محمدصابرحسین ندوی حکومت کی منشاء صاف ہے، اس نے تعلیمی بجٹ گھٹایا، یونیورسٹیز کو نشانے پر لیتے ہوئے طلبہ کو اینٹی نیشنل قرار دیا، اربن نکسل اور دہشت گرد بتایا، ملک کا غدار اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے مخاطب کیا، ان کی حیثیت خراب کر کے معاشرے کا گرد بتلایا، اکثر و بیشتر کالجز اور […]
حکومت کی منشاء صاف ہے، اس نے تعلیمی بجٹ گھٹایا، یونیورسٹیز کو نشانے پر لیتے ہوئے طلبہ کو اینٹی نیشنل قرار دیا، اربن نکسل اور دہشت گرد بتایا، ملک کا غدار اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے مخاطب کیا، ان کی حیثیت خراب کر کے معاشرے کا گرد بتلایا، اکثر و بیشتر کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس دو گنی کر دی گئی، بجٹ ایسا کردیا گیا کہ اسی قدر میں بیرون ممالک تعلیم حاصل کیا جانا ممکن ہے، اب ہوتا یہ ہے کہ ہندوستان کے سب سے زیادہ طلبہ بیرون ممالک پڑھنے جاتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے؛ کہ وہ عالی اذہان وہیں پر ہی مقیم ہوجاتے ہیں، وہ دوبارہ ہندوستان واپس نہیں آتے، ہندوستانی پبلک کے ٹیکس اور سبسڈی سے پڑھنے کے باوجود ان کی تحقیقات دوسروں کی جاگیر بن جاتی ہیں، ان میں بہت سے NRI ہوجاتے ہیں، اور پھر ملک کی کسک، کرپشن اور بے چینی میں جیتے ہیں، مشورے دیتے ہیں؛ لیکن کچھ نہیں ہوسکتا، اب عالم اس سے بھی زیادہ پر خطر ہے، تمام تعلیم گاہین زد پر ہیں، جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ صرف JNU اور عمر خالد، کنہیا کمار کا مسئلہ ہے، تو انہوں نے دیکھ لیا؛ کہ ایسا نہیں ہے۔ دوسرے مرحلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کو آڑے ہاتھ لیا گیا، اور یہ تاثر دیا گیا کہ وہ خاص نظریات کے لوگ ہیں، تب بہت سے لوگ خموش رہے؛ مگر اب تو JNU میں کھلے عام آگ پہونچ چکی ہے، بلکہ ملک کے ساڑھے سات ہزار سے زائد یونیورسٹیز میں بے چینی کی فضا بنی ہوئی ہے، سبھی classless ہوگئے ہیں، پرائیوٹ انسٹی ٹیوٹس کو چھوڑئے_! وے تو اپنا لائسنس بچانے میں لگے ہوئے ہیں، ان کے علاوہ سبھی اپنے حقوق کی مانگ کر رہے ہیں، سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا ساتھ نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک کی یونیورسٹیز بھی دے رہی ہیں، دیس کی صف اول ان کے ساتھ ہے، بیان بازیوں کا دور ہے، عوام میں تعلیم یافتہ طبقہ اور حکومت آمنے سامنے ہے، مگر سوچنے کی بات یہ ہے؛ کہ یہ تحریکیں کب تک کام کریں گی، ایک طالب علم اگر کلاس سے باہر رہے تو آخر کب تک_؟ تعلیم کو اگر سیاست سے دور کردیا جائے تب بھی بے معنی ہے، نیز صرف سیاست ہی رہ جائے اور تعلیم ندارد ہوجائے تو بھی لایعنی ہے، دماغ روشن کرنا ہے تو تعلیم کی بھی ضرورت ہے، فی الوقت یوپی، دہلی، ممبئی، آسام، بنگال اور بینگلور وغیرہ جیسے شہروں کے نامور ادارے بند ہیں، ایسے میں یہ سوال بنتا ہے؛ کہ آخر یہ بے قراری اور طلباء کی یہ بے کیفی کیسے دور ہو اور اس کا کیا انجام ہو_؟ اگر یونہی افرا تفری قائم رہی تو یقینا حکومت کی فاشزم سوچ ان پر حاوی ہوجائے گی، کیونکہ حکومت کا زور اور ABVP کی اکثریت سے یہی خطرہ ہے، ایسے میں اس کا انجام ایسا ہوگا، جس پر رونا آئے گا، سبھی کو یاد ہوگا کہ ستر کی دہائی میں JP آندولن کی کامیابی کا راز یہ بھی تھا؛ کہ وہ تحریک منظم تھی، اور سبھی ایک لیڈر کی قیادت میں آگے بڑھ رہے تھے، نیز ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے؛ کہ لگ بھگ ہر سرکار ایک جیسی ہی ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کے زمانے میں طلباء کی حالت بہت اچھی تھی، یا ملک کی کیفیت بہت اعلی تھی_! اب یہ مان بھی لیا جائے کہ رواں حکومت گر جائے گی تو کیا ہوگا_؟ پھر وہی کشتی کے کھنویا بدل جائیں گے، یا پتوار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں آجائے گی___ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے؛ کہ طلباء کی تحریک کو منظم کیا جائے، منتشر احتجاجات کو تقویت پہونچائی جائے، اور یہ یقینی بنایا جائے کہ ان پر کسی قسم کا تشدد نہ ہو، ان کے اوپر غنڈوں کی غنڈہ گردی اور پولس کی وحشتیں نہ ٹوٹ پڑیں۔ نیز اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاست میں ایک نام پیدا کریں، ایک نیا لیڈرشپ عوام کو دیں، یہ وقت بہت اہم ہے، تحریکات بدل رہی ہیں، ہواوں کا رخ کچھ اور ہی ہے؛ چنانچہ کیا ہی بہتر ہو کہ فروری/۲۰۲۰_ دہلی کے انتخابات میں طلباء ایک اہم کردار ادا کریں، وہ سیاست کے گلیاروں میں اتر کر کام کریں اور تعلیم یافتہ رہنماؤں کیلئے کمپیننگ کریں، اس چناو میں وقت کم ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اس میں زیادہ کچھ کرنے کا موقع نہ ملے؛ لیکن اس کی شروعات پٹنہ یونیورسٹی سے بھی کی جاسکتی ہے، اس سال کے اخیر میں صوبہ بہار میں چناو ہونا ہے، اور وہاں کے طلباء بھی بالخصوص پٹنہ یونیورسٹی کے جیالے جامعہ ملیہ_ اور جے این یو کی راہ پر گامزن ہیں_ اگر انہوں نے مورچہ سنبھال لیا تو جان لیجئے_! یہ ملک ایک نئی راہ پائے گا، سیاست بدل جائے گی، کرپشن پر کنٹرول ہوگا، تعلیم یافتہ افراد کی کھیپ نکلے گی، اور معیشت و معاشرت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت بھی یقینی ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر سال اسٹوڈنٹس کی تحریکیں اٹھتی ہیں، موقع بہ موقع سیاست کے گلیاروں میں گرمی پیدا کرتی ہیں، ان کے جوش اور ولولے کے آگے پورا ہندوستانی سیاست جھکنے لگتا ہے، ایسا لگنے لگتا ہے کہ اب ایک نئی قیادت جنم لے گی، اب ایک نیا سورج نکلے گا اور ہندوستان کی کرپٹ سیاست پر یقین و اعتماد کی شعاعیں بکھیر جائے گا؛ لیکن ہوتا کیا ہے _؟ وہ سب کسی حباب کی طرح اٹھتے ہیں اور لمحہ دو لمحہ میں گم ہوجاتے ہیں، یاد کیجئے_! JNU میں جب دہشت گردانہ سلوگن کیلئے کنہیما کمار، عمر خالد اور شہلا راشد کو منظر عام پر دیکھا گیا تھا، تو اس وقت یہ محسوس کیا جا سکتا تھا کہ ان کے ایک ایک نعرے کے سامنے حکومت وقت کی نیند حرام ہونے لگتی تھی، حکمراں طبقہ اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ ویڈیوز ایڈٹ کروائی، اور نیوز چینلز نے ایک ملمع کھڑا کردیا تھا، مگر جیسے ہی وہ یونیورسٹی کے حزب الطلبہ کی صدارت سے اپنی میعاد پوری کرکے مستعفی ہوئے، ان کا وجود گرد آلود ہوگیا، عمر خالد کورٹ کچہری میں پھنسا دئے گئے، شہلا راشد اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئیں، یہاں تک کشمیر کے ساتھ کچھ ہوا وہ کچھ نہ کر سکیں، کوئی تحریک یا کوئی آندولن تک انجام نہ دے سکیں، اب صرف ٹویٹر پر ٹویٹ کرتی ہیں، اور ملک کے ایوان کو ہلادینے اور فاشزم کے خلاف فتح پالینے کا خواب دیکھتی ہیں۔ رہ گئے کنہیما کمار تو انہوں نے اسی سیاست کو گلے لگا لیا اور لیفٹ کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے بہار کے بیگو سرائے سے راجیہ سبھا کیلئے کھڑے ہوگئے، نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست نے انہیں محدود کردیا، وہ بھی منتخب عناوین پر بولنے لگے، پھر ان کی شکست نے مزید انہیں کمزور کردیا، چنانچہ کل تک جن کی پہونچ بلاواسطہ حکومت تک تھی، اب وہی اجازت نامے کے بغیر کسی سے مل نہیں سکتے اور یاد کیجئےکہ انا ہزارے آندولن کے بارے میں کیا خاص تھا؟ جس کی وجہ سے ایسا لگتا تھا کہ پھر سے ہندوستان گاندھی وادی بن جائے گا، ایک نیا گاندھی پیدا ہوگیا ہے؛ ان کا ساتھ دینے والے اکثر و بیشتر اسٹوڈنٹس ہی تو تھے، سب کہاں چلے گئے، وہ دہلی کی سیاست میں گم ہوگئے، اقتدار کی خواہش میں چور ہوگئے، اور اتنے مگن ہوگئے کہ موجودہ مسئلہ پر زبان تک نہیں کھلتی، کسی احتجاج میں بھی نہیں جاتے، بلکہ صرف انتخاباتی ریلیاں اور انٹرویوز کر رہے ہیں۔ ہاردک پٹیل کو بھی مت بھولئے! انہوں نے پٹیل آندولن کے ذریعہ ملک میں ایک نئی لہرا پیدا کردی تھی؛ لیکن کیا ہوا؟ سیاست کے جال میں ایسے پھنسائے گئے کہ وہ خود کی خیر مانگنے لگے! جگنیش میوانی بھی اب کہاں ہیں، چندر شیکھر آزاد بھی سیاست کا حصہ ہوچکے ہیں، آئے دن وہ جیل میں بند رہتے ہیں، ان کی کوئی پالیسی نہیں، کوئی اسٹریٹیجی نہیں، چنانچہ ہمیشہ غلط رویہ اور غلط قدم کی وجہ سے دھڑ لئے جاتے ہیں۔ کس کس کا تذکرہ کیا جائے؟ ہر کسی تحریک کی یہی صورت ہے، اب بھی اگر اسٹوڈنٹس باہر ہیں، احتجاجات کر رہے ہیں اور سینکڑوں نام ابھر کر آرہےہیں؛ لیکن کیا ضمانت ہے کہ یہ بھی خود کو برقرار رکھ پائیں گے، ان کے سامنے اتنے زیادہ ایشوز کھول کر کھ دئے گئے ہیں؛ کہ ایک معاملہ سے نکلیں گے تو دوسرا سنجیدہ معاملہ منہ پھاڑے کھڑا ہوگا، جس میں وہ اسی میں الجھ کر رہ جائیں گے اور دوسری جانب سیاست پر قابض حکمران اپنا کھیل کھیلتے جائیں گے، کرسی اور پاور کے ساتھ ملک کو اپنے اشاروں پر نچاتے جائیں گے۔ ذرا اندازہ لگائیے! دہلی میں اگلے مہینہ چناو ہے، چنانچہ بورڈ کے امتحانات اس سے قبل کرانے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ وہ بھی سیاست کیلئے استعمال نہ ہوجائیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وہ ابھی بارہویں کر بھی لیں تو کہاں جائیں گے_؟ تقریبا تین کڑور طلباء جو اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کیلئے کونسی راہ کھلی ہے، یونیورسٹیز میں بے چینی ہے، تعلیم نہیں، فیس مہنگی ہوگئی ہے، اور اگر تعلیم پا بھی لیں تو کیا کر لیں گے_؟ نوکریاں ہے نہیں، خود سرکاری شرح کے مطابق پچھلے چالیس سال میں سب سے زیا نوکری کی کمی ہوئی ہے، بلکہ دو کڑور نوکریاں چلی گئی ہیں، GDP گروتھ اور بھی گر گئی ہے، تازہ ترین شرح پانچ فیصد ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہےکہ دیش کی چھوٹی موٹی اور محدود دائرے کی لڑائی لڑی جائے، اور پھر اس سے نکل کر سیاست کا تر نوالہ بن جایا جائے یا پھر ملک گیر سیاست کو متاثر کیا جائے_ جی ہاں_! اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے؛ کہ سیاست کو قابو میں کیا جائے، تعلیم یافتہ افراد بغیر کسی سیاسی پارٹی سے جڑے بغیر عوام سے جڑیں اور آئندہ انتخابات میں خود کو کھڑا کریں؛ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر موثر یونیورسٹی اپنے علاقے میں ایک متحرک نوجوان کو سامنے لائے، اس علاقے کو ایک امیدوار دے، دہلی کا میدان بھی ہے؛ لیکن اس سے بڑا میدان بہار کا ہے، ویسے بھی وہاں کی یونیورسٹیز میں ایک خاص پیٹرن جاری ہے، انتخابات میں بھی وقت ہے، پٹنہ یونیورسٹی، نالندہ یونیورسٹی، بودھ گیا یونیورسٹی، مگدھ یونیورسٹی، بھوپیندر نارائن یونیورسٹی وغیرہ اہم کردار نبھا سکتے ہیں، اس کے علاوہ بنگال بھی ایک بڑا تجربہ گاہ بن سکتا ہے، وقت ہے کہ اس نہج پر کام کیا جائے، یہ پروسیس ملک کی حفاظت اور آئین کی سالمیت کا ضامن بنے گا، ورنہ صرف بھیڑ رہ جائے گی، نام نکلیں گے اور بہتی رو میں ضم ہوجائیں گے، وہ سب ایک خاص سیاست اور جماعت کا حصہ ہو کر وہی سب کرنے لگیں گے، جن کا ہمیں شکوہ ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں