(پہلی قسط)
عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
سورہئ کہف قرآن مجید کی 18 ویں سورت ہے،جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس میں اصحاب کہف،باغ والے، حضرت موسی ؑو خضر اور حضرت ذوالقرنین کا قصہ بہ طور خاص بیان کیا گیا۔یہ سورت مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انہوں نے نبی ﷺکا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔در اصل علماء یہود نے ان کو بتلایا تھاکہ تم لوگ محمدﷺ سے تین سوالات کرو، اگر انہوں نے ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دے دیاتو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اور اگر جواب نہ دے سکے تو سمجھ لو کہ یہ بات بنانے والے ہیں، رسول نہیں ہیں۔ ایک تو ان سے ان نوجوانوں کا حال دریافت کرو جو قدیم زمانے میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے، ان کا کیا واقعہ ہے؛ کیوں کہ یہ واقعہ عجیب ہے، دوسرے ان سے اس شخص کا حال پوچھو جس نے دنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا، اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرے ان سے روح کے متعلق سوال کرو کہ وہ کیا چیز ہے؟چناں چہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ سوالات لے کر حاضر ہوئے، آپ نے سن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا؛ مگر آپ اس وقت ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔ یہ لوگ لوٹ گئے، اور رسول اللہ ﷺ وحی الہی کے انتطار میں رہے کہ ان سوالات کا جواب وحی سے بتلا دیا جائے گا؛ مگر وعدے کے مطابق اگلے دن تک کوئی وحی نہ آئی، بل کہ پندرہ دن اسی حال پر گذر گئے کہ نہ جبرئیل امین آئے نہ کوئی وحی نازل ہوئی، قریش مکہ نے مذاق اڑانا شروع کیا، اور رسول اللہ ﷺ کو اس سے سخت رنج و غم پہونچا۔پندرہ دن کے بعد جبرئیل امین سورۃ کہف لے کر نازل ہوئے؛جس میں تاخیر وحی کا سبب بھی بیان کردیا گیا کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو ان شاء اللہ کہنا چاہیے، اس واقعہ میں چونکہ ایسا نہ ہوا اس پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی میں تاخیر ہوئی۔اس سورۃ میں ان نوجوانوں کا واقعہ بھی پورا بتلا دیا گیا، جن کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، اور مشرق و مغرب کے سفر کرنے والے ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی مفصل بیان آ گیا، اور روح کے سوال کا جواب بھی بتلادیاگیا۔ (تفسیر قرطبی بحوالہ معارف القرآن) البتہ روح کے سوال کا جواب اجمال کے ساتھ دینا مقتضائے حکمت تھا، اس کو سورۃ بنی اسرائیل کے آخر میں علیحدہ کر کے بیان کردیا گیا، اور اسی سبب سے سورۃ کہف کو سورۃ بنی اسرائیل کے بعد رکھا گیا۔
سورۃ الکہف کی فضیلت:
مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے سورت الکہف کی تلاوت شروع کی، ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا، صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح کا ایک بادل نظرآیا، جس نے ان پر سایہ کر رکھا تھا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ”پڑھتے رہو، یہ ہے وہ سکینہ جو اللہ کی طرف سے قرآن کی تلاوت پر نازل ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری:3614) مسند احمد میں ہے کہ جس شخص نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔ (صحیح مسلم:809)ترمذی شریف کی روایت میں دس کے بجائے تین آیتوں کا بیان ہے، مسلم شریف میں شروع کے بدلے آخری دس آیتوں کا ذکر ہے اور نسائی میں دس آیتوں کو مطلق بیان کیا گیا ہے،شروع اور آخر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ (صحیح مسلم:809)
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص اس سورۃ کہف کا اول آخر پڑھ لے اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور ہو گا اور جو اس ساری سورت کو پڑھے اسے زمین سے آسمان تک کا نور ملے گا۔ (مسند احمد:439/3)
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص سورۃ کہف پڑھ لے اس کے پیر کے تلوؤں سے لے کر آسمان کی بلندی تک کا نور ملے گا جو قیامت کے دن خوب روشن ہو گا اور دوسرے جمعہ تک کے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔(ابن مردویہ) اسی طرح مستدرک حاکم میں مرفوعا مروی ہے کہ جس نے سورۃ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لئے وہ جمعہ کے درمیان تک نور کی روشنی رہتی ہے۔(مستدرک حاکم:368/2)
حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب المختارہ میں ہے: جو شخص جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت کر لے گا وہ آٹھ دن تک ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہے گا یہاں تک کہ اگر دجال بھی اس عرصہ میں نکلے تو وہ اس سے بھی بچا دیا جائے گا۔(ملخص از تفسیر ابن کثیر)
غار والوں کا تذکرہ:
اصحابِ کہف کون تھے؟ ان کا تعلق تاریخ کے کس دور سے ہے اور یہ کن کے اسلاف میں سے ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ ان کے تئیں قطعیت کے ساتھ اتنی ہی بات کہی جاسکتی ہے جتنی قرآن نے بیان کردی ہے۔ قرآن نے ان کی سرگذشت کا صحیح اور سبق آموز حصہ بیان کرکے ان کے باب میں دیگرجزئیات کی کھوج کرید سے منع کردیا ہے۔اصحاب کہف کے بارے میں حافظ ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ یہ لوگ دقیانوس بادشاہ کے زمانہ میں تھے اور بادشاہوں کی اولاد سے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ عید کے موقع پر اپنی قوم کے ساتھ جمع ہونے کا اتفاق پڑگیا انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو سجدہ کر رہی ہے اور بتوں کی تعظیم میں مشغول ہے، ان کا یہ حال دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے پردے اٹھا دئیے اور ان کے دلوں میں ہدایت ڈال دی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ صحیح دین پر نہیں ہیں؛ لہٰذا انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا دین بنالیا۔چونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں میں رہیں گے تو یہ ہمیں دین توحید پر نہیں رہنے دیں گے اس لیے انہوں نے غار میں پناہ لے لی، ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا وہ ان کے دروازہ پر بیٹھا رہتا تھا۔
صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ وہ جس غار میں تھے وہ متوحش غار تھا، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ سو رہے تھے اور بعض نے کہا کہ ان کے بال بہت زیادہ تھے اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے۔غور کیاجائے تو یہ سب اصحاب کہف کی حفاظت کے انتظامات تھے، ان کی کروٹوں کو بدلنا مٹی سے حفاظت کرنے کے لیے تھا اور ان کے پیچھے کتا بھی لگ لیا تھا جو وہیں دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا کتے کی عادت ہے کہ ہر آنے والے اجنبی پر بھونکتا ہے، ظاہری اسباب کے طور پر یہ کتا بھی حفاظت کا ذریعہ بنا اور مزید یہ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کیفیت اور صورت حال پیدا فرما دی کہ اگر کوئی شخص ان کو دیکھتا تو ان کے قریب تک جانے کی ہمت نہ کرتا تھا؛ بل کہ واپس جانے میں ہی اپنی خیر سمجھتا۔الغرض:وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے اور اس لمبے زمانے کے بعد جب اللہ نے انہیں نیند سے بیدار کیا تو ماحول بدل چکا تھا، لوگ بدل چکے تھے، جس بستی کے لوگ شرک و بت پرستی میں بدمست تھے وہ اب موحد ہوچکے تھے۔
اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ اگر کوئی فرد اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اس کو اپنے دین پر،اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا چاہئے، اور آزمائش سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ باپ دادا کا طرز عمل کیا تھا۔ اگر باپ داداد کا طرزِ عمل غلط تھا تو محض ان کی تقلید کر کے،آنکھیں بند کر کے ان رسوم و رواج کی پابندی نہیں کرنا چاہیے؛بلکہ ایسی فضولیات سے گریز کرنا چاہئے اور ان سے اعلان برات کرنا چاہئے۔ آج ہماری مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے خاندانی رسوم و رواج کے پابند ہوکر رہ گئے اور احکام الٰہیہ پر رواجوں کو ترجیح دیدی۔ ایک اور سبق جو اس قصے سے ہمیں ملتا ہے،یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں آزمائش آئے اور اس کے نتیجے میں گھر بار، ماں باپ، اولاد، دوستو، رشتہ داروں کو چھوڑنا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ”اے نبی کہہ دو! کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔“ (سورہ توبہ:24)
باغ والے کا ذکر:
صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ سورہئ کہف میں جن دو شخصوں کا ذکر کیاگیاہے یہ بنی اسرائیل میں سے ایک بادشاہ کے بیٹے تھے، ایک نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور دوسرے شخص نے کفر اختیار کیا اور وہ دنیا کی زینت میں مشغول ہوگیا اور مال کو بڑھانے میں لگ گیا واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال دیا اس کے انگور کے دو باغ تھے اور ان دونوں باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے،جنہوں نے باڑ کی طرح سے ان دونوں باغوں کو گھیر رکھا تھا، ان دونوں باغوں میں کھیتی بھی تھی۔ درختوں کے پھلوں اور کھیتی کی پیداوار سے وہ بڑا مالدار بنا ہوا تھا پھران باغوں کے درمیان نہر بھی جاری تھی دونوں باغ بھرپور پھل دیتے تھے ذرا سی بھی کمی نہ ہوتی تھی۔
اس کے برخلاف ایک دوسرا شخص تھا، وہ مال اور آل و اولاد کے اعتبار سے زیادہ حیثیت والا نہ تھا، جس شخص کے باغ تھے اسے بڑا غرور تھا اس نے اپنے اس کم حیثیت والے ساتھی سے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ ہوں اور افراد کے اعتبار سے تجھ سے بڑھ کر ہوں؛کیونکہ میری جماعت زبردست ہے۔اول تو اس نے اس کم حیثیت والے ساتھی سے تکبر اور تفاخر سے خطاب کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے باغ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے کی حالت میں یعنی کفر پر قائم ہوتے ہوئے داخل ہوا وہاں بھی اس نے وہی کفر کیا اور کفران نعمت کی باتیں کیں، کہنے لگا کہ میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی بھی برباد ہوگا اورتم یہ جو قیامت قائم ہونے والی باتیں کرتے ہو یہ یوں ہی کہنے کی باتیں ہیں میرے خیال میں تو قیامت قائم ہونے والی نہیں۔ جاگیر دار کی سرمایہ دارانہ مادی سوچ کے مقابلے میں مومن نے اپنا موقف نہایت مہذب اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ جاگیردار نے فخریہ اور غیر مہذب انداز میں کہا تھا کہ میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی طاقت میں تم سے برتر ہوں۔ مومن نے جواب میں کہا: تجھے ایک ناپائیدار جاگیر پر ناز ہے، جبکہ مجھے اس جاگیر پر ناز ہے جو میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔ گو کہ تمہاری قدروں کے مطابق میں مال و اولاد میں تم سے کمتر ضرور ہوں؛ لیکن الٰہی قدروں کے مطابق جس جاگیر کا میں مالک بننے والا ہوں وہ تیری ناپائیدار جاگیر سے بہتر ہے۔ تیری جاگیر آسمانی اور زمین آفت کی زد میں ہے۔ ہوسکتا ہے آسمان سے تیری جاگیر پر آفت آگرے اور زمین خشک ہو جائے۔ چنانچہ اس کے باغ کی ناپائیداری کا وقت آگیا اور اس کا باغ تباہ ہو گیا۔ اس کے دماغ سے دولت و جاگیر کا غرور اتر گیا تو حقائق کا فہم شروع ہو گیا اور کہنے لگا: کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا اور اس دولت پر تکیہ کرنے کی جگہ اپنے رب پر تکیہ کرتا۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ آخرت سے غافل کرنے اور احکام خداوندی کے مقابلے میں بغاوت کرنے کا سب سے موثر محرّک عموماً مال وجائیداد اور پر تعیش زندگی ہے۔ آدمی مال کی تحصیل میں بھی اور مال حاصل ہوجانے کے بعد اس کے استعمال میں بھی غفلت کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنے خالق و مالک کو بھول جاتا ہے۔ہم خوداپنے گردوپیش پر نظر ڈالیں، ہم کو ہرجگہ یہی دکھائی دے گا کہ مال گھر میں بڑھا اور طبیعتوں کا انداز بدلا، ملنے جلنے والوں کا حلقہ بدلا، زندگی کا معیار بدلا، سوچنے کا پیمانہ بدلا، سب سے اول اس کا حملہ آدمی کے دین ہی پر ہوتا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
14جنوری 2020
جواب دیں