سوئٹزرلینڈ کے ایک ہوٹل کا قابل تقلید اور مثالی قدم

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خبرجوابھی بھی اس ملک سے آئی ہے جس خبرکے بارے میں ہماری خواہش تھی کہ وہ خبرمغرب سے نہ آکر مشرق کے کسی ایسے ملک سے آتی جو اسلامی تہذیب وتمدن کانمائندہ ملک کہلاتا ہے۔اسلامی قوانین کی پاسداری کرنے والا ملک ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس خبرکا تعلق ان اسلامی یا مسلم ممالک سے نہیں ہے بلکہ ان مسلم ممالک یااسلامی دنیا کا حال اس معاملہ میں انتہائی بدترہے۔خیرخبرپڑھیں جوکہ یقیناًصرف ملکی سطح پرہی نہیں بلکہ اس کو سماجی سطح پر بھی عام کرناچاہئے کیوں کہ یہ ایک ایسی قابل تقلیدمثال ہے جسے ہرانسان کواپنی زندگی کا ایک جز بنالینا چاہئے تاکہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کرنے والے بھی ہم بن جائیں۔ خبرکچھ اس طرح ہے:
فرانسیسی ریسٹورنٹ کا کھانا بچانے والے گاہکوں پرجرمانہ
جنیوا:(ایجنسی) سوئزرلینڈ میں واقع ایک فرانسیسی ریسٹورنٹ نے کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ایک منفرد طریقہ اختیارکیاہے جس کے تحت اس نے پیر سے اپنے ایسے گاہکوں پر علامتی جرمانہ عائد کرناشروع کردیا ہے جوڈنر(عشائیے) میں اپنی پلیٹوں میں کھاناچھوڑدیتے ہیں۔ان کے بل میں جرمانے کے طورپر۵؍فرانکس کا اضافہ کیاجائے گا۔ایک مقامی روزنامے کے مطابق ضلع لوکارنو کے علاقے لوسون میں واقع اس ریسٹورنٹ پراس جرمانے پر عملدرآمدپیرسے شروع کیا گیا ہے ،تاہم گاہکوں کو پیشگی آگاہ کردیاگیاتھا۔(۱۳؍مئی ۲۰۱۴)
ظاہرسی بات ہے یہ خبراخبارکے ہرقاری کی نظرسے گذراہوگا،لیکن اس خبرکاتعلق سیاست سے نہ ہونے کی بناپر اسے بہت چھوٹی سی جگہ دی گئی تھی،اوراس بناپر ممکن ہے کہ قاری نے اس خبرکواہمیت کی نظرسے نہ پڑھا ہوبلکہ کچھ قارئین نے اسے مزاحا لیاہوگا۔حالاں کہ اگر آپ اس وقت دنیاکے حالات کامشاہدہ کریں تو آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ نہیں اس خبرکو اخبارکی شہ سرخی بنانی چاہئے،کیوں کہ اس خبرکاتعلق براہ راست انسانیت سے ہے۔اس انسانیت سے جوہمارے اورآپ کی ان ہی شاہ خرچیوں کی بناپر بھوک پیاس سے دم توڑرہی ہے۔آج دنیا کا بڑا حصہ بھوک اورافلاس کا شکارہے۔ مناسب غذا اور دواکی عدم دستیابی کی وجہ سے روزانہ سیکڑوں لوگ دم توڑرہے ہیں ،اوردوسری طرف ہمارا اور آپ کا حال یہ ہے کہ ہم روزانہ سیکڑوں کلوغذا ضائع کردیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی غذااورتغذیہ پروگرام کی رپورٹ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس وقت دنیا میں کم ازکم ۳۷؍ایسے ممالک ہیں جہاں مناسب غذا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بھوکوں مررہے ہیں،آپ اگرمشاہدہ کرناچاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر تلاش کریں آپ کو ایسی تصویریں نظرآئیں گی کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔بدن پرصرف ہڈی نظرآتی ہے۔بھوک اور غذاکی قلت کے شکارسب سے زیادہ افریقی ممالک ہیں جہاں یا تو خشک سالی کی وجہ سے مناسب مقدارمیں غذا میسرنہیں ہیں یاپھر آپسی خانہ جنگی کی بنیادپر،بہرحال لوگ بھوکوں مررہے ہیں۔دوسرے نمبرپرایشیا کے دس ممالک ہیں جوغذائی قلت کے شکارہیں اوراس فہرست میں یورپ کا صرف ایک ملک ہے۔
اقوام متحدہ کی غذاتغذیہ پروگرام کے اعداوشمارپررشنی ڈالیں تو تقریبا۸۷۰ ملین لوگ غذائی قلت کے شکارہیں ۔ ان میں سے ۸۵۲ ملین لوگ ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ جوکہ ترقی پذیر ممالک کی ۱۵؍فیصد آبادی ہے۔اسی طرح ۱۶؍ملین لوگ ترقی یافتہ ممالک میں غذائی قلت کے شکارہیں۔غذائی قلت کے سب سے زیادہ شکار ۵؍سال کی عمرسے کم کے بچے ہیں۔مناسب غذااوردوافراہم نہ ہونے کی وجہ سے ۴۵؍فیصدبچے ہرسال مرجاتے ہیں جن کی سالانہ تعداد۳؍ملین سے زائدہے۔بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ہر۱۵؍سیکنڈ پر ایک بچہ بھوک کی وجہ سے مرجاتاہے یعنی ایک منٹ میں چار بچے کی موت ہوجاتی ہے ۔بی بی سی نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ سروے رپورٹ ایک بہت ہی معتبرادارے کی جانب سے کرائے گئے سروے کے اعدادوشمارپرمبنی ہے۔بی بی سی کے مطابق دی لانسٹ ایک عالمی ادارہ ہے جس نے ۲۰۱۱ میں ایک سروے رپورٹ شائع کیاتھا جس میں ایک سال میں ۳؍ملین سے زائدبچوں کی اموات کا اعدادوشمارپیش کیاتھا جسے اگر منٹ اورسیکنڈپرتقسیم کریں تو ہر۱۵؍سیکنڈپر ایک بچہ کی موت یعنی ہرایک منٹ پرچاربچے کی موت واقع ہوجاتی ہے اوراس کی وجہ صرف بھوک اور مناسب غذا کی فراہمی کا نہ ہوناہے۔
مہذب دنیا کا اس سے بڑا مکروہ چہرہ اور کیا ہوسکتاہے کہ جہاں ایک طرف بھوک اور قلت غذاکی کمی کی وجہ سے دنیا میں ہر۱۵؍سیکنڈ پر ایک بچہ کی موت ہوجاتی ہے وہیں دوسری جانب روزانہ دنیابھرمیں تیارہونے والے کھانوں کا ایک تہائی حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی سپرپاور کہلانے والی طاقت اورمہذب ملک کی صفوں میں سب پہلامقام حاصل کرنے والا ملک امریکہ کھانوں کوضائع کرنے میں بھی سب سے سرفہرست ہے۔ امریکہ میں روزانہ تیارکھانوں کا ۴۰۔۵۰ فیصد ضائع کردیا جاتاہے ۔اگر اس کوفی شخص کے اعتبارسے تقسیم کیاجائے تو سالانہ ایک شخص اپنے حصہ کا۷۶۰ کلوگرام کھانا ضائع کردیتاہے۔اسی طرح آسٹریلیا میں روزانہ ۳؍ملین ٹن کھاناضائع ہوتاہے جوکہ ہرشخص کے حصہ کے اعتبارسے سالانہ ۶۹۰؍کلوگرام ہوتاہے۔ڈنمارک میں ہرشخص سالانہ ۶۶۰ کلوگرام کھاناضائع کرتا ہے۔کناڈا۲۷۵؍کلوگرام،ناروے ۶۲۰؍کلوگرام،نیدرلینڈ۶۱۰؍کلوگرام،جرمنی۵۴۰؍کلوگرام،برطانیہ۵۶۰؍کلوگرام اور ملیشیا میں ہرشخص ۱؍ملین کلوگرام سالانہ اپنے حصہ کا کھاناضائع کردیتاہے۔
یہ توان ممالک کی حالت ہے جواپنے آپ کو مہذب اور باقی دنیا سے سپرمخلوق سمجھتی ہیں،گرچہ ان کے پاس اپنا کوئی اخلاقی ماڈل نہیں ہے انہوں نے اسلامی ماڈل کواپنا کرہی صحیح اپنے آپ کو باقی دنیا سے مہذب ضروربنالیاہے۔لیکن ان ممالک کی حالت ان سے بھی بدترہے جن کے پاس قانون کے لئے قرآن کی شکل میں خدائی راہنمائی ہے۔جوقرآن وسنت پرعمل کرتے ہوئے باقی دنیا کو اپنا پیروکاربناسکتے ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے خودہی قرآن کوچھوڑدیا جس کی وجہ سے آج وہ بجائے اس کے کہ باقی دنیا ان کی پیروی کرتی آج وہ خود دوسروں کے پیروکاربنے ہوئے ہیں اور اسے اپنے لئے قابل فخربھی سمجھتے ہیں۔کھاناضائع کرنے میں شاید پوری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔میں تحقیقی رپورٹ توبعدمیں بیان کروں گا سب سے پہلے روزمرہ کے مشاہدہ کی بات کرتے ہیں کہ عموما ہوٹلوں میں اپنی ان ہی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے کہ سعودی باشندے بہت سارے اقسام کے کھانوں کا آرڈر دیتے ہیں اور تھوڑاتھوڑا کھاکر اتنا کھانا چھوڑدیتے ہیں کہ کم ازکم وہ دوتین لوگوں کو کافی ہوجائے۔اسی طرح ان کی پارٹیوں اور شادیوں کا حال ہے کہ بڑابڑا بکرا ایک بڑے صحن میں مسلم آتاہے ادھر ادھر سے کھاکربقیہ بڑاحصہ چھوڑدیتے ہیں۔جویاتو ان کے گھروں میں کام کرنے والے کھالیتے ہیں یاعموما وہ پھینک دیاجاتا ہے۔اس سلسلہ میں سعودی عرب سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ عرب نیوز کے انٹرنیٹ ایڈیشن میں گذشتہ ۱۳؍اپریل کوایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی جوکہ کنگ سعود یونیورسٹی کے اگریکلچرل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے تحقیق کے حوالہ سے شائع ہوئی ہے۔تحقیق کے مطابق سعودی عرب میں روزانہ ساڑھے چارہزارٹن تیارکھاناضائع ہوجاتا ہے۔اسی طرح مزید لکھاہے کہ رمضان میں روزانہ تقریبا ۴؍ملین کھانا تیارہوتاہے جس میں سے ۳۰؍فیصد حصہ روزانہ ضائع ہوجاتاہے جس کی قیمت ۱؍ملین سے زائدہے۔
ایک طرف کھانوں کے نقصان کے اعدادوشمارکودیکھیں اور دوسری جانب بھوک سے مرنے والے انسانوں کی تعدادکو،کیاکبھی کسی مہذب انسان نے اس پرغورکیاہے کہ جواللہ اسے یہ رزق دے رہاہے اورجس رزق کو ہم اتنی بے رحمی سے ضائع کررہے ہیں کیاوہ ضائع ہونے والی اس رزق کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرے گا؟کیا دنیاکا کوئی بھی مذہب،دنیاکاکوئی بھی قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کہ کھانے کا ایک لقمہ کے برابرحصہ بھی ضائع کیاجائے؟ہرگزنہیں!دنیا کا ایک بڑاحصہ اس وقت غذائی قلت کاشکارہے،اورمناسب غذاکی فراہمی نہ ہونے کی بناپر بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کرمررہے ہیں،آپ کواگراس کانظارہ کرنا ہو تو افریقن ممالک میں بھوک کے شکار مفلس ونادار افراد اور بچوں کی تصویریں دیکھ لیں پھر آپ کے نزدیک کھانے کا ایک ایک لقمہ کی اہمیت لاکھ روپے کے برابرہوجائے گی۔اس تناظرمیں سوئزرلینڈکے فرانسیسی ہوٹل کا یہ عمل انتہائی مستحسن اور مثالی قدم ہے۔ یہ تو ایک ایسے ملک کااٹھایاہوامثالی قدم ہے جس کے پاس قانون کے لئے قرآن وحدیث کی شکل میں کوئی مستندکتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس نے اتنامستحسن قدم اٹھایاجوکہ واقعتا انسانیت کی خدمت کی جانب ایک بڑاقدم ہے۔ ہم جوکہ قرآن وحدیث کی حامل امت ہیں،قرآن کی شکل میں خدائی رہنمائی ہے ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے گھروں میں ،اپنے محلوں میں،بالخصوص شادہ بیاہ اوردیگر تقریبات کے موقع پراس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کھاناضائع نہ ہوسکے۔یااگرجوکھانے بچ جائیں انہیں مستحقین تک پہونچانے کا مناسب اور بروقت انتظام کریں تاکہ کھانے ضائع کرنے کا گناہ ہمارے سروں پرنہ ہو۔اوراللہ کی اس اہم نعمت کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کرسکیں۔

«
»

حد قذف(احکام و شرائط)

’’بوکوحرام تنظیم ،،کاوجود :منظر پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے