قسط اول
وزیر احمد مصباحی (بانکا)
fik_موجِ خیال
کہتے ہیں کہ کوئی بھی شئی بذاتِ خود بری یا اچھی نہیں ہوا کرتی ہے، بلکہ وہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔اگر وہ خیر کے کاموں اور اخوت و بھائی چارگی کے فروغ میں اس کا استعمال کرتے ہیں توکہا جائے گا کہ وہ شئی بہتر اور درست جگہ پر استعمال کی جا رہی ہے۔لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے اور خیر کے کاموں میں نہ لا کر اسے محض برائیوں و فحاشیوں کا اڈہ بنا دی جائے تو پھر یہی چیز عند الناس محبوب ہونے کے بجائے ناپسندیدہ اور قبیح سمجھی جانے لگتی ہے۔
سوشل میڈیا بھی در حقیقت اسی نوعیت کی ایک شئی ہے۔ہمارے سماج و معاشرے میں زندگی گزار رہے سنجیدہ فہم اور ذی علم حضرات بھی اسے اسی وقت اچھا گردانتے ہیں جب اس کا استعمال خیر کے فروغ اور امن و آشتی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہو۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کی حیثیت ہمارے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔آج اس کی اہمیت و افادیت سے سرِ مو انحراف نہیں کیا جا سکتا۔یہ انٹر نیٹ سے جڑا ایک ایسا نیٹورک ہے جو لوگوں کو اظہارِ رائے، تبادلئہ خیال، تصاویر و ویڈیوز اشتراک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کھلی اجازت فراہم کرتا ہے۔اسی طرح علمی و عملی استفادہ کرنے، نئی نئی معلومات کے حصول، تجارت کے فروغ اور فوری جدید و اہم خبروں سے شناسائی حاصل کرنے کا ایک مقبول ترین ذریعہ ہے۔ایسا ہو بھی کیوں نا! جب کہ یہ خود اطلاعات کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین ذریعہ بن کر سامنے آیا ہے۔یہ اسی کی مرہونِ منت ہے کہ آج وہ حقائق جو نیوز چینل پہ ہم تک نہیں پہنچ پاتے میڈیا ان کا پردہ فاش کر دیتا ہے۔گھنٹوں کے کام منٹوں و سیکنڈوں میں پایہ تکمیل تک پہچانا اسی کا خاصہ ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اس کی شہرت و مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں اس کا استعمال بکثرت ہونے لگا ہے۔ہر طبقے کے لوگ یہاں پر اپنا اچھا خاصا وقت صرف کرتے ہیں۔ہاں! اس کی مقبولیت کے لییاس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اس وقت وہ لوگ بھی جن کا قرطاس و قلم اور تسبیح و مصلی اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا، اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر نظر آتے ہیں"۔
لیکن متذکرہ بالا تمام اہمیت و افادیت اور شہرت و مقبولیت کے باوجود اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی کہ اس کے ذریعہ آج ہمارے معاشرے میں اخلاقی و سماجی خرابیوں نے بھی کافی فروغ پایا ہے۔آج یہی سوشل میڈیا تفریحی سرگرمیوں کے فروغ اور سرمائہ وقت کے ضیاع کا مرکز بھی بنا ہوا ہے۔آئے دن ہمارے نونہالانِ قوم مخرب اخلاق اور بے ہودہ حرکتوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔آج ایک انسان سوشل میڈیا پر بیٹھ کر جتنی زیادہ برائیوں کا ارتکاب اور فحاشیوں کا بازار گرم کر سکتا ہے دورِ ماضی میں کبھی اس کے لیے ایک مدتِ مدید بھی ناکافی تصور کیا جاتا تھا۔آج فیسبک، ٹیوٹر، یوٹیوب، بلاگر اور انسٹا گرام جیسے جدید ذرائع ابلاغ کو مغربی تہذیب نے جس قدر شبہات سے بھر رکھا ہے اور عریانیت کے دلدادہ لوگوں نے بے حیائی، فحاشی اوررقص و سرور کے جو گل کھلا رکھے ہیں اسے دیکھ کر بسا اوقات تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ معیارِ انسانیت سے بلکل نیچے جا چکے ہیں اور حیوانیت کے اس صف میں داخل ہو چکے ہیں جس کے پاس نہ تو عقل کی کوئی پونجی ہوتی ہے اور نہ ہی خرد کی کوئی کسوٹی۔
یہ سادہ اور عام فہم فلسفہ تو شائد ہر کوئی جانتے ہوں گے کہ کوئی غذا ہماری صحت و تندرستی کے خاطر کتنی ہی زیادہ مفید اور اہمیت کی حامل کیوں نہ ہو، اگر کہیں ضرورت سے زیادہ استعمال کر لی جائے تو پھر اس کا سائڈ ایفیکٹ ہونا تو لازمی ہی ہے۔کچھ یہی حال سوشل میڈیائی نظام کا بھی ہے۔ہر ٹکنا لوجی اپنے آپ میں دو پہلو سمیٹے ہوئے ہیں۔ایک مثبت تو دوسرا منفی۔آج کی اس رنگا رنگ دنیا میں جہاں اس کے مثبت پہلو نے سماج و معاشرہ کی تعمیر و تشکیل میں زبردست کردار ادا کیا ہے وہی پر اس کے منفی پہلو نے بھی شرفائے زمانہ کی اخلاقی اقدار پر سوالیہ نشان لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔خصوصاً نئی نسل کے ذہن و دماغ پر تو اس کے اثرات کافی نمایاں ہیں۔اکثر اوقات ان کی انگلیاں اسمارٹ فون پر اس طرح رقص کرتی نظر آتی ہیں کہ مانو اسے ناچنے کا بخار چڑھ گیا ہو۔بچے، بوڑھے، نوجوان، مائیں اور بہن بیٹیاں وغیرہ ہر کوئی اس کے دلدادہ و مداح نظر آتے ہیں۔صبح و شام ہر وقت ان کا دھیان سوشل میڈیا پر لگا رہتا ہے۔دن بھر کی لاکھ تھکاوٹ کے باوجود بھی کچھ لوگ تو اس وقت تک آغوشِ نیند میں نہیں چلے جاتے جب تک کہ وہ کچھ دیر کے لیے سوشل میڈیا کے یہاں مہمان بن کر وقت گزاری نہیں کر لیتے۔
یقیناً اب ایسے حالات میں اگر کوئی صاحب اسے بیکار وقت گزاری کا اڈہ گردانے تو کم از کم میرے خیال میں وہ غلط نہ ہوگا۔آج حضرتِ انساں اس کی رنگینیوں میں گم ہو کر وقت جیسی بیش بہا نعمت کو اس طرح برباد کر رہے ہیں کہ جیسے اس کے یہاں وقت کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔جب کہ وقت کے حوالے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ "وقت اس تلوار کی مانند ہے کہ اگر تم اسے نہیں کاٹوگے تو وہ تمھیں کاٹ کر آگے نکل جائے گی".ہاں! سوشل میڈیا کے خمار کا عالم اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ آج ایک ماں پر چیٹنگ کا بھت اس طرح سوار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں و جگر پاروں تک سے مکمل طور پر غافل و بے پرواہ ہو جایا کرتی ہے۔جی! ایسی انہماکیت کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔
مجھے یاد آتا ہے کہ جب میں جماعت سابعہ/سادسہ کا طالب علم ہوا کرتا تھا اور میں اپنے دوست و احباب کے ساتھ مادرِ علمی "جامعہ اشرفیہ مبارکپور"آنے کے لیے ٹرین کے ایک جنرل بوگی میں سوار تھا۔رات کے تقریباً تہائی حصے گزر جانے کے بعد جب گاڑی "سمستی پور"اسٹیشن پر رکی تو اتفاقاً اسی بوگی میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون اپنے تین چھوٹے ننھے منھے بچوں اور رختِ سفر کے ساتھ سوار ہوئی۔لیکن (اللہ کی پناہ) چند ہی لمحے بعد اس نے میڈیائی خمار میں چور ہو کر اپنے بچوں کے ساتھ جس قدر لاپرواہی و بیرغبتی کا اظہار کیا اس سے ذہن و دماغ بلکل ماؤف ہو کے رہ گیے۔دریچئہ ذہن میں بس ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ کیا دامنِ تاریخ میں بچوں کے تئیں ماؤوں کے جو شفقت بھرے داستان مرقوم ہیں وہ اب اس دورِ جدید میں بس یوں ہی قصئہ پارینہ بن کے رہ جائیں گے؟ وہ خاتون اپنے رختِ سفر اور بچوں کے بیٹھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاشے بغیر انٹر نیٹ کی رنگینیوں میں اس طرح گم ہوئی کہ بچے جھپکیاں لیتے لیتے تھک گیے۔لیکن کافی دیر بعد جب اسی ماں کی آنکھ پر غلبئہ نیند وار کرنے لگا تو خود سُرمئہ خواب سجانے کے لیے اپنے بچوں کے نرم و نازک زانوؤں کو بحیثیت تکیہ استعمال کر کے خوابِ خرگوش کا مزہ لینے لگی۔
غرض یہ کہ اقوامِ عالم پر جدھر نگاہ دوڑائے ادھر ہی سوشل میڈیا کے دیوانے نظر آئیں گے۔اور ہاں دیوانہ پن بھی اس قدر کہ نہ وقت پر کھانے، پینے اور سونے کی پرواہ، نہ آنکھ، کان، دل و دماغ اور دیگر اعضائے جسمانی کے آرام و راحت کی کوئی فکر۔پنج وقتہ نماز سے غفلت حتی کہ گاڑی ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہمہ وقت سوشل میڈیا اور موبائل فون کے اسکرین پر اس طرح توجہ لگا رہتا ہے کہ جیسے اس نے نسلِ نو کو وقت سے پہلے جوان اور جوانوں کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا ہو۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضرورینہیں ہے
24جون2020(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں