شورش زدہ منی پور میں مسلمانوں کا مثالی کردار

 

بی جے پی کی میتی قوم پرستی کو شہ دینے کی کوششیں نسلی اختلافات میں شدت کا اہم سبب
تحفظ جنگلات ایکٹ میں ترمیم جیسے اقدامات نے قبائلیوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا

  نور اللہ جاوید، کولکاتا 

تیس سال قبل 3 مئی 1993 کی شام منی پور کے پنگل مسلمانوں پر میتی کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ہندوؤں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا جس کا سلسلہ دو دنوں تک جاری رہا تھا۔اس واقعہ میں غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق دو سو مسلمان جاں بحق ہوئے تھے۔ گزشتہ 30 سالوں سے 8.5 فیصد آبادی پر مشتمل پنگل مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ پچھلے پانچ چھ برسوں میں بی جے پی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر حاشیہ پر پہنچا دیا گیا ہے۔ منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کے بعد اس کے پہلے وزیر اعلیٰ مسلمان ہی تھے مگر آج این بیرن سنگھ کی وزارت میں ایک بھی مسلم نہیں ہے۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں جنتا دل یونائٹیڈ کے ٹکٹ پر دو مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔جنتا دل یو کے محمد اعصاب الدین بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں منی پور میں موب لنچنگ کے واقعات بھی ہوئے ہیں، کئی مسلمانوں کے مکانات بھی ’غیر قانونی‘ قرار دے کر منہدم کر دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ برسوں میں میتی فرقے کی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ مہمات بھی چلائی گئیں۔ مسلمانوں پر بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ عجب اتفاق ہے کہ اس واقعے کے 30 سال بعد 3 مئی کی شام منی پور ایک بار پھر خون میں ڈوب گیا۔ مگر اس مرتبہ اس کا شکار مسلمان نہیں ہیں بلکہ میتی، کوکی اور ناگا قبائلی ہیں جو ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایک مہینے سے موت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ قتل و غارت گری کے واقعات نے صدیوں پر محیط سماجی تانے بانے اور آپسی بھائی چارے کی دیوار کو منہدم کردیا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کوکی اور ناگا قبائلی، میتیوں کی اکثریت والے علاقے میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ہے جبکہ کوکیوں اور ناگاوں کی آبادی والے علاقے میں میتی رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور کیمپوں میں مقیم ہیں۔ اس صورت حال میں ریاست کی 8.19 فیصد آبادی پر مشتمل پنگل مسلمان اگر کسی بھی کمیونیٹی کے حق میں اپنا وزن ڈال دیتے تو وہ کمیونیٹی مضبوط ہوجاتی، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ پنگل مسلمان اس خلفشار کا فائدہ اٹھانے کے بجائے دونوں گروپوں کے درمیان امن و امان اور بھائی چارہ کے قیام کے لیے اول روز سے سرگرم عمل ہیں۔مسلمانوں نے فسادات سے متاثرین چاہے وہ کوکی ہوں یا میتی، سبھی کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ قومی میڈیا کہلانے والے بیشتر نیوز چینلوں پر ایک مہینے سے شورش سے متعلق رپورٹنگ کے نام پر محض خانہ پری کی گئی ہے۔ پرنٹ میڈیا میں رپورٹنگ تو ہوئی مگر اس نے بھی منی پور فسادات کے دوران مسلمانوں کے اس شاندار انسانیت نواز کردار کو نظر انداز کر دیا۔ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے والے میڈیا سے اس کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔
منی پور میں میتی کمیونیٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے سے متعلق مارچ میں منی پور ہائی کورٹ کے ایک تبصرہ اور ریاستی حکومت کو سفارشات بھیجنے کی ہدایت کے بعد سے ہی کوکی قبائلیوں میں شدید ناراضگی تھی۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ کے متنازع بیانات اور قبائلیوں کے جنگلوں پر غیر قانونی قبضہ کے خلاف کارروائیوں نے میتی کمیونیٹی کو شیڈول کاسٹ کا درجہ دینے کی مخالفت کرنے والے کوکیوں میں عدم تحفظ کے احساسات کے جذبات کو گہرا کر دیا۔ 3 مئی کو ناگا اور کوکی کمیونیٹیز نے مشترکہ طور پر ریلی نکالی۔ اس درمیان لیشانگ نامی گاؤں میں اینگلو-کوکی جنگ کی یادگار پر چند میتی شرپسندوں نے توڑ پھوڑ کی اور اس کے بعد سے ہی منی پور خلفشار کا شکار ہے۔ تادم تحریر امپھال اور دیما پور ہائی وے پر ناکہ بندی جا ری ہے اس کی وجہ سے منی پور میں سامان کے آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت ہے اور دوائیوں کی ترسیل بھی روک گئی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں ایک سو سے زائد انسانی جانیں تلف ہوچکی ہیں اور ہزاروں افراد کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
منی پور میں یہ حالات اچانک نہیں پیدا ہوئے ہیں۔ منی پور کے علاوہ تمام شمال مشرقی ریاستیں کثیر النسل ریاستیں ہیں، نسلوں کے درمیان کئی پیچیدگیاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود منی پور ہائی کورٹ کے تبصرے کے بعد منی پور میں سیاسی سرگرمیوں و بیان بازیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کا صحیح جائزہ کیوں نہیں لیا گیا۔کوکیوں کی ناراضی کو منشیات مخالف مہم سے جوڑ کر پوری کوکی کمیونیٹی کو مجرم بنانے کی کوشش کیوں کی گئی؟ 3 مئی کے دن جلوس اور میتی کے شدت پسند گروپ سے متعلق خفیہ ایجنسیاں
صحیح اندازہ لگانے میں ناکام کیوں رہیں؟ ایک طرف شمالی مشرقی ریاستوں کی ترقی کو ترجیح دینے کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف فسادات شروع ہونے کے 23 دن بعد وزیر داخلہ امیت شاہ منی پور کے تین روزہ دورے پر پہنچے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اس واقعے پر خاموش ہیں۔ امیت شاہ اگر شروع میں ہی منی پور کا دورہ کرتے اور فوری اقدامات کرتے تو ایک سو سے زائد جانیں تلف نہیں ہوتیں، ہزاروں افراد بے گھر نہیں ہوتے، ہزاروں مکانات تباہ و برباد نہیں کیے جاتے، مگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے کون پوچھے گا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
منی پور کی آبادیاتی ساخت اور مسلمان
منی پور 16 اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے دس پہاڑی علاقوں میں اور چھ وادی میں واقع ہیں۔ کل 60 اسمبلی حلقے ہیں جن میں سے 40 وادی میں واقع ہیں جبکہ 20 اسمبلی حلقے پہاڑی اضلاع میں واقع ہے۔ پہاڑی اضلاع میں ریاست کی دو قبائلی برادریوں ناگا اور کوکیوں کا غلبہ ہے جبکہ وادی کے اضلاع میں میتی برادری کا غلبہ ہے۔ منی پور کثیرالثقافت اورکثیرالمذہب ریاست ہے۔ 41.39 فیصد میتی ہیں جن کی اکثریت ہندو مذہب کو ماننے والی ہے،41.29 فیصد آبادی کوکیوں اور ناگاوں پر مشتمل۔ ہے یہ دونوں مذہبی اعتبار سے عیسائی ہیں۔جبکہ مسلمانوں کی آبادی 8.40 فیصد ہے۔8.19 فیصد قبائلی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ منی پور کے مسلمانوں کی 98 فیصد آبادی پنگل مسلم (میتی مسلم) پر مشتمل ہے۔ تاریخی اعتبار سے منی پور میں مسلمانوں کی آمد سے متعلق کہا جاتا ہے کہ منی پور کے بادشاہ کھگیمبا (1597-1652) کے دور میں پہلی مرتبہ مسلمان منی پور کے معاشرہ کا حصہ بنے۔ 1606 میں جنرل محمد شانی کی قیادت والے ایک ہزار فوجیوں کو گرفتار کرکے منی پور لایا گیا۔ منی پوری بادشاہ نے مسلمان سپاہیوں کو وادی میں بسنے کی اجازت دی۔ اس نے فوجیوں کو مقامی میتی خواتین سے شادی کرنے کی بھی اجازت دی چنانچہ ان کی اولاد کو میتی پنگال کہا جاتا ہے۔ منی پور کے آزاد صحافی معراج شاہ کوری ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ چار صدیوں میں منی پور کے معاشرے میں پنگل مسلمانوں کا کردار تاریخی رہا ہے۔ فوج، زراعت، قضاۃ اور دیگر علوم و فنوں کے شعبوں میں مسلمانوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔منی پور میں اگرچہ مسلمانوں کی آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے مگر وہاں مسلمانوں کا ایک کردار رہا ہے۔منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے کے بعد1972میں ریاست کے پہلے وزیر اعلیٰ محمد علیم الدین بنے تھے۔چونکہ منی پور کے مسلمانوں کی آبادی وادی کے اضلاع میں زیادہ ہے اس لیے ان کا تعامل بھی زیادہ تر میتی کمیونیٹی سے ہے، اس لیے دونوں کمیونیٹیوں کے مشترکہ مسائل بھی ہیں اور مفادات کا ٹکراو بھی ہے۔ لیلونگ، یاریپوک، سنگائیومپم، کھیتریگاو، موئرنگ، مایانگ امپھال، تھوبل، بشن پور، چندیل اور چورا چند پور جیسے علاقوں میں مسلمان آباد ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کا ایک طبقہ بہار اور یو پی سے نقل مکانی کرکے آنے والا بھی ہے مگر ان کی تعدا کم ہے۔
منی پور میں پنگل مسلمانوں کی موجودہ سماجی و اقتصادی حالت قابل رحم ہے۔ مسلمانوں میں شرح تعلیم ریاست کی اوسط شرح خواندگی سے بھی کم ہے۔اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی انتہائی کم ہے۔ قبائلی گروہوں کے لیے 60 رکنی منی پور ریاستی اسمبلی میں 20 نشستیں مخصوص ہیں اور تمام سرکاری ملازمتوں میں 31 فیصد تک ریزرویشن ہے۔ میتی کو او بی سی کا درجہ حاصل ہے۔ مسلمانوں کو کسی قسم کی رعایت حاصل نہیں ہے۔ دسمبر 2006 میں کانگریسی دور حکومت میں وزیر اوکرم ایبوبی سنگھ نے سرکاری ملازمتوں میں مسلم کمیونٹی کے لیے چار فیصد ریزرویشن پالیسی کا اعلان کیا تھا، لیکن اس نیم دلانہ اعلان کو آج تک نافذ نہیں کیا گیا۔
میتی آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ یہ چار صدی قبل ہی ہندو ازم کا حصہ ہوگئے تھے۔ روایات کے مطابق 1704 میں میتی بادشاہ چرائیرونگبا نے وشنو مت کو قبول کیا اور اپنا روایتی میتی نام تبدیل کر کے ایک ہندو نام، پتامبر سنگھ رکھ لیا۔ بادشاہ کے اس اقدام کی وجہ سے پورا میتی قبیلہ ہندو مذہب اختیار کر گیا۔ میتی، ریاست کی مراعات یافتہ اکثریتی کمیونٹی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خوشحال کمیونٹی ہیں۔ ریاست کے اقتدار، وسائل اور سہولتوں تک سب سے زیادہ رسائی میتی کمیونیٹی کو حاصل ہے۔اس کے باوجود میتی کمیونیٹی تاریخی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے شیڈول ٹرائب کے درجہ کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔ میتی کمیونیٹی کی دلیل یہ ہے کہ وہ ریاست کی نصف آبادی ہے مگر صرف دس فیصد زمین ہی ان کے کنٹرول میں ہے۔ پہاڑی علاقے میں انہیں زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ وادی میں کوکی اور ناگا قبائلیوں کو زمین خریدنے کی اجازت ہے۔ کوکی اور ناگا قبائلی گروپ ہیں جو عیسائیت پر عمل کرتے ہیں۔ کوکی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ گروپ ہیں سول سروسز میں بڑی تعداد میں کوکی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ منی پور کی سرحد سے متصل میانمار میں بھی بڑی تعداد میں کوکی آبادی ہے۔ میانمار میں فوجی جنتا کی تازہ بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں میانماری کوکی سرحد عبور کرکے منی پور آرہے ہیں۔ کوکی آبادی کو ان سے ہمدردی ہے۔ اسی طرح ناگا قبائلی بھی میانمار سے آنے والے در اندازوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔میتیوں کو اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح سے دراندازی کا سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد منی پور کی ڈیموگرافی میں تبدیلی آجائے گی اور آبادی کے اعتبار سے میتی سے کوکی آگے نکل جائیں گے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ جنگل کے قانون میں تبدیلی، جنگل پر غیر قانونی قبضے کے خلاف کارروائی اور منشیات کی کھیتی کا سارا الزام کوکی اور ناگاپر ڈالے جانے کی وجہ سے ان میں عدم تحفظ کے احساسات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ میانمار میں کوکی باشندوں کے ساتھ مظالم اور ان کی دربدری اور حکومت ہند کے سرد مہری کی وجہ سے بھی کوکیوں میں شدید ناراضگی ہے۔
کوکی اور ناگا قبائلی کی طرح منی پور کے مسلمانوں کو میتی کمیونیٹی کے ذریعہ سماج دشمن عناصر اور دقیانوسی خیالات کے حاملین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔وادی میں چوری اور منشیات جیسے جرائم کے لیے تنہا مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ 2018 میں منی پور کی حکومت نے جنگل کے ذخائر اور زراعتی زمین پر قبضے کے الزام میں 400 مسلمانوں سے مکانات چھین لیے تھے۔مسلمانوں کو ابھی تک ان بے دخلیوں کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت کے ان اقدامات نے دیگر مقامی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جس کی وجہ سے وہ پنگل مسلمانوں کو زمینیں خالی کرانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ مسلم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پنگلوں کے مقابلے میں، ہندو میتیوں کے آبادی کو بہت کم جانچ پڑتال اور بے دخلی کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں موب لنچنگ کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ۔2016 میں اسٹار اپ کمپنی کے مالک محمد فاروق کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں موب لنچنگ کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا ہے۔ مقامی میڈیا میں منی پور کے مسلمانوں پر حملوں کی خبریں باقاعدگی سے آتی ہیں لیکن قومی میڈیا میں ایسی خبروں کا کوئی احاطہ نہیں کیا جاتا۔
اس طرح سے دیکھا جائے تو منی پور کی تینوں بڑی کمیونیٹیوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ میتی اور پنگل مسلمانوں کے درمیان اعتماد سازی کی حالیہ دنوں میں کوشش بھی ہوئی مگر یہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی ہے۔ تاہم حالیہ فسادات کے بعد میتی کمیونیٹی کی طرف سے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کھل کر ان کے ساتھ آئیں کیوں کہ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اور دونوں کے کئی مسائل مشترک ہیں جنہیں متحدہ طور پر مقابلہ کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میتیوں کی طرح مسلمان بھی شیڈول ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
حالیہ فسادات کے دوران مسلمانوں کا کردار
میتی کمیونیٹی کی طرف سے مسلمانوں کو کھل کر ساتھ دینے اور کوکیوں کا مقابلہ کرنے کے دباو کے باوجود منی پور کی مسلم کمیونیٹی نے ذمہ دار اور پرامن شہری ہونے کا کردار نبھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنگل مسلمانوں کی کئی متحرک تنظیمیں ہیں جن میں جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علمائے ہند اور اصلاح معاشرہ جیسی کمیٹیاں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح منی پور مسلم طلبا کی آرگنائزیشن اور مسلم خواتین کی آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں ہیں جو نوجوانوں اور خواتین کی خود اختیاری کے لیے کام کرتی ہیں۔ منی پور میں تمام مسلم تنظیموں کی ایک مشترکہ آل منی پور مسلم آرگنائزیشنز کوآرڈینیٹنگ کمیٹی (AMMOCC) بھی ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ منی پور کے مسلمان اتفاق رائے کے ساتھ آپسی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منی پور میں گروہی تشدد کے واقعات شروع ہونے کے بعد ہی مسلم کمیونیٹی نے امن کے قیام کے لیے پہل شروع کردی اور متاثرہ دونوں برادریوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آل مسلم آرگنائزیشن کوآرڈی نیشن کے صدر ایس ایم جلال کہتے ہیں کہ منی پور کی مسلم کمیونیٹی ریاست میں امن کے پیامبر کے طور پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم نے انخلاء اور بچاؤ کے عمل میں مدد کے لیے مختلف مقامات پر عارضی ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں مسلم علاقوں کی طرف سے ضروری اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔ 12 مئی کو اسی پروگرام کے تحت منی پور میں امن کے قیام کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا ۔
صحافی معراج شاہ کوری نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ کہ 3 مئی کو منی پور میں قبائلیوں کے مشترکہ جلوس اور میتی شدت پسندوں کے ذریعہ کوکیوں کے ایک یادگار پرحملہ کرنے کے بعد فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ چندرچور پور میں سب سے پہلے حالات خراب ہوئے، اس کے بعد وادی میں، جہاں میتیوں کی اکثریت ہے کوکیوں کے مکانات پرحملے شروع ہوئے تو بڑی تعداد میں کوکی باشندے انخلا پر مجبور ہوگئے۔وادی میں مقیم مسلمانوں نے اپنے گھروں کے دروازے کوکیوں کے لیے کھول دیے اور انہیں پناہ دی۔ ریلیف کیمپوں میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح چندرچور پور اور تھوپل جیسے علاقے میں کوکیوں کے حملے سے فرار ہونے والے میتیوں کو بچانے کے لیے مسلمان سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند تھی کہ دونوں گروپوں میں سے کسی کی جانب سے بھی مسلمانوں کے مکانات پر حملے نہیں ہوئے اور نہ مسلمانوں کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ معراج شاہ کوری کے مطابق مسلم تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعلیٰ کو میمورنڈم بھیجے اور امن کے قیام کے لیے قیمتی مشورے بھی دیے۔ مسلم تنظیموں نے علاقے میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کی لیکن مسلمانوں کے قائدانہ کردار کی قومی میڈیا نے نہ رپورٹنگ کی اور نہ انہیں اہمیت دی۔ جس طرح قومی میڈیا میں مسلمانوں کے مشکلات اور ان کو درپیش چیلنجز پر کبھی بات نہیں کی جاتی ہے اسی طرح مسلمانوں کے مثبت کردار اور جدوجہد پر بھی قومی میڈیا میں رپورٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ منی پور کے مسلمانوں کی معیشت بہتر نہیں ہے۔ ایک بڑی آبادی یومیہ مزدوری اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتی ہے۔ ورک فورسیس میں مسلمانوں کی حصہ داری محض 38 فیصد ہے۔ اسی طرح مسلم خواتین کی بھی ورک فورسیس میں حصہ داری مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ محدود وسائل اور ذرائع کے باوجود اگر کوئی کمیونیٹی شرو فساد کا حصہ بننے اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کے بجائے امن و امان کے قیام کی کوشش کرتی ہے تو اس کا نوٹس حکومت کو بھی لینا چاہیے اور میڈیا کو بھی۔ لیکن ان کی نظروں میں نیکی وہی ہے جو ان کی قوم کرے، مسلمان چاہے کچھ بھی قربانی دیں ان کی نگاہوں میں بے کار ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس کردار کے بعد میتی کمیونیٹی اور پنگل مسلمانوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ختم بھی ہوگی؟ معراج شاہ نوری کہتے ہیں کہ کسی بھی عمل کا فوری فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ حالیہ واقعات نے منی پور میں سماجی تانے بانے کو انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ برسوں سے پڑوسیوں کی طرح رہنے والے اب ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ سرکاری افسروں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ اگر میتی سے تعلق رکھنے والے افسران کوکی اکثریتی علاقے میں تعینات ہیں تو وہ جلد سے جلد اپنا ٹرانسفر چاہتے ہیں۔ اسی طرح کوکی افسران بھی میتی اکثریتی علاقے میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ چیلنجز کوئی معمولی نہیں ہیں، ان حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی اور وہی مسلم کمیونیٹی نے کیے ہیں۔
جمعیۃ علمائے ہند منی پور کے صدر مولانا سعید احمد نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ حالیہ فسادات کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی ایک کمیونیٹی کی طرف داری اور دیگر کمیونیٹیوں کو زیادہ دنوں تک نظر انداز کر کے پرامن ماحول قائم نہیں کیا جا سکتا ہے۔حالیہ فسادات اور عدم تحفظ کے احساسات کے لیے صرف ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ منی پور کے نسلی گروہوں کے درمیان ناراضی، عدم تحفظ کے احساسات اور مستقبل کے لیے فکر مندی کئی دہائیوں سے پنپ رہی تھی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ ناراضی باہر آگئی۔ بھارت کی آزادی کے بعد سے ہی منی پور عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور نسلی و گروہی تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں مگر حکومتوں نے اس مسئلے کو مستقبل بنیاد پر حل کرنے کی کبھی بھی کوشش نہیں کی اور آج نتیجہ یہ ہے کہ منی پور میں بے دریغ انسانی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہیں اور کیمپوں میں مقیم ہیں۔مسلم تنظیموں کے کردار پر بات کرتے ہوئے سعید احمد بتاتے ہیں کہ منی پور کی تمام مسلم تنظیموں نے اس پورے واقعے میں غیر جانب دار رہ کر انسانی بنیاد پر متاثرین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے اقدامات سے منی پور کے مختلف گروپوں کے درمیان ہم آہنگی اور بات چیت کے ذریعہ مسائل کو حل کرنے کے دروازے کھلیں گے۔
سوال اب بھی باقی ہے کہ آخر منی پور لہو لہان کیوں ہے؟ کوکی اور میتی دونوں آپس میں دست و گریباں کیوں ہیں؟ عرصے تک ایک دوسرے کے مد مقابل رہنے والے کوکی اور ناگا اس مرتبہ متحد کیوں ہوگئے ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنے کے بعد ہی اصل جواب تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حالیہ دورے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش جارہی ہے کہ میتی کمیونیٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے سے متعلق ہائی کورٹ کی ہدایت اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے نے یہ صورت ہال پیدا کی ہے مگر منی پور کی سیاسی صورت حال، سماجی پیچیدگی اور نسلی و گروہی اختلافات پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ کو ویلن بناکر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ میتیوں کا جارحانہ رویہ اور کوکیوں میں عدم تحفظ کا احساس یہ دو بڑی وجوہات ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں منی پوری میں’’میتی پرستی‘‘ کا احیا دیکھا گیا ہے جب میتیوں کی شناخت، مذہب اور ثقافت کو بحال کرنے کی مشترکہ طور پر شروعات ہوئی۔ اس تحریک سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ منی پور کے اصل باشندے میتی ہیں ۔میتی قوم پرستی، بالفاظ دیگر ہندو احیا پرستی کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی جارحانہ طور پر میتیوں کے حمایتی بن کر سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب میتیوں کے زیر تسلط حکومت مسلسل کوکیوں غیر مقامی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ غیر قانونی قوم پرستوں کو پناہ دینے اور پوست کی کاشت کرنے کا لیبل لگاتے ہیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ اپنے سیاسی سرگرمی کے ابتدائی دنوں سے ہی ’’کوکی مخالف‘‘ کے طور پر متعارف رہے ہیں۔ بی جے پی میں شمولیت اور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد سے ہی کوکی مخالف شبیہ کے طور پر وہ خود پیش کر رہے ہیں ’’منشیات مخالف مہم‘‘ کے نام پر مسلسل کوکیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جنگلات پر غیر قانونی قبضے کے انخلا کی کارروائی سے بھی کوکیوں کو ناراض کر دیا ہے۔ معراج شاہ کوری کہتے ہیں کہ منشیات کے لیے صرف کوکیوں کو بدنام کرنا حقائق کے خلاف ہے۔ دیگر کمیونیٹیز بھی منشیات کی زراعت میں ملوث ہیں۔ کوکیوں میں عدم تحفظ کے احساسات کی ایک بڑی وجہ اس سال مارچ میں پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا جنگلات کے تحفظ (ترمیمی) بل 2023 ہے۔ 29 مارچ کو لوک سبھا میں جنگلات کے تحفظ کے ایکٹ، 1980 (ایف سی اے) میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا۔ اس بل پر غور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ مانسون سیشن میں اس بل کو دوبارہ پیش کیے جانے کی توقع ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ’’جنگلات تحفظات ایکٹ‘‘ میں ترمیم کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایکٹ ماحولیاتی اور سماجی ترقی کے لیے چیلنج ہے۔ اس ترمیم کے ذریعہ قانون بڑے پیمانے پر جنگلاتی زمین کو غیر جنگلاتی میں تبدیل کرتا ہے۔ ماحولیات اور جنگلات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان کے مطابق اس بل کی وجہ سے قبائلیوں کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔ ماحولیات کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ ترمیمی بل ایف سی اے کی موجودہ سخت دفعات میں نرمی کرتی ہے۔ اس بل میں بین الاقوامی سرحدوں، لائن آف کنٹرول، یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ سو کلومیٹر کے اندر واقع زمین کو قومی اہمیت اور قومی سلامتی سے متعلق ’’اسٹریٹجک لکیری منصوبوں کی تعمیر‘‘ کے لیے استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس بل سے ناگالینڈ کے تقریباً 90 فیصد علاقے پر اثر پڑے گا، جو بین الاقوامی سرحد کے سو کلومیٹر کے دائرے میں آتا ہے۔ اروناچل پردیش اور آسام کے بڑے حصے بھی متاثر ہوں گے اور میگھالیہ، میزورم، منی پور اور تریپورہ کے جنگلاتی علاقے بھی متاثر ہوں گے۔ بل میں یہ بھی اشارہ دیا گیاہے کہ جنگلات کے علاقوں کو نجی شعبے کو ماحولیاتی سیاحت، چڑیا گھر اور سفاری کے لیے لیز پر دیا جا سکتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ترمیمی بل دراصل 2024 تک ملک کو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کے ماڈل کے طور پر بنایا گیا ہے۔ منی پور اپنی ثقافت، زمین کے حقوق اور انتظامیہ کے حوالے سے آرٹیکل 371C کے تحت آتا ہے۔ قبائلی ناگا اور کوکی-زومی-ہمار برادریوں کے زیر تسلط پہاڑی علاقے خود مختار ضلع کونسلوں کے تحت آتے ہیں، جو کہ 1973 میں بنائے گئے تھے۔ یہ پنچایتی راج نظام کے متوازی ہے۔شمالی مشرقی ریاستوں میں ہی نہیں بلکہ مرکزی بھارت کے علاقوں میں اس ایکٹ کو لے کر بڑے پیمانے پر ناراضی پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے موسموں میں عدم توازن کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں، جنگلات تحفظ ایکٹ میں ترمیم سے نہ صرف قبائلیوں میں عدم تحفظ کے احساسات پیدا ہوں گے بلکہ ماحولیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔خبریں آرہی ہیں کہ ایکٹ میں ترمیم کرکے پام آئل کے لیے بڑے پیمانے پر جنگلات کو پتنجلی، گودریج اور دیگر کارپوریٹ کمپنیوں کے حوالے کرنے کا منصوبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خودکشی کے مترادف نہیں ہوگا۔ پام کی زراعت نے انڈونیشیا اور ملیشیا کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔انڈونیشیا کو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کئی ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ شمالی مشرقی ریاستوں میں اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو چین اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

بشکریہ : ہفت روزہ دعوت 

«
»

عید الاضحےٰ اورقربانی کے احکام قرآن و سنت کی روشنی میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے