سوہانِ روح

امریکانے گزشتہ ماہ لویہ جرگہ کے ذریعے ہونے والے معاہدے پردستخط کیلئے ۳۱دسمبرکی تاریخ دی تھی جس کے جواب میں کرزئی نے گوانتاناموبے میں قیدپانچ طالبان رہنماؤں کی واپسی کی شرط عائدکی تھی مگرامریکانے یہ شرط ماننے سے انکارکردیاجس کے بعد امریکانے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے افغان صدرپردباؤ ڈالنا شروع کردیااوراس کیلئے امریکی صدرکے سیکورٹی ایدوائزرسوزان رائس خودافغانستان پہنچے مگرکرزئی نے ان کی بات ماننے سے نکارکردیاجس کے فوری بعدکرزئی پردباؤبڑھانے کیلئے اچانک امریکی وزیردفاع چک ہیگل نے افغانستان کادورہ کیااورملاقات کے ایجنڈے میں معاہدے پردستخط سرِفہرست تھے تاہم کرزئی نے امریکی وزیردفاع کی بات ماننے سے بھی صاف انکارکردیااورچک ہیگل اورکرزئی کی ملاقات بھی نہ ہوسکی۔ایک خبریہ بھی ہے کہ کرزئی نے پہلی مرتبہ امریکی اعلیٰ عہدیدارچک ہیگل سے ملنے سے انکار کر دیا اور اس طرح یہ چک ہیگل کادورہ اپنے ناکام انجام کوپہنچ گیا۔
دراصل امریکی وزیردفاع دونکاتی ایجنڈے پربات چیت کیلئے آئے تھے،ایک حالیہ متنازع افغان امریکی معاہدے پردستخط اوردوسراایران کے ساتھ معاہدے پردستخط سے روکناتھا تاہم کرزئی نے معاہدے پردستخط کرنے سے صاف انکارکردیاجس کے بعدچک ہیگل کومجبوراًتاریخ بڑھاناپڑی اوراب امریکانے کرزئی کوکوفروری کی نئی تاریخ دی ہے اوردوسری جانب کرزئی نے امریکاکی پرواہ کئے بغیرایران کادورہ کرکے وہاں ایران کے ساتھ راہداری ،اقتصادی اوراسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کردیئے ہیں جس پرامریکانے اپنی سخت تشویش کااظہارکیاہے تاہم کرزئی کاکہناہے کہ ایران اورامریکاکے درمیان ایٹمی پروگرام پرمعاہدہ ہوچکاہے اس لئے اب افغانستان اورایران کے درمیان معاہدے پرکوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔اس موقع پردونوں ممالک کے صدورنے بین الاقوامی فوج کے افغانستان سے جانے کابھی مطالبہ کیاہے جس سے ظاہرہورہاہے کہ اب افغان صدربھائی کی حمائت نہ کرنے کی صورت میں پانسہ پلٹنے کی کوشش کرسکتے ہیں اورکرزئی قبائلی عمائدین کے جرگے کے ذریعے اپنی مدت صدارت ۲۰۱۸ء تک بڑھابھی سکتے ہیں اس لئے امریکاکواس وقت افغانستان کے حوالے سے شدیدتشویش کاسامناہے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان کادورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ امریکانے پاکستانی وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ وہ کرزئی کومعاہدے پردستخط پرآمادہ کریں تاہم کرزئی نے پاکستانی وزیراعظم کوبتایاکہ پاکستان جوکچھ بھی چاہتاہے افغانستان دینے کیلئے تیارہے جس کے بعدپاکستانی وزیراعظم واپس آگئے تاہم کرزئی کومعاہدہ پردستخط کیلئے وہ بھی آمادہ نہ کرسکے۔کرزئی کی جانب سے امریکی حکام کودوٹوک جواب دینے کے بعدطالبان اورحزب اسلامی نے اپنے خصوصی پیغامات میں کہاہے کہ اگرکرزئی ڈٹ گئے تووہ افغانستان کے اندرایک امن کونسل کی تشکیل کیلئے تیارہیں جوافغان حکومت اورمتحارب دھڑوں کے درمیان امن فارمولہ طے کرے گی ۔ان تنظیموں کویہ بھی کہناہے کہ افغان صدرکواپنے مؤقف پرڈٹ جاناچاہئے اورتمام غیرملکی افواج کوافغانستان سے نکال کرافغان آپس میں بیٹھ کراپنامستقبل طے کرسکتے ہیں۔
ان بیانات کے بعدکرزئی کی پوزیشن مزیدمضبوط ہوگئی ہے تاہم ان حالات میں افغان صدرکے خلاف ان کی اپنی کابینہ میں بغاوت کاامکان بھی بڑھ گیاہے کیونکہ افغان وزیردفاع جنرل بسم اللہ خان نے امریکاکومعاہدے پربہت جلددستخط ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ وزیردفاع کی حیثیت سے جنرل بسم اللہ خان خوداس معاہدے پردستخط کردیں کیونکہ امریکاسے ہونے والایہ معاہدہ بھی توایک دفاعی معاہدہ ہے۔ادھردوسری طرف امریکاکونیٹوسپلائی کی بندش پربھی سخت تشویش ہے اورافغانستان میں امریکی فوجی حکام نے اپنے وزیردفاع سے اس اندیشے کااظہارکیاہے کہ اگرنیٹوسپلائی کی بندش تین مہینے سے بڑھ گئی تواسٹرٹیجک معاہدے کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوگاتاوقتیکہ ایران کے ساتھ نیٹوسپلائی کامعاہدہ نہیں ہوجاتاتاہم یہ معاہدہ چھ ماہ سے قبل نہیں ہوسکتاہے کیونکہ ایران کوچھ ماہ کاوقت دیاگیاہے جبکہ چھ ماہ بعدافغانستان سے امریکی انخلاء شروع ہونے والاہے اس لئے امریکی انخلاء سے قبل کم ازکم دسمبرسے مارچ تک چارماہ پاکستان سے سپلائی ہرصورت جاری رہنی چاہئے جس کے بعدامریکی وزیردفاع نے پاکستان کے ہنگامی دورے میں پاکستان کودوٹوک الفاظ میں انتباہ کیاکہ اگرنیٹوسپلائی بحال نہ کی گئی توپاکستان کودی جانے والی ہرقسم کی امدادروک دی جائے گی جس کے بعدنوازشریف نے نیٹوسپلائی بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم جوبات عمران خان اوران کے اتحادی چاہتے تھے ،حالات اسی جانب تیزی سے گامزن ہیں۔
عمران خان اوران کے اتحادی بلدیاتی انتخابات سے قبل مہنگائی ،ڈرون حملوں اورکرپشن کے خلاف ملک گیرتحریک شروع کرناچاہتے ہیں اوراس تحریک کاآغازڈرون حملوں کوبند کروانے کیلئے نیٹوسپلائی کومعطل کرنے سے شروع ہوچکاہے اوراگرحکومت نے بزورطاقت نیٹوسپلائی بحال کرنے کی کوشش کی توعوام کوجوڈرون حملوں کاشدیدغصہ ہے اس کارخ حکومت کی طرف مڑجائے گااورحکومتی ایکشن پرپورے ملک میں احتجاجی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔عمران خان نے مہنگائی کے خلاف احتجاج کیلئے ۲۲دسمبرکو لاہورمیں سونامی لانے کاجواعلان کیاتھاوہ بغیرکسی ہنگامے اورتوڑپھوڑکے بخریت گزرگیاجس کی انہوں نے یقین دہانی بھی کروائی تھی ۔ادھرسپریم کورٹ کے حکم کے بعددوانتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے نتائج موجودہ حکومت کے خلاف سامنے آئے تواحتجاجی تحریک کوئی بھی رخ اختیار کرسکتی ہے کیونکہ عمران خان اوران کے اتحادی جماعت اسلامی کے منشورکیلئے خیبرپختونخواہ میں جواکثریت درکارہے وہ ان کے پاس نہیں ہے اوریہی وجہ ہے کہ انہیں احتساب بل اوربلدیاتی بل سمیت دیگرایشوزپرمشکلات کاسامناہے اوروہ چاہتے ہیں کہ ملک میں دوبارہ انتخابات ہوں،اس کیلئے عمران خان اوران کے اتحادی تیاری کررہے ہیں۔اب نواز شریف اگرصوبے میں گورنرراج لگاناچاہتے ہیں توپھرمہنگائی کے مارے عوام اٹھ کھڑے ہونگے اورجس کے بعدنیٹوسپلائی لائن کھلوانامزیدمشکل ہوجائے گابلکہ یہ تحریک احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوجائے گی اوراگرنیٹوسپلائی مزیدبندرہتی ہے توکرزئی کوبھی اس کافائدہ ہوگاکیونکہ کرزئی پرپڑنے والادباؤ بھی کم رہے گاتاہم چندہفتوں میں اس کافیصلہ ہو جائے گا۔ کیاموجودہ حکومت کواس بات کاادراک ہے کہ آئندہ چندمہینوں میں پاکستانی عوام عبدالقادرملا کی شہادت پرحکومتی مجرمانہ خاموشی،بھارت کے ساتھ دوستی کایکطرفہ ارمان اور نئے انتخابات کے انعقادجیسے مطالبات کی بھرپورعملی حمائت ان کیلئے سوہانِ روح بن سکتے ہیں! 

«
»

ظلم و بربریت کا بازار صرف ایوانِ اقتدار تک محدود نہیں۰۰

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن………International Mountains Day

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے