از قلم:مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی
1441 ھ کا سال بس گذرچکا ہے اور ہم 1442 ھجری میں قدم رکھنے ہی والے ہیں، دن اور رات، ماہ اور سال اپنی روش پر قائم ہیں، اور گھڑی کی ٹک ٹک مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، برف کے پگھلنے کی طرح ہماری زندگی کے لمحات ختم ہورہے ہیں، لیکن ایک کامیاب اور کامران انسان کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کی قدر و قیمت کو جانے، ماہ و سال کی گردش میں اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لے، نفع اور نقصان کا تخمینہ لگائے، دینی ہو یا دنیوی ہر معاملہ کو ہر زاویہ سے سونچے،اور یہی محاسبہ یا احتساب انسان کو کامیابی کی منزلوں پر پہنچاتا ہے، وقت کا قدردان اور سعادت مند بناتا ہے،اور یہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو اپنے عزائم کی تکمیل میں کوشاں رہتے ہیں؛چنانچہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اپنے اشعار میں ایسے لوگوں کو ششمیر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا
صورتِ شمشير ہے دستِ قضا ميں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
محاسبہ کیا ہے؟
محاسبہ یا احتساب بہتر سے بہترین کا سفر ہے، خوب سے خوب تر کی تلاش ہے، ٹارگٹ یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا محاسبہ کہلاتا ہے، یہی وہ محاسبہ ہے جو نفس انسانی کے لیے ضروری ہے، عبادات میں خشوع، نیک اعمال پر مداومت، اور اخلاص اور للہیت کو فروغ دینے یہی محاسبہ معاون بنتا ہے، بدعات اور خود پسندی جیسے برے عادات کی روک تھام میں یہ اہم رول ادا کرتا ہے
چنانچہ امیر المومنین خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جامع ارشاد ہے:
اس سے قبل کہ تم سے حساب کیا جائے خود اپنامحاسبہ کرلو ،اورقبل اس کے کہ تمہیں تولا جائے اپنے نفس کوتول لو ،کل قیامت کے دن حساب کی آسانی اسی میں ہے کہ آج اپنے نفس کا محاسبہ کرلو ،اورقیامت کے ہولناک دن کے لیے توشہ تیار کرلو جس دن اللہ کے سامنے پیش کئے جاوگے ،تمہاراکوئی بھید پوشیدہ نہ رہ سکے گا ۔
حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں:
ایک بندہ اس وقت تک تقوی شعار نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کادوشریک کے باہمی حساب وکتاب سے بھی زیادہ سخت محاسبہ نہ کرے اسی لیے کہاجاتاہے ،نفس خائن شریک کی مانند ہے کہ اگر اس سے حساب وکتاب نہ کرو تو تمہارا مال ہضم کرجائے گا
سالِ گذشتہ اور ہمارا طرز عمل
وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا
سال گزر گیا، دنیوی تاجر اور نفع اور نقصان کا اندازہ لگارہا ہے،نقصان کی تلافی،منافع میں بڑھوتری کے عزائم کررہا ہے، لیکن کیا ایک وہ مسلمان جس کے لیے دنیا آخرت کی کھیتی ہے سال کے اختتام پر کبھی خلوت میں بیٹھ کر اپنے مقصد تخلیق پر غور کرتا ہے؟ اپنے اقوال واعمال کاجائزہ لیتا ہے؟ کیا اپنے یومیہ کاموں کامحاسبہ کرتا ہے؟ کیا اپنے گناہوں اور غلطیوں کو شمار کرکے اس کے دور کرنے کی فکر کرتا ہے؟اگر آپ اسکا جائزہ لیں تو مجموعی طور پر بہت کم لوگ ایسے نظر آئیں گے جبکہ ہم بڑی بڑی غلطیاں کرلیتے ہیں،لیکن ہمیں ان کا احساس تک نہیں ہوتا ،آئے دن ہم برائیوں کاارتکاب کررہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:تم لوگ گناہوں کے ایسے کام انجام دیتے ہو جوتمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہوتے ہیں،یعنی معمولی سمجھ کر اس کاارتکاب کربیٹھتے ہو حالاں کہ ہم اسی کوعہد نبوی میں تباہ کرنے والے گناہوں میں شمارکرتے تھے۔
محاسبہ کیسے کرہں؟
بدقسمتی سے آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں وقت کی ناقدری کا جذبہ تو بے رحمی تک جاپہنچا ہے، کیا چھوٹے کیا بڑے، کیا مرد کیا عورت انٹرنیٹ اور موبائل فون میں دن بھر خود کو مصروف رکھتے ہیں،پھر موبائل کے ساتھ دیگر لاتعداد خرافات کا شکار ہوکر وقت برباد کرتے ہیں یاد رکھیں! یہ نہ صرف ہم اپنا وقت ضایع کررہے ہیں بلکہ اپنی قسمت کے دروازے بھی خود اپنے ہاتھوں سے بند کررہےہیں ایسے پرآشوب ملحدانہ اور مفسدانہ ماحول میں
ایک بیدار ضمیرانسان کی علامت یہ ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے سے پہلے بھی اپنے نفس کامحاسبہ کرتاہے، اورکام کرنے کے بعد بھی ، کام کرنے سے پہلے نفس کا محاسبہ یہ ہے کہ ایک بندہ جب کسی کام کے کرنے کاارادہ کرے تو سب سے پہلے یہ سوچ لے کہ اسے بجالانااولی ہے یاترک کرنا؟ اگربجا لانا اولی ہے تو بجا لائے، ورنہ اس سے باز رہے اور کام کی انجام دہی کے بعد نفس کا محاسبہ یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کے لیے تھا یا نہیں؟ کہیں اس میں ریا تو شامل نہیں، کہیں اس میں کسی کے حق کا ضیاع تو نہیں وغیرہ
چنانچہ اس کے لیے ہر شخص اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرے، خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کی فکر اپنے اندر لائے، دنیا کی وقتی لذتیں اور راحتیں اور آخرت کے ابدی انعامات کے بارے میں سوچیں،عبادات اور معاملات، دونوں کو جائزہ لیں، اگر ہم تاجرہیں تواپنے مال کا جائزہ لیں کہ اس میں کہیں حرام کی آمیزش تونہیں؟ اگر ہم ملازم ہیں تواپنی ڈیوٹی کاجائزہ لیں کہ ہم اس میں کوتاہی تونہیں کررہے ہیں؟ اگرہم مدرس ہیں تواپنی ذمہ داری کا جائزہ لیں کہ ہم کس حدتک منصب کی کی ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں،الغرض جس منصب اور جس کام میں بھی ہمارے اوقات اور لمحات صرف ہورے ہوں، ان سب کا محاسبہ کریں، اب تک ہم میں آخرت کی یاد سے جو غفلت تھی،ہمیں اپنی کوتاہیوں کا احساس نہیں تھا ،غلطیوں پر شرمندگی نہیں تھی ،حقوق الہی کا پاس ولحاظ نہیں اوراللہ تعالی کے پاس جوابدہی کا خوف نہیں تھا تو اب توبہ و استغفار ،ندامت،اوراحساس گناہ کے ذریعہ اپنے نفس کا احتساب کریں اور وقت کی قدردانی کے ساتھ آنے والے سال کا استقبال کریں ۔
یاد رکھیں!!
انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، جسکے لیے محاسبہ نفس، اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
22اگست2020(فکروخبر)
جواب دیں