ہمت و استقلال کی یہ انتہا تھی کہ ان کے سردار طارق بن زیاد نے جہازوں کو آگ لگانے کا حکم دیا تھا تاکہ اس کا ہر ماتحت سمجھ لے کہ زندہ رہنے کی بس ایک صورت ہے جیت اور مفتوح ہونے کی صورت میں ان کے لئے موت مقدر ہوگی۔ ایمان ویقین کے اسی ہتھیار نے انھیں کامیابی بھی دلائی اور ان مسافروں کی اولاد نے اس ملک پر صدیوں تک راج کیا۔ ان غریب الوطنوں کی اولوالعزمی کا لائنز راک آج بھی گواہ ہے جسے اب جبل الطارق(جبرالٹر) کہا جاتا ہے۔
اسپین میں مسلمانوں کا دور اول
افریقہ کے قریب ترین یوروپی خطے اسپین، ہسپانیہ یا اندلس کے اندر جب مسلمانوں نے قدم رکھا تو دمشق میں اموی خلافت قائم تھی اور خلیفہ ولید بن عبدالملک کا زمانہ تھا۔آگے آگے بربری فاتح ومراکو کی اسلامی فوج کا سپہ سالار طارق بن زیادتھا اور پیچھے پیچھے اس کی مدد کے لئے افریقہ کا گورنر موسیٰ بن نصیر تھا۔کل دس ہزار افریقیوں اورچند عربوں پر مشتمل اس فوج نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جو یوروپ میں پہلی اسلامی حکومت تھی اور جس نے مغرب کو علم و ہنر کی ایسی روشنی سے ہم کنار کیا جو یوروپ میں علمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اسلامی حکمرانوں نے اس ملک کی عیسائی رعایا کو لکھ کر دیا کہ ان کی جان ومال اور مذہب کے لئے امان ہے۔ وہ اپنے طریقے پر زندگی گذارنے کے لئے آزاد ہیں اور ان کے مذہبی مقامات، مذہبی دستورکے اوپر کسی بھی قسم کی دست اندازی نہیں کی جائے گی۔ دونوں عظیم فاتح جنھوں نے مغرب کی ظلمت ضلالت میں ایمان و یقین کی شمع روشن کی تھی ان کے ساتھ کوئی اچھا برتاؤ تو نہیں کیا گیا مگر موسیٰ بن نصیر کی اولاد یہاں حکمراں ہوئی اور فتح و کامرانی کے پرچم اس نے فرانس تک میں لہرائے۔ یہ سلسلہ تقریباً پچاس سال تک چلا یہاں تک کہ مرکز میں سرکار بدل گئی اور بنو امیہ کی جگہ بنو عباس کا اقتدار قائم ہوگیا اور سابق حکمراں طبقے پر زمین تنگ ہونے لگی۔
اسپین کا حکمراں طبقہ عرب یا افریقہ سے تعلق رکھتا تھا اور مسلمان تھا جب کہ رعایا عیسائی تھی اور یوروپین تھی۔دونوں کی تہذیب اور زبان میں آسمان و زمین کا فرق تھا مگر حکمراں مسلمانوں نے رعایا کو خود سے الگ نہیں سمجھا اور ان کے ساتھ نہ صرف میل ملاپ رکھا بلکہ رشتہ داریاں بھی کیں۔ اسلام نے اہل کتاب خواتین کے ساتھ شادی کی اجازت دی ہے اور اس کا فائدہ مسلمانوں نے اٹھایا۔ اس کا اثریہ ہوا کہ حاکم و محکوم کا فرق مٹنے لگا اور یہاں ایک ایسی نسل پیدا ہونے لگی جو یوروپ و ایشیا اورافریقہ کی مخلوط نسل سے تھی۔مسلمانوں سے اختلاط کی وجہ سے یہاں اسلام کی اشاعت بھی شروع ہوگئی۔ مسلمانوں نے یہاں کی تہذیب پر اثر ڈالا اور یہاں کی ثقافت کا رنگ قبول کیا۔ اس خطۂ زمین کو سرسبز وشاداب کرنے اور یہاں عمارتیں بنوانے کا کام شروع کیا۔ علم و ہنر کی اشاعت کا آغاز ہوا اور اہل علم کی قدر افزائی کی گئی۔
خلافت کا قیام
مرکز میں خلافت کی تبدیلی کا اثر اسپین پر بھی پڑا اور یہاں بھی بنی امیہ کے لوگوں کے لئے کچھ مشکلات درپیش آئیں جن پر قابو پالیا گیا۔اس بیچ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک نوجوان اموی شہزادہ عبدالرحمٰن بن معاویہ بن ہشام بن عبدالملک بن مروان بن حکم کسی طرح ملک شام سے اپنی جان بچاکر بھاگااور افریقہ میں پناہ گزیں ہوا۔ وہ یہاں کئی سال تک چھپتا چھپاتا رہا اورافریقہ میں اپنی حکومت قائم کرنے کی خفیہ کوششوں میں مصروف رہا۔ اسے یہاں کے بعض بربر قبائلیوں کی حمایت بھی اس لئے حاصل ہوگئی کہ عبدالرحمٰن کی ماں کا تعلق کسی بر برافریقی قبیلے سے تھا۔ اسی حالت میں کئی سال گزر گئے اور اسے اپنے ارادے میں کامیابی مشکل لگنے لگی مگر اسی بیچ اسے اسپین کے بارے میں جانکاری ملتی رہی جو اگرچہ یوروپ میں تھا مگر یہاں سے سمندر کے راستے بہت قریب تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ اسپین کا حاکم یوسف باغیوں کی سرکوبی میں مصروف ہے تو اس کی ہمت بلند میں مزید تحریک پیدا ہوئی اور وہ اسپین پہنچ گیا۔ یہاں وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچا جہاں بنو امیہ کے ہمدردوں کی کثرت تھی اور انھوں نے ا سکی مدد و حمایت شروع کردی۔ لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور ایک جنگ کے بعد اس نے قرطبہ پر قبضہ جمالیا اور اپنی خودمختار حکومت قائم کرلی۔ عباسی خلیفہ منصور نے اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا اور دانت پیس کر رہ گیا۔ تاہم عبدالرحمٰن نے خطبے میں عباسی خلیفہ کا نام لینا جاری رکھا اور بہ ظاہر یہ تاثر دیتا رہا کہ وہ مرکز خلافت سے جڑا ہو اہے مگر اس کے دل میں عباسیوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی تھی۔ یہ سلسلہ تقریباًدس سال تک چلا اور جب اسے احساس ہوگیا کہ اب مناسب وقت آچکا ہے تو اس نے اپنی خلافت کا اعلان کردیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوانے لگا۔ اسی کے ساتھ اسپین میں ایک نئی خلافت کا آغاز ہوا ۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک متوازی خلافت تھی جو عباسی خلافت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ عباسی خلفاء اس سے بغض و حسد رکھتے تھے مگر اس کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اس نے یہاں ۳۳ سال حکومت کی اور ایک مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی جو اس کے بعد بھی قائم رہی۔
خلیفہ کی یادگاریں
خلیفہ عبدالرحمٰن نے اس ملک کی تعمیر وترقی کے لئے بہت کچھ کیا ۔ وہ ایک زبردست عالم و فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر منتظم اور باتدبیرحکمراں تھا۔ اس نے یہاں قلعوں اور شہروں کی دیواریں تعمیر کرائیں اور باغات لگوائے۔ اس نے مکتب اور تعلیمی ادارے قائم کئے نیز مسجدیں بنوائیں۔ اسی نے مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھوائی جو اس کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکی مگر جس بڑے پیمانے پر اس نے اس کی بنیاد کھدوائی تھی اس کا اظہار مسجد کی عمارت دیکھ کو ہوتا ہے۔خلیفہ عبدالرحمٰن کے جانشیں ہشام نے اس کی تعمیر مکمل کرائی اور اس میں وہ مال غنیمت خرچ کیا جو فرانس پر حملہ کے بعد مسلماوں کے ہاتھ لگا تھا۔ یہ آج بھی دنیا کی عظیم ترین اور خوبصورت مسجدوں میں شمار کی جاتی ہے مگر اب اس میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں اور اس کے ایک حصے کو چرچ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اسی عمارت کو دیکھ کر علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ لکھی تھی:
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
خلیفہ عبدالرحمٰن نے اسپین کی سرزمین پر پہلا کھجور کا پیڑ بویا تھا جس کے لئے اس نے ایک عربی نظم بھی لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے اس نظم کا آزاد ترجمہ اردو میں کیا ہے:
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرور ہے تو
اپنی وادی سے دور ہوں میں
میرے لئے نخل طور ہے تو
خون مسلماں کا امیں
اسپین میں اموی خلافت کا خاتمہ تقریباً دوسو نوے سا ل بعد ہوا۔ حکمرانوں میں بعض تو بے حد طاقتور اور اولوالعزم تھے مگر بعض خلفاء بہت کمزور ثابت ہوئے اور یہی کمزوری اس کے خاتمے کا سبب بنی۔ اس کے بعد بنو حمود،بنو ہود، مرابطین، موحدین، ابن الاحمر اور طوائف الملوک کی حکومتیں قائم ہوتی رہیں۔البتہ جو مضبوطی بنو امیہ کی حکومت کو حاصل تھی وہ کسی دوسری حکومت کو حاصل نہ رہی اسی لئے جو تعمیری اور علمی کام اس دور میں ہوا کسی اور زمانے میں نہ ہوا۔ یہاں ساری دنیا سے اہل علم کو بلایا جاتا تھا اور ان کی قدر دانی کی جاتی تھی۔ قرآن ، حدیث، تفسیر وفقہ کے ساتھ ساتھ مصوری، موسیقی، طب اور سائنس و حکمت کے علوم وفنون کو یہاں ترقی ملی۔ ایک ایک کتب خانے میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں موجود ہوتی تھیں۔ ان کتابوں نے یوروپ میں ایک نئے علمی دور کی ابتدا کی اور آج کی علمی ترقیاں اسی کی مرہون منت ہیں۔ میڈیکل سائنس میں نئے نئے تجربات کئے گئے اور اس سرزمین نے ابن رشد، ابوالقاسم زہراوی، ابن زہر،موسیٰ بن میمون،ابن بیطار،ابن خطیب جیسے ماہر طبیب پیدا کئے جن کی تحقیقات جدید میڈیکل سائنس کے لئے رہنما بنیں ۔ باوجود اس کے جب اسپین میں مسلمانوں کا زوال آیا تو انتہائی شرمناک طریقے سے انھیں اس ملک سے بے دخل ہونا پڑا۔ 1492ء میں انھوں نے اسپین خالی کردیا اور جو باقی بچے انھیں عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا۔ ان کے خون سے یہاں کی زمین لالہ زار ہوگئی اور آج یہاں کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے۔مسلمانوں کی تعمیر کی ہوئی بعض عمارتیں باقی ہیں جو ان کی شوکت رفتہ پر ماتم کناں ہیں۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری باد سحر میں
جواب دیں