دوستی اور مہمان نوازی کی اسی روایت کے تحت اس بار 26 ؍جنوری کی تقریب میں ہندوستان نے جاپان کے وزیر اعظم شنرو ابے کو مدعو کیا تھا۔دونوں ملکوں کے درمیان گرم جوشی کا یہ مظاہرہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ دونوں ہی کوچین کی طرف سے یک طرفہ خطرے کی صورتحال کا سامنا ہے ۔یعنی چین نے جہاں جاپان کے ایک جزیرے پر اپنا دعویٰ کرنا شروع کرد یا ہے وہیں اس کی فوجوں نے ہماری سرحدوں میں بھی گھس پیٹھ کرکے اپنے خطرناک عزائم کا اشارہ دینا شروع کردیا ہے ۔اکثر تبصرہ نگاروں نے ہند چین دوستی کے تعلق سے روایتی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چین اور جاپان کے تعلقات میں جو تلخی دکھائی دے رہی ہے ،جاپان چاہے گا کہ چین میں قائم اپنی چودہ ہزار صنعتوں کو کئی دوسرے ممالک میں منتقل کردے اور اس نے اپنے صنعت کاروں کو ایسا کرنے کا مشورہ بھی دے دیا ہے۔ ایسے میں اگر ہندوستانی حکمراں جاپان کو اپنے اعتماد میں لے کر اپنی کثیر آبادی کی تصویر پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ اپنی ساری صنعتوں کو ہمارے ملک میں منتقل کر سکتا ہے ۔اس طرح ہماری افرادی قوت اور جاپان کی صنعت و ٹکنالوجی سے دونوں ممالک کو یکساں طور پر فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ۔کیا جاپان بھی اسی نظریے سے سوچتا ہے اور مستقبل میں چین اور جاپان کو لے کر ایشیاء اور دنیا کے دوسرے خطوں کی کیا صورتحال ہوگی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد ملکوں کے درمیان دوستی اور دشمنی کے زاویے میں نمایاں فرق محسوس کیا جاسکتاہے ۔اکثر انسان جس مفاد اور موقع پرستی کی وجہ سے وفاداریاں بدلنے کا عادی رہا ہے ۔خاص طور سے سرد جنگ کے بعد اس برائی میں اور بھی شدت پیدا ہو ئی ہے ۔ایک ملک دوسرے ملک کے کردار اور اس کی پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے ۔مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم میں ہمارے ملک کی فوجیں چین اور برطانیہ کی فوج کے ساتھ جاپان کے خلاف رہی ہے۔اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ہم مجبور تھے اور ہمیں برطانیہ سے آزادی بھی حاصل کرنی تھی ۔بعد میں روس جو کبھی ایک عرصے تک ہمارا با اعتماد ساتھی اور دوست ہوا کرتا تھا اور پاکستان کے خلاف دو معرکوں میں اس نے ہماری مدد بھی کی ۔اس کے بکھر جانے کے بعد ہم نے دوستی کی گیند اپنے ماضی کے دشمن ملک امریکہ کی طرف اچھال دی ہے ۔اس طرح ہم نے روس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے جبکہ امریکہ محض اپنے وقتی مفاد کیلئے ہمارے ساتھ ہے ۔ادھر حال ہی میں جس طرح اس نے اپنی سیکوریٹی کو لیکر ہمارے ملک کی بہت سی مقتدر شخصیات کی توہین کی ہے یہ صورتحال کسی بھی صورت میں ایک اچھے شگون کی علامت نہیں ہے۔اب ایک ایسے نازک وقت میں جبکہ ڈریگن ہمارے گردن کے قریب سانس لے رہا ہے جاپان کی دوستی کہاں تک ہمارے لئے فعال نیک ثابت ہوگی اس کی پیش گوئی کرنا بھی بہت مشکل ہے ۔مگر دوستی اور دشمنی کے تعلق سے اگر جدید دنیا میں کسی ملک سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے تو وہ جاپان ہی ہے ۔
کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ جس طرح امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما کو تباہ کرکے لاکھوں افراد کو اپاہج اور ہلاک کردیا تھا اور دہائیوں تک جاپان ایٹمی ذرات کے زہریلے اثر سے باہر نہیں آسکا۔پھر بھی اس نے اپنے اس دشمن سے ہاتھ ملا لیا تو اس لئے کہ جاپان نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ خود بھی تو اس جنگ کا قصور وار ہے ! جاپان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے نہ صرف اپنا ہاتھ روک لیا بلکہ اپنی شکست کو کھیل کا حصہ تصور کرتے ہوئے اپنے دشمن کو اس طرح گلے لگالیا جیسے کہ کھیل کے میدان میں ہارا ہوا بہادر کھلاڑی جیتے ہوئے کھلاڑی کو گلے لگا کر مبارکباد دیتا ہے ۔جاپان نے جس طرح اپنے دشمنوں کو بھی اپنے اعتماد میں لیا آج پوری دنیا اس پر اعتماد کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی صنعت و ٹکنالوجی کو دوبارہ ترقی دی اور معیشت اور ٹکنالوجی کے معاملے میں امریکہ اور چین کے مد مقابل کھڑا ہوگیا۔یہ سب کچھ اس لئے بھی ہو سکا کہ جاپان کے اپنے تعلیمی و تربیتی ڈھانچے میں صبر ضبط اور برداشت کو بہت ہی اہمیت حاصل ہے۔یا یوں کہہ لیجئے کہ گاما اور شمبھوجس کے معنی ہوتے ہیں صبر اور برداشت ،کی تعلیم بچوں کو ماں کی گود سے ہی ملنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ شدید سے شدید تر حالات میں بھی اپنی اس خوبی سے دستبردار نہیں ہوتا ۔حالانکہ جاپان نہ تو کوئی مسلم ملک ہے اور نہ ہی یہ قوم کسی نبی اور آسمانی کتاب کی تعلیمات سے ہی آشنا ہے اس کے باوجود دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپانی حکمرانوں کا جو فیصلہ رہا ہے تاریخ میں صبر ضبط اور تحمل کی ایسی مثال صرف اور صرف وقت کے رسول محمد عربیﷺ کی قیادت میں صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے وقت ہی ملتی ہے ۔اس کا سبق یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی کبھی اپنے مقصد کی تکمیل اور اپنے وجود کو دوبارہ ثابت کرنے کیلئے تھوڑا پیچھے ہٹ کر ذلت اور رسوائی کے مرحلے سے بھی گذر جانا فتح اور کامیابی کی علامت ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر جاپان کو یہ پتہ ہوتا کہ امریکہ کے پاس جاپان کو تباہ کرنے کیلئے صرف یہی دو ایٹم بم تھے تو ممکن ہے کہ وہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکہ کے کئی شہروں کو تباہ کردیتا ۔مگر جاپان نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ایک شخص کے تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دینا تو بہت آسان ہے مگر جب دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ نہ ہو تو پھر اس ذلت کو اس لئے بھی برداشت کر لینا چاہئے کہ کہیں اس کا دشمن جوابی کارروائی سے مشتعل ہو کر طاقت ور حربے کا استعمال نہ کر بیٹھے اور اسے اپنے وجود سے ہی ہاتھ دھونا پڑے ۔جاپان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے اپنے دشمن کو با اعتماد دوست بنالیا ۔ویسے ہی جو قوم صبر و برداشت کی قوت سے محروم ہوجاتی ہے وہ زندگی کے کسی موڑ پر صحیح فیصلہ کرنا تو دور کی بات فساد اور بغاوت جیسی صورتحال سے دو چار ہوتی ہے ۔جاپانی قوم جھوٹ بے ایمانی بے وفائی اور وعدہ خلافی کے معاملے میں دیگر ممالک اور قوموں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر پائے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے لوگ بھی جاپان کی کمپنیوں اور صنعتوں پر اعتماد کرتے ہوئے تجارت کرنے کیلئے مجبور ہیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جاپان سپر پاور ہو گیا جبکہ اگر اس نے بھی دنیا کو تسخیر کرنے کے عزم کو لے کر تکبر کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو وہ دنیا کے سپر پاور کے درجے تک ضرور پہنچ گیا ہوتا ۔مگر اپنی غلطی کو تسلیم کرلینے میں دنیا کی خلافت اور اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ مل جائے تو برا ہی کیا ہے؟ خود امریکہ نے جاپان کے اس اعتماد کو ٹوٹنے نہیں دیا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ چین نے جاپان کے متنازعہ جزیرے پر تقریبا اپنے قبضے کا اعلان کردیا تھا چین کے خلاف سخت ردعمل اختیار کرتے ہوئے اسے پیچھے ہٹنے کیلئے مجبور کردیا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بھی کوئی ایسا با اعتماد ساتھی بنایا ہے ؟ہماری معاشرتی سماجی خاندانی اور اخلاقی صورتحال یہ ہے کہ بھائی بھائی پر پڑوسی پڑوسی پر میاں بیوی پر اور والدین بچوں پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔عوام اور سیاستدانوں کے درمیان بد ظنی کی خبریں تو روز اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ مالکان اور مزدور وں کی بے ایمانی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر فیکٹریوں میں سپر وائزر اور کیمرے نہ ہوں تو مزدور مفت میں ہی تنخواہ لینا چاہیں گے ۔ایسے میں کیا جاپان کو اپنا دوست بنا پائیں گے اور کیا جاپان ہمارے ان مزدوروں سے کام کرواپائیگا اورکسی بھی خطرے کے وقت وہ کہاں تک ہماری مدد کرپائے گا ۔جاپان نے تو چین کے خطرے سے نپٹنے کیلئے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی سوچنا شروع کردیا تھا ۔ہمارے سیاستدانوں نے تو نہ صرف پڑوسی ممالک کو اپنا دشمن بنایا ہے بلکہ ملک بہت بڑی آبادی کو ذات پات ،مذہب اور علاقائیت کے تنازعے کو ہوا دے کر فساد برپا کیا ہے ۔ضرورت ہے ملک کے تعلیمی نظام کو بدلنے کی تاکہ نئی نسل کو اخلاق و اقدار کی تعلیم سے آراسہ کرکے آپس میں یقین و اعتماد کی فضا قائم کی جائے ۔اس طرح جو نوجوان قیادت تیار ہوگی وہی ملک کو شدید بحران سے باہر نکال سکتی ہے ۔ ورنہ سیاستداں ایک دوسرے پر لعن طعن کرکے ملک کو جس رخ پر لے جارہے ہیں یہ صورتحال ملک کی سلامتی کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔(
جواب دیں