سپریم کورٹ ہی عوام کی امیدوں کاآخری مرکز

اورگذشتہ دنوں پھرملک کی عدالت عظمیٰ نے سیاست سے بدعنوانی کوپاک کرنے کے سلسلہ میں ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے ووٹروں کویہ حق فراہم کیاکہ جس طرح ایک ووٹراپنے ووٹ سے کسی لیڈرکوایوان کارکن منتخب کرسکتاہے اسی طرح اسے یہ حق بھی حاصل ہوگاکہ وہ اپنے اسی حق کے ذریعہ اس امیدوارکومستردبھی کردے،جس کے لیے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کوہدایت بھی کی ہے کہ وہ جلدازجلدای وی ایم مشین اوربیلٹ پیپرمیں ایساخانہ بنائے کیوں کہ آنے والے دو تین مہینوں میں ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اورپھر۲۰۱۴ء میں عام انتخابات ہوناہے۔ مذکورہ دونو ں فیصلوں کوہندستانی سیاست سے بدعنوانی ختم کرنے کی سمت میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹھایاگیااہم قدم سمجھاجاتاہے،ہندستان دنیاکاسب سے بڑاجمہوری ملک ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہندستان کوبدعنوان ملک کی فہرست میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے،ایک رپورٹ کے مطابق ہندستان بدعنوان ملک کی فہرست میں ایشیاء میں پانچویں نمبرپرہے۔ہندستان اپنی قدیم تہذیب وثقافت کی وجہ سے دنیابھرمیں انفرادی شناخت رکھتا ہے،اوریہاں کی تہذیب کاسکہ دنیاکے گوشہ گوشہ میں چلتاہے لیکن اب یہ ملک زیادہ تربدعنوانیوں اورگھوٹالوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے۔ ہندستان میںآزادی کے بعدسے حالیہ برسوں تک گھوٹالوں کی ایک لمبی فہرست ہے اوران تمام فہرستوں میں بالواسطہ یابلاواسطہ کسی نہ کسی سیاست دان کانام شامل ہے۔۹۰ء کی دہائی کا بوفورس اسکام جس میںآنجہانی راجیوگاندھی کانام بھی شامل ہے،اور اب بھی سیاسی حلقوں میں اس کی چنگاری اٹھتی رہتی ہے،اسی طرح ۱۹۹۶ء کاچارہ گھوٹالہ جس میں بہارکے سابق وزیراعلیٰ اورمشہورسیاست داں لالوپرشادیادوجیل کی ہوا بھی کھاچکے ہیں اورآج۳۰؍ستمبرکواس کافیصلہ بھی ہونے والاہے،یہ گھوٹالہ آج ملک کے بچہ بچہ کی زبان پرہے،اسی طرح۲۰۰۲۔۰۳ء تاج کوریڈورگھوٹالہ جس میں اترپردیش کی سابق وزیراعلیٰ محتر مہ مایاوتی کانام براہ راست جڑاہواہے،۲۰۰۱ء اسٹاک مارکیٹ گھوٹالہ،۱۹۹۲ء سیکوریٹیزگھوٹالہ،۲۰۰۸ء ووٹ کے بدلے نوٹ،۲۰۰۹ء ستیم کمپیوٹر،۲۰۱۰ء کامن ویلتھ گیم،۲۰۱۰ء ۲جی گھوٹالہ،۲۰۱۱ء ٹیٹراٹرک،۲۰۱۲ء کوئلہ گھوٹالہ،۲۰۱۳ء ریلوے پروموشن گھوٹالہ،۲۰۱۳ء چوپرآگسٹاویسٹ لینڈ گھوٹالہ اور۲۰۱۳ء اترپردیش قومی دیہی صحت مشن میں گھوٹالہ کے علاوہ آدرش ہاؤسنگ اسکیم،حوالہ اسکام اور۲۰۱۳ء میں شارداچٹ فنڈ وغیرہ یہ ایسے گھوٹالے اوربدعنوانیاں ہیں جن میں بالواسطہ یابلاواسطہ کوئی نہ کوئی سیاستدان یا حکومت کاکوئی نہ کوئی وزیرملوث ہے۔
سپریم کورٹ کاوہ تاریخی فیصلہ جس کے ذریعہ بدعنوان اورمجرمانہ کرداررکھنے والے رکن کی رکنیت ختم ہوجاتی تھی ،اس فیصلہ سے ہندستان کے عوام میں ایک امیدجگی تھی، اور انہیں امیدکی ایک کرن دکھائی دی تھی کہ شایداب ہندستان کی سیاست سے بدعنوانی بالکلیہ ختم نہیں توکم توضرورہوگی،اورسیاسی جماعتیں بھی اپنی ذہنیت کوبدلتے ہوئے صاف شفاف لوگوں کوہی امیدواری دے گی،لیکن حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف ایک آرڈیننس لانے کی تیاری کرلی تاکہ اپنے اوراپنی حلیف جماعتوں کے داغدارارکان کی رکنیت کوبچایاجاسکے اوراس آرڈیننس کوصدرجمہوریہ کے پاس دستخط کے لیے بھیج دیا،اگرتجزیہ نگاروں کی مانیں تودراصل یہ آرڈیننس کانگریس کی ۲۰۱۴ء کی حکمت عملی کاایک اہم حصہ ہے،کیوں کہ ایک طرف ان کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کرسی جارہی تھی تودوسری جانب ۳۰؍ستمبرکوہونے والے چارہ گھوٹالہ پرہونے والافیصلہ بھی کانگریس کی نظرکے سامنے ہے جس میں ممکن ہے کہ مستقبل کا ایک اہم حلیف نااہل قراردیدیاجائے،ہندوستانی سیاست اوربدعنوانی کاچولی دامن کا ساتھ ہے اورملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت اس معاملہ میں دودھ کی دھلی نہیں ہے،اگرمجموعی طورپردیکھاجائے توکانگریس۲۱؍فیصد،بی جے پی ۳۱؍فیصد،سماجوادی پارٹی۴۸؍فیصد،بی ایس پی ۳۴؍ فیصد اورجھارکھنڈمکتی مورچہ میں ۸۲؍ فیصد داغی لیڈرہیں،اوراتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ تمام داغی لیڈران ان جماعتوں کے اہم اثاثہ ہیں،اسی لیے اس معاملہ میں ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی صف میں کھڑی رہیں، بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح صرف برائے مخالفت ہلکی سی آوازاٹھائی ،لیکن سب سے بڑادھماکہ خودکانگریس کے نائب صدرراہل گاندھی نے کیااورانہوں نے برجستہ کہاکہ اس آرڈیننس کوپھاڑکرپھینک دیناچاہیے۔راہل گاندھی کایہ قدم خودکانگریس کے لیے بڑادھماکہ دارتھا،جس پریس کانفرنس میں انہوں نے اتناسخت رخ اپناکریہ جملہ کہااسی کانفرنس میں کچھ دیرقبل حکومت کے ایک وزیراس آرڈیننس پرحکومت کادفاع کررہے تھے لیکن راہل گاندھی کایہ بیان آتے ہی سب کی بولتی بندہوگئی۔اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ راہل گاندھی نے جوکچھ کیاوہ کانگریس کی داخلی پالیسی تھی یاپھرراہل گاندھی کاعوام اورمیڈیاکویہ باورکراناتھاکہ وہ عوام اورملک کی بھلائی کے لیے کسی حدتک جاسکتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں اپنے گھراوراپنی حکومت سے ہی نہ کیوں لڑناپڑے،یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گاکہ راہل گاندھی اپنے اس موقف میں کہاں تک کھڑے اترتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب کہ حکومت اپنے اوراپنی حلیف جماعتوں کے داغداروزرااوراراکین پارلیمنٹ واسمبلی کوبچانے کے لیے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے خلاف آرڈیننس لانے کی تیاری کررہی تھی خودحکمراں جماعت کے اہم لیڈرنے اس آرڈیننس کی دھجیاں بکھیرکررکھ دی جس سے اگرایک طرف یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ بدعنوانی کے معاملہ میں سونیا گاندھی اورمنموہن کی نیت بھی درست نہیں ہے وہیں راہل کے اس قدم سے ملک کی عوام بالخصوص نوجوان طبقہ جس کی ایک عرصہ سے بدعنوانی سے پاک سیاست کی مانگ رہی ہے ایک اچھااورمثبت پیغام گیاہے،گرچہ کچھ لوگوں نے راہل کے اس اقدام کوبھی سیاسی چالبازیوں سے تعبیرکیاہے لیکن بہرحال اس قدم کوہمیں ایک مثبت تبدیلی کے طورپردیکھنا چاہیے اوراسے سراہناچاہیے ،ملک کواس وقت ایسے ہی بے باک اورمفادپرستی سے بالاترہوکرکام کرنے والے نوجوان لیڈروں کی ضرورت ہے،جس کی جھلک راہل بریگیڈ میں دیکھائی دیتی ہے کیوں کہ راہل کے اس دھماکہ خیزقدم سے پہلے حکومت کے ایک وزیراورنوجوان پارلیمنٹرین ملنددیورا جسے راہل کاقریبی بھی ماناجاتاہے انہوں نے بھی اس آرڈیننس کی مخالفت کی تھی۔راہل کایہ بیان اتنادھماکہ خیزتھاکہ امریکہ تک اس کی بازگشت سنی گئی اورخودمنموہن سنگھ نے اس آرڈیننس پرغورکرنے کااعلان کیا،حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کابیان ہی کافی ہے اوراگرسیاست کوبدعنوانی سے پاک کرناہے توسپریم کورٹ کے فیصلہ کومانناہوگاتبھی ہم بدعنوانی سے پاک ملک کی تعمیرکرسکیں گے اورایسے تمام سیاستدانوں سے ملک کونجات مل سکے گی جوسزاہونے کے بعدبھی جیل میں رہ کرجیل سے انتخاب لڑتے ہیں۔
سپریم کورٹ کادوسرااہم فیصلہ جس میں ووٹروں کے ذریعہ امیدواروں کومستردکرنے کاحق دیاگیاہے،یہ ایسافیصلہ ہے کہ اس کی وجہ سے بہت سے وہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر اس لیے ووٹ نہیں کرتے تھے کہ انہیں ان میں سے کوئی امیدوارپسندہی نہیں تووہ کیوں اپناوقت ضائع کرے،اس سے کم ازکم وہ لوگ انتخابی مراکزتک آکریہ توکہہ سکیں گے کہ مجھے ان میں سے کوئی پسندنہیں ہے۔ایمرجنسی کے زمانے کے مشہورسیاستداں لوک نائک جے پرکاش نرائن کی تحریک کایہ ایک اہم حصہ تھااوران کی مانگ تھی کہ الیکشن کمیشن بیلٹ پیپر میں ایک خانہ اس کابھی رکھے کہ ’’ان میں سے کوئی نہیں‘‘تاکہ جوعوام ووٹ دے کرکسی کواسمبلی یاپارلیمنٹ تک بھیج سکتی ہے اس کوواپس بلانے کابھی حق حاصل ہو۔اوراس کے لیے انہوں نے ایمرجنسی سے قبل ایک تنظیم بھی بنائی تھی جس کانام ’’پیپلزیونین فارسول لیبرٹیز‘‘تھا،اسی پی یوسی ایل نے۲۰۰۴ء میں مفادعامہ کے تحت سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس میںیہ مطالبہ کیاگیاتھاکہ امیدواروں کومستردکرنے کاحق بھی ووٹرکوملناچاہیے اورسپریم کورٹ نے اسی مفادعامہ کی عرضی پرسماعت کرتے ہوئے ۹؍سال بعدیہ تاریخی فیصلہ سنایا،اگرسپریم کورٹ کایہ فیصلہ نافذکردیاجاتاہے تواس طرح کاقانون بنانے والاہندستان دنیاکا۱۴؍واں ملک ہوجائے گااس سے پہلے اب تک دنیاکے ۱۳؍ملکوں میںیہ قانون نافذہے۔
بہرحال!ملک کی عدالت عظمیٰ کے یہ دوتاریخی فیصلے ملک کی تقدیربدلنے کے لیے بہت حدتک معاون ثابت ہوسکتے ہیں،اگرحکومت اپنے اوردیگرسیاسی جماعتوں کے مفاد کو بالا تر رکھ کرملک کے مفادکوخیال رکھتے ہوئے ان دونوں فیصلوں کوایمانداری کے ساتھ نافذکرنے کی کوشش کرے تویقیناملک ترقی کرے گااورایسے لوگوں کوسیاست میںآنے سے روکا جاسکے گاجن کی شبیہ ایک مجرم کی ہے اورمتعددمجرمانہ معاملات میں وہ قانون کومطلوب ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے جیل میں ہونے کی بجائے ایوان حکومت میں بیٹھ کرمزے لیتے رہتے ہیں اوران کی اس ٹھاٹھ باٹھ کودیکھ کردوسرے مجرمانہ کردارکے حامل لوگوں کوتقویت ملتی ہے اوران حالات کی وجہ سے ملک کاعام طبقہ جواپنے ووٹ کے ذریعہ ان لوگوں کوایوان تک بھیجتاہے یاتوانہوں نے ووٹ کرناہی چھوڑدیایاپھریہ سمجھ کرکہ ہم ووٹ دیںیانہ دین انہیں توکرسی ملنی ہی ہے ،اورایک بڑاطبقہ سیاست سے اس حدتک نالاں ہوچکاہے کہ وہ سیاست کوگندی نالی یاگٹرسے تشبیہ دینے میں ذرہ برابرنہیں ہچکچاتا،تواگرمذکورہ دونوں فیصلوں کونافذکردیاجاتاہے تویقینالوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئے گی اور وہ دن دورنہیں کہ ملک کانوجوان طبقہ سیاست میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے گااوراس طرح بدعنوانیوں سے پاک ایک نیاہندستان دنیاکے نقشہ پرابھرے گا۔ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ ملی جماعتیں اورسماجی کارکنان حکومت پردباؤ بنائے کہ وہ ان دونوں فیصلوں کوہرحال میں نافذکریں۔

«
»

شام پر امریکہ کا حملہ اس وقت ہی کیوں۔۔۔اصول مقصود یا اپنے مفادات؟

گوپال گڑھ کی صبح امن کب آئے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے