این پی آر: این آر سی کی جانب ایک اور قدم

سہیل انجم

حکومت کی جانب سے جس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں اور جو فیصلے کیے جا رہے ہیں ان کے پیش نظر ایسا محسو ہوتا ہے کہ حکومت ملک گیر این آر سی کے فیصلے پر اٹل ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں وہ تادم تحریر حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کرنے میں ناکام ہیں۔ بلکہ مظاہرین کے تعلق سے اس نے جس رویے کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ حکومت اپنے فیصلے پر اور مضبوطی سے قائم ہو گئی ہے۔ ملک گیر ہنگاموں کے درمیان ہی میں این پی آر کے سلسلے میں کابینہ کے فیصلے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اس نے ابھی تک ہوش کے ناخن نہیں لیے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ عارضی مظاہرے ہیں اور ان کو سختی سے کچلا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس نے دیکھ لیا کہ گزشتہ جمعہ کو ہونے والے تشدد اور پولیس کی زیادتی کے باوجود لوگوں کا عزم متزلزل نہیں ہوا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اب بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ طلبہ اب بھی سڑکوں پر ہیں۔ نئی دہلی میں کالندی کنج کے پاس شاہین باغ میں خواتین اور بچیاں اب بھی رات کو فور لین ہائی وے پر بیٹھی رہتی ہیں۔ رات بھر تقریروں اور دیگر پروگراموں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تیرہ دسمبر کو جو سلسلہ شروع ہواتھا وہ ابھی بھی تھما نہیں ہے۔ وہاں بھی طلبہ اکٹھا ہو کر پورے دن احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے علاوہ جادھوپور یونیورسٹی کلکتہ سمیت دیگر شہروں کی یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ جادھوپور یونیورسٹی کے طلبہ نے تو ریاستی گورنر جگدیپ دھنکھڑ کو یونیورسٹی کے چانسلر کے منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چانسلر غیر جانبدار اور غیر متعصب نہیں رہ سکے اس لیے یونیورسٹی میں ان کا استقبال نہیں ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاج بھی جاری ہے۔ بلکہ اب تو وہاں کے اساتذہ نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ایک دستخطی مہم شروع کر دی ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کا یومیہ احتجاج بھی جاری ہے۔ غرضیکہ جو چنگاری جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھی تھی وہ شعلہ بن کر پورے ملک میں پھیل گئی ہے اور آثار ایسے ہیں کہ یہ سلسلہ اس وقت تک بند ہونے والا نہیں ہے جب تک کہ حکومت اپنے قدم واپس نہیں کھینچ لیتی۔ 
لیکن کیا حکومت اپنے قدم واپس کھینچ لے گی، اس کا امکان سردست دور دور تک نظر نہیں آتا۔ البہ بیانوں کی مدد سے اس آگ کو بجھانے کی ناکام کوشش ضرور کی جا رہی ہے۔ اسی درمیان حکومت نے این پی آر لانے کا اعلان کر دیا ہے۔ این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر یعنی شہریوں کا قومی رجسٹر۔ اس مہم کے دوران پورے ملک میں گھر گھر جا کر شہریوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی۔ یہ پوچھا جائے گا کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے کس پتے پر رہ رہے ہیں اور آئندہ چھ ماہ تک کہاں رہیں گے۔ اس میں کوئی کاغذ کوئی دستاویز اور کوئی ثبوت نہیں مانگا جائے گا۔ شہری جو اطلاعات فراہم کریں گے وہ درج کی جائیں گی۔ لیکن اس میں ایک ایسی چیز بھی مانگی جائے گی جو بہت سے لوگ نہیں بتا پائیں گے۔ یعنی والدین کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش۔ جائے پیدائش تو لوگ بتا دیں گے لیکن گاو ¿ں دیہات کے لوگ یا شہروں میں رہنے والے وہ لوگ جن کے والدین گاو ¿ں میں پیدا ہوئے، جو کسی اسکول کالج نہیں گئے، جن کے پاس جنم پتری نہیں ہے وہ کیسے اپنے والدین کی تاریخ پیدائش بتا سکیں گے۔ تاریخ پیدائش آگے چل کر این آر سی میں کام آئے گی۔ یہی بات باعث تشویش ہے۔ پچھلے این پی آر کے مقابلے میں جو اضافی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں: آدھار نمبر (اسے دینا یا نہ دینا شہری کے اوپر ہے یعنی یہ لازمی نہیں ہے)۔ موبائل نمبر، اس سے قبل آپ کہاں رہائش پذیر تھے، پاسپورٹ نمبر اگر ہے تو، پین نمبر اور ڈرائیونگ لائسنس نمبر اگر ہے تو۔ 
وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر نے کہا ہے کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کم از کم 9 مرتبہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ این پی آر این آر سی کا پہلا قدم ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ این پی آر کرنے کا فیصلہ یو پی اے حکومت کا تھا اور یہ اچھا فیصلہ تھا اس لیے ہم اسے لاگو کر رہے ہیں۔ امت شاہ کا کہنا ہے کہ اس کااعلان یو پی اے حکومت نے کیا تھا ہم اسی کو کر رہے ہیں تو اس پر ہنگامہ کیوں برپا کیا جا رہا ہے۔ در اصل یو پی اے اور بی جے پی کی حکومتوں میں فرق ہے۔ یو پی اے حکومت نے اگر این پی آر لانے کا اعلان کیا تھا تو اس نے این آر سی لانے کو نہیں کہا تھا اور نہ ہی یہ کہا تھا کہ این پی آر این آر سی کا پہلا قدم ہے۔ جبکہ بی جے پی حکومت نے 9 مرتبہ اس کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ملک گیر این آر سی کرانے کے فیصلے پر قائم ہے۔ اس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ سڑکوں پر نکلیں اور احتجاج کریں۔ ان احتجاوں میں اب تک 25 افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔
اب آئیے وزیر اعظم کے ایک بیان کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ انھوں نے اتوار کے روز دہلی کے رام لیلا میدان میں بی جے پی کی ایک ریلی میں بولتے ہوئے علیٰ الاعلان کہا کہ 2014 میں ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے این آر سی پر کوئی گفتگو ہی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن عوام کو یہ کہہ کر ڈرا رہا ہے کہ انھیں ڈٹینشن سینٹر یعنی حراستی مراکز میں ڈال دیا جائے گا جبکہ ملک میں کوئی ڈٹینشن سینٹر ہے ہی نہیں۔ ان کی یہ دونوں باتیں گمراہ کن ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ بی جے پی کے رہنما اور وزرا تک این آر سی کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ گفتگو اس پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کی ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی ریلیوں میں بار بار کہا ہے کہ پورے ملک میں این آر سی لایا جائے گا اور دراندازوں کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے گا۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں بھی یہی بات دوہرائی۔ جب شہریت ترمیمی بل پیش کیا گیا تو انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ بات مان کر چلیے کہ این آر سی آنے والا ہے۔ این آر سی پورے ملک میں لاگو ہو کر رہے گا۔ اس سے قبل انھوں نے میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ کرونولوجی سمجھ لیجیے۔ پہلے سی اے بی آئے گا پھر این آر سی آئے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان میں صدر کے خطبہ میں بھی یہ بات کہلوائی کہ میری حکومت این آر سی نافذ کرے گی۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی انتخابی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ این آر سی لاگو کیا جائے گا اور ہر غیر ملکی کو نکال باہر کیا جائے گا۔ لیکن وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ این آر سی پر کوئی گفتگو ہی نہیں ہوئی ہے۔ اب وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی بات بالکل درست ہے۔ این آر سی پی کابینہ میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ کابینہ میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی لیکن حکومت تو بار بار این آر سی کی بات کر رہی ہے۔ اس کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ 
جہاں تک ڈٹینشن سینٹر کی بات ہے تو اس بارے میں بھی وزیر اعظم نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا سینٹر ہے ہی نہیں۔ جبکہ ان کے بیان کے دو روز بعد ہی کرناٹک میں بنگلور سے چالیس کلومیٹر دور نیلا منگلا میں ڈٹینشن سینٹر تیار ہونے کی خبر آئی ہے۔ کرناٹک کے سماجی فلاح و بہبود محکمہ کے کمشنر آر ایس پیدا پیا نے اخبار ٹائمس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سینٹر کھول دیا ہے اور وہ غیر قانونی تارکین وطن کے رہنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ حکومت نے اسے جنوری میں کھولنے کا پلان بنایا تھا لیکن دسمبر ہی میں اسے کھول دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ریاستی حکومت نے کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ہم غیر قانونی تارکین وطن کے لیے 35 ڈٹینشن سینٹر کھولنے جا رہے ہیں۔ ادھر آسام میں کئی ڈٹینشن سینٹر موجود ہیں۔ جن میں غیر قانونی تارکین وطن کو رکھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے ایک اسٹوری کی تھی جس میں ان مراکز میں اذیت ناک زندگی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ وزارت داخلہ نے 2018 میں حراستی مراکز کے قیام کے لیے 46.41 کروڑ روپے منظور کیا تھا۔ آسام کے گوال پاڑہ سینٹرل جیل میں ایک ڈٹینشن سینٹر بنایا گیا ہے۔ سابق فوجی ثناء اللہ کو اسی میں رکھا گیا تھا جنھیں بعد میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔ اس طرح وزیر اعظم نے حراستی مراکز کے بارے میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔(یو این این) 

«
»

جے این یو میں جنگلی ظلم کا ننگا ناچ

سیاسی طنزیہ: جانے کہاں گئے وہ دن؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے