتناب کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کا بڑا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ تمام قوتوں کے ساتھ ہمہ تن متوجہ الی اللہ رہتے۔
حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کا وصف آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ اگر کوئی قطع رحمی پر آمادہ ہوتا تو بھی آپ اس کے ساتھ صلہ رحمی فرماتے۔ اسفار کے دوران بھی اہل قرابت سے خود ہی ملاقات کی کوشش کرتے۔ ان میں سے اگر کوئی ملاقات کے لیے آتا تو نہایت تواضع اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ اگر خاندان میں کوئی پریشان حال ہوتا تو ہر ممکن اس کی مد د فرماتے اور اس کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے۔صلہ رحمی کی انتہا یہ تھی کہ آپ کے قریبی بزرگ سید محمد صدیق صاحب جب معذور ہوگئے اور انہیں اسپتال میں مرض لاحق ہوا تو حضرت نے خود ان کی خدمت کی۔ ازار میں جو غلاظت لگ گئی تھی اسے اپنے ہاتھ سے دھویا۔
آپ نے جس ماحول میں تربیت پائی تھی۔ وہاں کسی کو تکلیف پہنچانا سب سے بڑا گناہ سمجھاجاتا تھا۔ آپ نے زندگی بھر اپنے قلم یا زبان سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ آپ کو اگر کوئی شخص تکلیف پہنچاتا تب بھی آپ اس کی دلآزاری نہ کرتے۔ اخیر عمر میں بعض قدیم تعلق والوں سے بڑی اذیت پہنچی مگر کبھی کسی کے بارے میں ایک حرف بھی زبان سے نہ نکالا۔ آپ کی خلوت وجلوت میں نہ کبھی کسی کی عیب جوئی ہوتی اور نہ کسی پر تبصرہ ہوتا۔ اگر کوئی اس طرح کا تذکرہ چھیڑ دیتا تو آپ گفتگو کا رخ بدل دیتے۔
آپ بہت رقیق القلب تھے۔ کسی کے دکھ درد اور پریشانی کو دیکھ کر خود پریشان ہوجاتے۔ آپ اس حدیث کا عملی نمونہ تھے جس میں اہل ایمان کو جسد واحد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ رقت قلبی صرف اپنے متعلقین تک نہ تھی، بلکہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ مثل ہر حادثہ، اور ہر غم پر بے چین ہوجاتے۔ اعزہ واحباب کی تکلیف کو سن کر بھی، ملت کی تکلیف سے بھی، ملک میں ہونے والے فسادات سے بھی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو دیکھ کر بھی۔ یہ رقت قلبی اکثر تنہائی میں اور زیادہ بڑھ جاتی اور نماز تہجد میں تو آپ اپنے رب کے سامنے الحاح و تضرع کچھ اس طرح فرماتے کہ اسوۂ رسول اکرمؐ کے مطابق ہانڈی کے ابلنے کی آواز آتی۔ اس رقت قلبی اور اضطراب وبے چینی کے باعث آپ ہمیشہ فعال ومتحرک رہے اور کوئی چٹان آپ کا راستہ نہ روک سکی۔
آپ نے خادموں کے ساتھ ہمیشہ حسن خلق کی راہ اپنائی۔ جس طرح حضرت انسؓ نے حضور اکرمؐ کے لیے گواہی دی کہ میں دس سال حضور اکرمؐ کی خدمت میںرہا لیکن کبھی آپ نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ آپؐ کے اس امتی کے خادموں نے بھی یہ گواہی دی کہ مولانا کسی دینی غلطی پر تو خفگی کا اظہار ضرور کرتے لیکن اپنی ذات کے لیے آپ نے کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ خادم خاص حاجی عبدالرزاق صاحب مرحوم نے ایسے کتنے ہی واقعات سنائے جب وہ مولانا کے کسی کام کو بھول گئے، مگر مجال ہے کہ مولانا نے ناگواری کا اظہار کیا ہو۔ ایک بار دوا ختم ہوگئی جو مولانا رات کو سوتے وقت لیتے تھے، خادم کو لانے کا یاد نہیں رہا، دوا کا وقت ہوگیا بلکہ وقت زیادہ ہوگیا ۔ مولانا کو شاید اس کا احساس ہوگیا کہ خادم دوا نہیں لاسکا تو آپ نے خادم کو آواز دے کر فرمایا آج دوا کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ڈانٹ ڈپٹ ، نہ معافی تلافی بلکہ خادم کو شرمندہ ہونے اور معذرت خواہی تک سے بچالیا۔
آپ کی نشست وبرخاست میں نبوی وصف نمایاں تھا۔ اکثر دوزانوں ہوکر تشریف فرماتے۔ کبھی آلتی پالتی مارکر نہ بیٹھتے۔ بزرگوں کے سامنے یہ ادب مزید عجز وانکساری لیے ہوتا۔ دوسروں کی طرف پائوں نہ پھیلاتے۔ تکلیف گوارہ فرماتے لیکن ایسا نہ کرتے۔
مولانا ایک ایسے عالم دین تھے جو مختلف علوم میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ آپ کی شخصیت جدید وقدیم کا حسین سنگم تھی۔ جب بولتے تو علم کے گوہر بکھیرتے۔ جب لکھتے تو علم کی لڑیاں پروتے۔ جب تقریر کرتے تو دریائے علم کو کوزہ میں بند کردیتے۔ آپ اسلامی علوم کے بحرذخار تھے اور جدید علوم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔
حضرت مولانا علی میاںندوی ؒ دودرجن سے زیادہ اداروں اور تنظیموں کے ذمہ دار یا رکن رہے ۔ان میں ندوہ کے مختلف مناصب آپ کے پاس رہے ،ایک وقت وہ تھا جب آپ ایک مدرس تھے ،پھر آپ معتمد تعلیم ہوئے ،مجلس شوریٰ کے رکن بنائے گئے دارالاہتمام کو زینت بخشی ،ناظم دارالعلوم ندوہ العلماء آخر تک رہے۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام سے ہی آپ اس میں متحرک رہے ۔بعد میں اپنی وفات تک اس کے صدر رہے۔مجلس تحقیقات و نشریات اسلامی لکھنو ،دینی تعلیمی کونسل لکھنو،پیام انسانیت لکھنو،مجلس عاملہ شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،عالمی رابطہ ادب اسلامی کے صدر رہے۔اس کے علاوہ جامعہ اسلامیہ مدینہ المنورہ کی شوریٰ کے رکن ،رابطہ عالم اسلامہ مکہ مکرمہ کے تاسیسی رکن،دمشق یونیورسٹی شام اور مدینہ یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر،اسلامک سینٹر آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ کے صدر،عربی اکیڈمی دمشق کے رکن،اسلامک یونیورسٹیز فیڈریشن رباط مراکش کے ممبر،اسلامک سینٹر جنیوا کے رکن،فائونڈیشن فار اسٹڈیز اینڈ ریسرچ لگژمبرگ کے صدر،موتمر عالم اسلامی بیروت کی مجلس عاملہ کے رکن،وغیرہ رہے ۔حیرت یہ ہے کہ اتنی ذمہ اریاں تقریباً ایک ساتھ ادا کرنا ،اس کے ساتھ تصنیفی کام کرنا،ملک بھر کے پروگراموں میں شرکت کرنا،کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ مجھے اپنے اس بندے سے یہ کام لینے ہیں ۔کسی انجمن ،سوسائٹی،یونیورسٹی،موتمر نے کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ حضرت مولانا نے ذمہ داری تو لے لی مگر کوئی کام نہیں کیا۔آپ نے الحمد للہ بیک وقت تمام ذمہ داریاں کما حقہٗ ادا فرمائیں۔
مختصر یہ کہ مولانا محض ایک فرد نہیں تھے وہ مضبوط جماعت، منظم ادارہ تھے۔ وہ ملت کے لیے ایک مرکز کی حیثیت رکھتے تھے۔ جب ملت پر مصیبت کا وقت آتاتو لوگوں کی نگاہیں حضرت مولانا کی طرف اٹھتیں اور کبھی مایوس ہوکر نہ لوٹتیں۔وہ ملت کے لیے دھڑکتا دل ، چلتی نبض، سوچتا دماغ اور طاقتور دست وپا تھے۔ مولانا کے انتقال کے بعد اب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جس پر سب کا اعتماد ہو۔ دل سے اس کا احترام کرتے ہوں اور وہ سب کی محبوب شخصیت ہو۔خدا سے دعا ہے کہ وہ ملت کو نعم البدل عطا فرمائے۔(آمین)
جواب دیں