سوشل میڈیا کے کندھوں پر سوار ہوکر سعودی عرب میں آئے گی جمہوریت؟

سعودی عرب آزاد ہوگا اور یہاں جمہوریت آئے گی یا داعش کے جنگ جو قابض ہوجائینگے؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ وہ ان دنوں چکی کے دوپاٹوں میں پس رہا ہے یہ ملک۔ اس کی دونوں جانب سے خطرے آرہے ہیں اور اس کے حکمراں سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اپنے تخت وتاج کی حفاظت کیسے کریں؟موجودہ عالمی حالات اور گلوبلائزیشن کے عہد میں سعودی آمرانہ نظام کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ساری دنیا سے گھوم پھر کر آنے والے اور انٹرنیٹ کے ذریعے بین الاقو امی حالات سے باخبر سعودی باشندے اب آزادی کے ماحول میں سانسیں لینے کے لئے بے قرار دکھتے ہیں۔اسی لئے اب سعودی عرب دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا ہے اور شدت پسندجماعتوں کی پشت پناہی سے توبہ کر رہاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی حکمرانوں کو اقتدار کھونے کا خوف پیدا ہوچلا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ وہ خود کو اعتدال پسند ظاہر کررہے ہیں اور شدت پسندوں سے دوری بناتے جا رہے ہیں؟ کیا یہ شدت پسند گروپ اب اپنے ہی آقا کے اقتدار کے لئے خطرناک بنتے جا رہے ہیں؟ داعش، القاعدہ اورطالبان جیسی جماعتوں کی سرپرستی کے الزام سے گھرا ہوا سعودی عربیہ اب ساری دنیا میں نہ صرف انتہا پسندی کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اسلام پسندی کا بھی مخالف بن گیا ہے۔ اسی کے ساتھ سعودی معاشرے میں بھی زبردست بدلاؤ کی لہر چل رہی ہے اور نئی نسل کے لوگ اب گھٹن بھرے ماحول سے نکل کر آزادی کی فضا میں سانسیں لینا چاہتے ہیں۔ عوام میں آزادی کی لہر پیدا کررہے ہیں سوشل میڈیا، انٹر نیٹ، فلم، ٹی وی اور عوام کے اندر بڑھتی تعلیمی بیداری۔ ان تمام طوفانوں نے مل کر سعودی شہنشاہیت کی چولیں ہلانی شروع کردی ہیں مگر سعودی عرب اور اس کے مغربی آقا بہرحال اس کے تحفظ کا وعدہ نبھانا چاہتے ہیں۔ سعودی عربیہ نہ صرف داعش کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اس نے مصر کے عوام کے ذریعے منتخب اسلام پسند پارٹی اخوان المسلین کی بھی مخالفت کی ہے اور اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ریال کو پانی کی طرح بہایا ہے۔اس نے پہلے داعش، القاعدہ جیسی شدت پسند جماعتوں کی بعض سیاسی اور مذہبی اسباب سے حمایت کی تھی مگر اب وہ ان کا ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ اس نے جنھیں دنیا کے لئے کھڑا کیا تھا وہی آج اس کے لئے خطرناک ثابت ہورہے ہیں ۔ داعش اعلان کرچکا ہے کہ وہ پورے عرب پر قبضہ کرے گا اور اپنی خلافت کا مرکز مدینہ منورہ کو بنائے گا۔
وہابیت سے بے زاری کا اظہار
سعودی عربیہ کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے فرانس میں عالمی لیڈروں کی ایک کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں یوروپ و امریکہ کے ساتھ ہیں اور آئندہ دس برسوں میں وہ اس شدت پسند گروہ کا نام و نشان مٹادینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے داعش کو دنیا کے لئے خطرناک بتاتے ہوئے اس کے خلاف جنگ کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ لوگ وہابی نہیں ہیں بلکہ مسلمان ہیں اور میڈیا نے ان کے اوپر وہابیت کا ٹھپہ لگایا ہے۔ایک سعودی شہزادے اور وزیرکی زبان سے یہ بیان سن کر بہتوں کو حیرت ہوئی اور ایسا لگا گویا کسی نے کہہ دیا ہو کہ’’ شیطان نے بہکانے سے توبہ کرلیا‘‘ ۔اصل میں مغربی میڈیا میں یہ خبر گردش کر تی رہی ہے کہ القاعدہ، طالبان، داعش اور اس جیسی دیگر شدت پسند جماعتوں کی پشت پناہی سعودی عرب کرتا ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جماعتیں بھی سعودی حکومت کی طرح وہابی نظریہ رکھتی ہیں۔یہ لوگ اپنے سوا باقی مسلمانوں کو مشرک، بے دین اور بدعتی سمجھتے ہیں۔ یہ شدت پسندی ہی ہے کہ داعش کے لوگ بغیر سوچے سمجھے بے گناہوں کا قتل کر رہے ہیں۔یونہی طالبان نے بھی اپنے اقتدار میں لوگوں کو اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لئے ڈنڈوں کا استعمال کیا تھا۔ نماز پڑھوانے اور داڑھیاں رکھوانے کے لئے لوگوں کو سزائیں دی گئی تھیں۔ معمولی معمولی غلطیوں پر جیل اور قتل تک کی سزائیں دی جاتی تھیں۔ خواتین کو گھروں کے اندر قید کر کے رکھ دیا گیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ دنیا اکیسویں صدی میں نہیں بلکہ عہدِ وسطیٰ میں ہے۔ ظاہر ہے اسلام کی یہ وہی تصویر ہے جس کو سعودی حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے اسلام کے نام پر پینٹ کیا تھا ورنہ رحمۃ اللعالمین کا رحمت بھرا دین دنیا والوں کے لئے ایسا عذاب نہیں بن سکتا تھا۔ بات بات پر جیل اور قتل کی سزائیں کبھی رسول اللہ اور صحابہ کے زمانے میں نہیں دی گئیں۔ یہ سب صرف سعودی عرب، طالبان اور داعش کے علاقے میں ہوتا ہے،جن کی نظر میں اسلام رحمت سے زیادہ زحمت بن جاتا ہے۔کیا یہ وہی اسلام ہے جس کی دعوت رسول اللہ نے دی تھی؟
داعش کی پشت پناہی سے مخالفت تک
ایران الزام لگا چکا ہے کہ داعش کی پشت پر سعودی عرب ہے مگر اب حالات مختلف ہیں اور وہ داعش کی حمایت سے توبہ کرچکا ہے۔ اصل میں کھیل یہ تھا کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے اور عراق کاموجودہ حکمراں طبقہ بھی شیعہ ہے۔دوسری طرف شام کے صدر بشار الاسد بھی شیعہ ہیں ایسے میں سعودی عرب شامی صدر مخالف جنگ جو گروپ داعش کی حمایت کر کے اس خطے میں ایک وہابی سلطنت قائم کرنا چاہتا تھا ۔ مغرب بھی اس کے لئے تیار تھا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ سعودی عرب کی طرح وہ بھی اس کے مفادات کا محافظ ہوگا۔ ابتدا میں اس کی پشت پر امریکہ بھی تھا جو کسی بھی قیمت پر بشارالاسد کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا مگر اب داعش اس قدر طاقت ور ہوچکا ہے کہ وہ امریکہ اور یوروپ سمیت سعودی عرب کو بھی آنکھ دکھا رہا ہے۔ اس نے اسلامی خلافت کے قیام کا جو منصوبہ بنایا ہے اس میں مدینہ منورہ کو اسلامی خلافت کی راجدھانی قرار دیا ہے۔ پچھلے دنوں داعش نے سعودی عرب کے خلاف ایک مہم چھیڑی جس کا عنوان ہے ’’قدمون‘‘ یعنی ’’ہم آرہے ہیں‘‘۔ اس مہم میں تیزی سے لوگ جڑ رہے ہیں اور نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے اسے خوب حمایت مل رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج سعودی عرب کے پاؤں تلے کی زمین نکل رہی ہے اور اسے احساس ہورہا ہے کہ شدت پسندی کا آسیب اسے بھی بخشنے کے لئے تیار نہیں، حالانکہ اس کی پرورش اسی نے کی ہے۔ سعودی عرب، داعش کے جنگ جووں سے اس قدر دہشت زدہ ہے کہ اس کے خلاف مہم میں وہ پیش پیش ہے اور پیسے پانی کی طرح بہا رہا ہے۔ اس کے پروردہ علماء نے بھی متفقہ طور پر اسے خارجی کہنا شروع کردیا ہے، حالانکہ جس طرح سے آج داعش والے مسلمانوں کو ہی قتل کر رہے ہیں اسی طرح سعودی خاندان کی حکومت کے قیام کے لئے بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ 
آزادی کے لئے بے قراری
اسلام اعتدال پسندی کا مذہب ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے مگر سعودی عرب میں اسلام کے نام پر ایک ایسی حکومت قائم کی گئی ہے جو عوام کو آزادی نہیں دیتی ،صرف شاہی خاندان کے لوگوں کو ہی آزادی دیتی ہے۔ سعودی شہنشاہیت کے نمک خوار ساری دنیا میں اسے اسلامی حکومت کا نام دے کر پروپیگنڈہ کرتے پھرتے ہیں اور مسلمانوں کو حرمین شریفین کے بہانے اس کا عقیدت مند بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام انسان کو انفرادی اور اجتماعی آزادی دیتا ہے۔ اسلام کے نام پر جس قسم کے قوانیں سعودی عرب میں نافذ ہیں ایسے قوانین نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھے اور نہ ہی خلفاء راشدین کے زمانے میں۔ غیر معتدل اور شدت پسندانہ نظام سعودی شریعت ہوتو ہو اسلامی شریعت کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ یہ انسان کی فطری آزادی کے خلاف بھی ہے اسی لئے آج سعودی عوام بھی اس قید وبند سے آزاد ہونے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔آزادی کی لہر کبھی بھی طوفان بن سکتی ہے جو سعودی تخت وتاج کو بہاکر لے جاسکتی ہے۔ اس کے پاؤں کی چاپ انٹرنیٹ، فیس بک ، ٹوئٹر اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر محسوس ہورہی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں اور تبادلۂ خیال کرسکتے ہیں۔حالانکہ حکومت بھی اسے محسوس کر رہی ہے مگر اسے سمجھ نہیں آرہا کہ اس طوفان پر بند کیسے باندھے؟یہاں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نئی نسل اس سے جڑتی جارہی ہے۔ لوگوں کو جنگ جو بنانے کے لئے شدت پسندگروہ بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں ۶۰ فیصد لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ دنیا میں بہت اونچی شرح ہے۔ بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں میں صرف ۸ یا ۹ فیصد افراد ہی انٹرنیٹ تک پہنچ رکھتے ہیں۔ آج سعودی نوجوان اپنا اچھا خاصا وقت فیس بک اور ٹوئٹر پر گزارتے ہیں اور آزادی کے ساتھ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر ۲۶ سے ۳۴ سال کے بیچ کی عمر کے ہیں۔سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں میں ۸۷ فیصد مرد ہیں۔ یہاں نہ تو جلسہ جلوس کی اجازت ہے اور نہ ہی اخبارات اور ٹی وی چینل آزادی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کرسکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کا تبصرہ جرم ہے لہٰذا ایسی بات نہ تو ٹوئٹر پر لکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی فیس بک پر پوسٹ کی جاسکتی ہے۔ اخبار اور ٹی وی پر کسی ایسی بات کا تصور بھی ممکن نہیں ہے مگر اب سعودی شہری اس کے لئے’’ یوٹیوب‘‘ کا استعمال کر رہے ہیں اور اپنی پہچان پوشیدہ رکھ کر ایسی چیزیں یہاں اپ لوڈ کرتے ہیں جو حکومت کے لئے پریشان کن ہوتی ہے۔حالانکہ حکومت کے کارندے ایسی سائٹس پر نظر رکھتے ہیں جس پر کوئی حکومت مخالف پوسٹ ہوتا ہے اور اسے جام کردیتے ہیں۔ ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ انٹر نیٹ کا استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد روزانہ ’’یوٹیوب‘‘پر کم از کم ۸ ویڈیو دیکھتی ہے۔ اس میں فلم، ٹی وی سیریل کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں سائبر کرائم کے خلاف قانون موجود ہے مگر اس کا مقصد کرائم کو روکنے سے زیادہ حکومت کے خلاف اس کا استعمال روکنا ہے۔
اصلی اسلام کونسا؟
آزادی کی فضا میں جینے کے لئے سب سے زیادہ وہ لوگ پریشان ہیں جنھوں نے اپنے ملک کے باہر کبھی وقت گزارا ہے۔ یہاں کے باشندے اکثر یوروپ اور ایشیا کے دوسرے ممالک سیروتفریح کے لئے جاتے رہتے ہیں،نیز نئی نسل میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے ایسے نوجوان اس سماج میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ یونہی یہاں شیعہ مسلمانوں کی آبادی ۱۲فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے جنھیں شہری آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ وہ اپنے طریقے کے مطابق مذہبی امور کی ادائیگی بھی نہیں کرسکتے۔ یہی سبب ہے کہ اب عوام کھلے ماحول میں جینے کے لئے بے چین ہیں اور سعودی حکومت کو کئی جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ سعودی بادشاہ عبداللہ نے جو بعض قوانین میں ڈھیل دینا شروع کیا ہے اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ کہیں یہ گھٹن دھماکہ خیز نہ بن جائے جس میں سعودی تخت و تاج اڑ جائے۔ وہ قوانین جو پہلے اسلام کے نام پر تھوپے گئے تھے ،اب اسلام کے نام پر ہی ہٹائے جارہے ہیں۔ کوئی سمجھ نہیں پارہا ہے کہ سچا اسلام کونسا ہے پہلے والا یا اب والا؟ ویسے شہنشاہیت کا اسلام سے کیا تعلق؟

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے