سن توسہی…

انہوں نے فوری ردعمل میں بگرام جیل کوبندکرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں پرقید ۸۸کمانڈروں کورہاکرنے کااعلان کرتے ہوئے امریکہ کے اعتراضات کے باوجود بگرام کی جیل میں قید ۶۵شدت پسندوں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا ہے۔امریکہ کا اصرار ہے کہ یہ سب خطرناک مجرم ہیں جبکہ افغانستان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کافی ثبوت موجود نہیں۔ امریکی حکام چاہتے ہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے تاہم افغان حکومت کا خیال ہے کہ اگر یہ جیل میں رہتے ہیں تو دیگر قیدیوں کو شدت پسندی کی جانب مائل کر سکتے ہیں۔گذشتہ ماہ کے آغاز میں افغان صدر حامد کرزئی کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کی جانب سے سکیورٹی خطرہ قرار دیے جانے والے ایسے ۷۲ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا جن کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ثبوت کافی نہیں ہیں۔ 
حامد کرزئی کے امریکاکے خلاف کھل کرسامنے آنے کے بعدطالبان اورحزب اسلامی نے کرزئی کے خلاف اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیداکرناشروع کردی ہے۔طالبان اورحزب اسلامی کے دواعلیٰ رہنماؤں نے جومشرقی افغانستان میں اس وقت امریکاکے خلاف کمانڈکررہے ہیں،نے کہاکاش کرزئی یہ کام پانچ سال پہلے کرلیتے توآج افغانستان کانقشہ ہی تبدیل ہوتااوروہ افغانستان کے مستقل حکمران ہوتے لیکن اس وقت کرزئی نے امریکی اورغیرملکیوں کے لالچ اوردباؤ میںآکرخودکودھوکہ دیا،اب بھی ہم کرزئی کے عزم کوسراہتے ہیں۔ کرزئی کی جانب سے ان قیدیوں کی رہائی کے اعلان کے بعد امریکانے کرزئی کومتنبہ کیاہے کہ ان طالبان کمانڈروں کی رہائی سے امریکاکی سلامتی کوشدیدخطرہ ہے تاہم کرزئی نے کہاہے کہ بگرام جیل طالبان بنانے کی فیکٹری ہے ،اس لئے وہ اس فیکٹری کوبندکرناچاہتے ہیں اوروہ طالبان اوردیگرمزاحمت کاروں کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کیلئے بات چیت شروع کرناچاہتے ہیں۔یادرہے کہ طالبان نے مذاکرات کیلئے بگرام جیل سے اپنے تمام کمانڈروں کی رہائی کامطالبہ کیاتھا۔
حال ہی میں کرزئی نے امریکاکی جانب سے اس دہمکی کے بعدکہ اگرانہوں نے دستخط نہیں کئے توامریکاافغانستان سے چلاجائے گاکرزئی نے کہاکہ امریکاجب چاہے جاسکتاہے ، افغانستان کوامریکاکی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ افغانستان امریکاکے بغیربھی قائم ودائم رہے گا۔کرزئی نے گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک معروف اخبارکواپنے انٹرویومیں امریکا کی اپنے ملک میں موجودگی کوافغانستان کیلئے خطرناک قراردیااورپہلی بارکہاکہ امریکانے یہاں اپنے مفادات کیلئے کام کیاہے جبکہ افغان عوام کوبے یارومددگارچھوڑدیا۔فوج اورپولیس کی تربیت کی بجائے قبائلی لشکرتشکیل دیئے جس سے بدامنی اورڈکیٹیوں کوفروغ ملااورافغانوں پرایک نفسیاتی جنگ مسلط کی گئی۔انہوں نے کہاکہ طالبان اوردیگرمزاحمت کارافغان ان کے بھائی ہیں۔وہ گزشتہ بارہ سال سے امریکاکویہ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے کہ لوگوں کے ساتھ اچھابرتاؤ کیاجائے لیکن امریکانے یہ سب کچھ نہیں ہونے دیااور افغانوں پرایسی جنگ مسلط کی کہ افغانوں نے اپنی ساری دولت بیرونِ ملک منتقل کردی۔امریکانے افغانستان میں صرف اپنے ایجنٹوں کوپروان چڑھایااورباقی آبادی کومحرومی اورغصے میں چھوڑدیا۔
انہوں نے پہلی مرتبہ انکشاف کیاکہ برطانیہ نے افغانستان اورپاکستان کے درمیان تعلقات بہتربنانے میں مددکی جبکہ مغربی ممالک اورامریکاپاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرتے رہے جس سے افغانستان کوشدیدنقصان ہوا۔انہوں نے کہاکہ افغانوں کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے اورافغان غیریقینی صورتحال کی بجائے غربت میں زندگی گزارنے کوترجیح دے رہے ہیں۔حامدکرزئی کاکہناتھاکہ روس کے خلاف بھی افغان عوام نے غربت میں زندگی گزارکرکسی کی دولت کی پرواہ نہیں کی ۔کابل کے اہم تجزیہ نگارکایہ کہنا ہے کہ کرزئی کاامریکاپرغصے کابنیادی مقصدان کے بھائی قیوم کرزئی کی مددنہ کرناہے کیونکہ کرزئی چاہتے تھے کہ امریکاان کے بھائی قیوم کرزئی کوصدربنانے میں مددکرے جبکہ امریکاچاہتاہے کہ کرزئی پہلے معاہدے پردستخط کریں تاکہ آئندہ صدرکیلئے قومی سطح پرکوئی مشکلات نہ ہوں۔
امریکاایک تیرسے دوشکارچاہتاہے کہ کرزئی دستخط کردیں تاکہ آئندہ منتخب صدرکیلئے مقامی طورپر مشکلات ختم کی جائیں اورکرزئی آخری وقت میں یہ بدنامی اپنے سرلینے کوتیارنہیں کیونکہ اس وقت امریکاسابق وزیرتعلیم اشرف غنی احمدزئی کی کھل کرحمائت کررہاہے اورکابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بارہ صدارتی امیدواروں میں اصل مقابلہ اس وقت اشرف غنی احمدزئی اورسابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہے اورامریکاکی کوشش ہے کہ اشرف غنی کوکامیاب بنائے جبکہ افغان صدرچاہتے ہیں کہ ان کے بھائی قیوم کرزئی کی پوزیشن اس وقت انتہائی کمزورہے اوران کے اپنے قبیلے کے بیشترافرادبھی ان سے ناراض ہیں تاہم اگرافغان صدرامریکی تحفظات کے باوجود۸۸طالبان کورہاکرنے کے بعدطالبان اورحزبِ اسلامی کوساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے توان کے بھائی قیوم کرزئی کی کامیابی یقینی ہے دوسری جانب عبداللہ عبداللہ اس وقت خودکوبھارت سے دوررکھ رہے ہیں اوروہ ایرانی دوستوں کے ذریعے پاکستان سے بہترتعلقات استوارکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ پاکستان کوزیادہ سے زیادہ سہولیات دینے کیلئے رضامنددکھائی دے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق عبداللہ عبداللہ نے اپنے قریبی دوستوں کوبتایاہے کہ اگروہ کامیاب ہو گئے اورپاکستان نے ان کی مددکی تووہ افغانستان میں بیٹھے ہوئے بلوچ لبریشن آرمی کے لوگوں کوپاکستان کے حوالے کردیں گے کیونکہ عبداللہ عبداللہ کی بلوچستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اشرف غنی ایسانہیں کرسکتے ہیں کیونکہ احمدزئی قبائل کی بلوچستان میں دلچسپی ہے تاہم امریکاکی کوشش ہے کہ وہ اشرف غنی کوکسی نہ کسی طرح کامیاب بنائے تاہم بعض ذرائع کے مطابق حامدکرزئی قبائلی سرداروں کے ذیعے ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ اگرطالبان اورحزبِ اسلامی نے ان کے بھائی کوکامیاب بنانے میں ان کی مددکی تووہ طالبان اورحزبِ اسلامی کے ساتھ ایک بڑے معاہدے کیلئے تیارہیں تاہم اس حوالے سے ابھی تک کرزئی کوکوئی مثبت جواب نہیں ملاہے۔
دوسری جانب ایک معروف بین الاقوامی نشریاتی ادارے کونیٹوکے سیکرٹری جنرل( Anders Fogh Rasmussen) فوراسموسن نے کہاہے کہ’’ حامدکرزئی امریکاکے ساتھ معاہدہ پردستخط نہ کرکے آگ سے کھیل رہے ہیں۔ نیٹوکی اتنی قربانیوں کے بعدہمیں افغان حکومت سے تشکرکی امیدتھی لیکن کرزئی نے سب امیدوں پرپانی پھیردیاہے۔ انہیں امیدہے کہ اب نئے صدرہی معاہدے پردستخط کریں گے۔ حامدکرزئی نے ان ہزاروں فوجیوں جنہوں نے قربانیاں دی ہیں ان کے خاندانوں کودکھ پہنچایاہے اوروہ ہزاروں فوجی جواس وقت افغانستان میں ہیں،ان کوکرزئی کے بیانات سے سخت دکھ پہنچاہے‘‘۔ 
کیانیٹوکے سیکرٹری جنرل کوان لاکھوں شہداء کے خاندانوں کے جذبات کاکچھ بھی احساس ہے جن کونیٹو اورامریکانے انسانیت سوزبمباری میں صفحۂ ہستی سے مٹادیاجوآج یہ اپنے ہی پروردہ کرزئی سے یہ گلہ کررہے ہیں؟
سن توسہی جہاں میں ہے ترافسانہ کیا کہتے ہیں تجھے کوخلقِ خداغائبانہ کیا؟ 

«
»

ایک تھا بادشاہ

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے