سوچ ماضی کا جھروکہ بھی ہے حال کا انکشاف اور مستقبل کا زینہ بھی۔ سوچ کا ادنیٰ درجہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا اور بے عمل خواب کی دنیا میں کھویا رہنا بھی ہے اور یہی سوچ اپنے اعلیٰ درجہ میں بصیرت افروز سوچ اور خود سوچنے کی بصیرت بن جاتی ہے۔ بصیرت افروزی میں سوچ محض آرزومندی نہیں بلکہ ایک فکری رویہ یا Vision کہلاتی ہے۔ ماضی سے استفادہ حال کی آگہی لئے ہوئے مستقبل کی سوچ جب Imagination کہلاتی ہے تو یہ بلندی تخیل، تخلیقی قوت، پرواز فکر اور قوتِ اختراع پر محیط سوچ ہوجاتی ہے۔
آج کا بڑا چیلنج یہ ہے کہ مستقبل کو کیسے سوچا جائے جو ہمارے آج سے مختلف ہو۔ جو ہمیں ایک انجانے وقت میں داخل کرسکے۔ وقت جو ہمیں حال کے مروّجہ زْمروں سے باہر لاسکے۔ یہ سوچ حال سے ٹوٹنے اور منقطع ہونے کے لئے ہے جس کا کوئی طے شدہ ماڈل تو نہیں بنایا جاسکتا مگر یہ وڑن(Vision) اس سے زیادہ ہے کہ ہم آج کیا ہیں۔ مْلکی، قومی، لسانی گروپوں کے حوالے سے مستقبل کی سوچ آرزو اور تمنا کی اْڑان کے ساتھ ساتھ بڑی گہری معنویت کی مْتقاضی ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو وجدان کرائے کہ ہم آج کیا ہیں، وہ ایقان پیدا کرے کہ ہم کل کیا ہوسکتے ہیں۔ ہمارے اطراف و جوانب اور اپنے وقت کی زندہ حقیقتوں کی پہونچ۔ یہ کسی قوم کے کرب کا گمان بھی ہے، جو بظاہر ادراک کے پرے ہوتے ہوئے بھی اس یقین کی دین ہے جو ہر تجربے سے پہلے ذہن میں اس طرح موجود رہے کہ اس کے بغیر تجربہ ممکن نہ ہو۔ وہ سوچ جو ایک مشترکہ سفر کی حاصل ہوتی ہے۔
سارے عالم میں اس طور پر سوچنے والے پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو مستقبل کا خیال رکھ کر چلنے والے معاشروں کو پیدا کرسکیں۔ سب سے زیادہ سامنے کے بات ماحولیات کو آلودہ ہونے سے بچانے کی ہے جس میں زمین پر چلنے پھرنے والے ہر شخص کا حصہ ہے۔ ہوا، پانی، زمین کا اندر اور باہر، فضا کا ہر ہر پرت آلودہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دنیا کے تمام اسکول، کالجوں، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں ہر دور کے تعلیمی نصاب میں مستقبل کا خیال رکھنے اور مستقبل کا مطالعہ متعدد طریقوں سے درس تعلیم کا ضروری حصہ بنانے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ مقصد مستقبل کو سوچنے کی عادت ڈالنا ہے۔
سوچ کی پہلی قسم مدلل سوچ یا Logical Imagination ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو موجودہ رویوں رائجTrends، رجحانات و میلانات اور فکری رخوں کی اچھائیوں کمیوں اور خرابیوں پر بحث کرکے نئے فکری رجحانات کی راہ ہموار کرے۔
دوسری قسم تنقیدی (Critical) سوچ کی ہے۔ یہ زرا اور گہری سوچ ہے جس میں باریک بینی، دقیقہ رسی مبصّرانہ اور متعرضانہ نظر کے ساتھ موجودہ صورت حال کی بنیادی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بتایا جاتا ہے کہ مستقل کی تصویر پیش کرنے میں موجوہ آگہی کہاں کہاں کمی و بیشی کا شکار ہے جس کو دور کردیا جائے تو ایک نیا مستقبل سامنے ہو۔
تیسری قسم تخلیقی (Creative) سوچ کی ہے۔ جو موجودہ کیفیت یا رجحان میں اضافہ اور توسیع، آمیزش ، کمی بیشی یا تردید و توثیق پر مبنی سوچ نہیں ہے بلکہ موجودہ تصورات کو ٹھکراتے ہوئے بالکل نئے مقصد کی تلاش اور ایک نئے دور کی شروعات انوکھے فکر کا ا?غاز کا نام تخلیقی سوچ ہے۔
تخلیقی سوچ گذرے ہوئے وقت پر بحث و تبصرہ سے بالاتخیل ہوتا ہے۔ شعور کی پرواز اور ایقان کی جست جو وقت کے دھارے سے باہر لے ا?ئے۔ امت مسلمہ کو کسی ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے جو انسانیت کا محور خیال بدل دے۔
تخلیقی سوچ سوچنے کے سائنسی آلات کے استعمال سے بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ جس میں کمپوٹر، Statistics اور Calculus کی مدد سے ایک سے زیادہ منظر نامے بنائے جاسکتے ہیں۔ دنیا کے تمام خطّوں میں جس طرح مستقبل سے وابستہ فکر بیدار کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ جب چند افراد آنے والے کل پر تبادلہ? خیال کرنے بیٹھیں تو ایک کرسی خالی رکھیں۔ یہ کرسی ہماری آنے والی نسل کی ہے۔ اسے اپنے مشوروں میں شریک رکھیں، مسلم دنیا میں بھی اپنے موجودہ انداز فکر کو مستقبل کی نسلوں کے لئے ایک سے زیادہ مستقبلوں اور با مقصد مستقبلوں کو اخذ کرنے کی روش پر لانا، ایک ضروری کام کرنے کا ہے۔ مستقبل کے امکانات کا صرف اظہار اور تذکرہ کر دینے پر بات ختم نہیں ہوتی۔ کرب و بے چینی کا شاعرانہ اظہار اور زندہ ادب تشکیل دنیا کافی نہیں ہے بلکہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اس فکر سے مانوس کرنا بھی ضروری ہے۔ نہ صرف یہ کہ تخیل بنانا ہے، اسے دوسروں تک پہونچانا اور سبھوں کو اس انداز فکر کی افادیت پر راضی کرنا اور ملت انسانیت کے فکری سفر میں شریک کرنا بھی ضروری ہے۔
سوچ کے سائنسی انداز کے بانی دانشوروں کا خیال ہے کہ ہمارے بچے اور آئندہ نسلیں بالکل کھلے تناظر میں ایک سے زیادہ متبادل صورتوں کے انتخاب اور رد و قبول کی آزادی اور اختیار کے ساتھ سوچنے والے بنیں۔ کسی ایک سوچ اور کسی ایک صورتِ حال کے متعدد بتدریجی انکشافات اور تفصیلات کو جاننے، سمجھنے اور مدِ نظر رکھنے اور ان تفصیلات کا خیال رکھتے ہوئے کسی خاص فیصلے کے تمام امکانی اثرات کا جائزہ لے سکنے کا فکری رجحان پیدا کیا جائے۔ اسی لئے ایک مستقبل کی سوچ کے بجائے ایک سے زیادہ ممکن مستقبلوں کی بات کی جائے تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ آج کے فیصلوں میں ذرا ذرا تبدیلیاں لاکر آنے والے وقت کو پسندیدہ نتائج تک پہونچنے کے لئے درمیانی مدت کے اور طویل مدتی لالحہ عمل کس طرح بنائے جاسکتے ہیں۔
چند مثالوں سے اس طریقہ کار کو سمجھایا جاسکتا ہے ایک مثال تازہ الیکشن کرانے کی تکنیک کی ہے۔ ڈیموکریسی میں ہر پارٹی ہر ہر علاقے میں ایک ایک سیٹ جیتنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرتی ہے، کمپوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تمام وارڈوں میں ووٹ دینے والوں کو تعلیمی معیار، تعداد، ان کے ذاتی اور اجتماعی مسائل، تقریر کرنے والے کے لئے عوام کی دکھتی رگوں پر انگلی رکھنے کی ہدایات ان کی تمناؤں اور آرزوں پر پورا اترنے ، ان کے مالی، مذہبی لسانی تقسیم کے ا?نکڑے ذات پات میں بانٹ کر فائدہ حاصل کرنے کے امکانات، اپنی پارٹی کی کمزوریاں اور قوت، مخالف پارٹی کی قوت اور کمزوری والے پوائنٹ سب کمپوٹر کے ذریعہ اور سائنٹفک طریقوں سے سافٹ ویر بناکر بڑے انوکھے انداز میں میڈیا، اشتہار، T.V. ویڈیو اور اخبار میں آنے والی خبروں کی ترتیب کو اس طرح استوار کرنا کہ عین وقت پر پانسہ اپنے حق میں پلٹ سکے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح فلمی اداکار، سیاسی ہستیاں اور اب تو شاعر اور ادیب بھی اپنی عوامی ساکھہ اور پبلک امیج بنانے کے لئے باقاعدہ Consulting کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے لگے ہیں کہ کس طرح کبھی اچھی اور کبھی بری خبریں چھپواکر ہمیشہ خبروں میں رہنا، نئے نئے سافٹ ویر کے استعمال سے عام رائے اپنے حق میں ہموار کرانا، رائے عامہ ہموار کرنے والے ادارے بن گئے ہیں جو بڑی بڑی فیسیں لیتے ہیں کہ کس طرح کسی کو روز مرہ کی گپ شپ کا موضوع بنائے رکھنے اور ماہرین فن سے آپ کی کارکردگی پر اعلیٰ درجے کے تنقیدی مضامین چھپواکر، تبصروں کی بھرمار سے آپ کا قد بلند کرنا، نام آوری کا سامان کرنا ان اداروں کی سروسیز ہیں۔
امریکہ کی Think Tank Industry میں دو ہزار سے زیادہ ادارے ہیں جو دنیا کی آبادی، انڈسٹری، غذا کی پیداوار، آبادی، گھٹتے ہوئے وسائل، زمین پر بسنے والے انسانوں میں علاقائی نابرابری، مال، دولت، وسائل کی تقسیم، مذہبی، لسانی، عورتوں مردوں، بچوں، بوڑھے، جوانوں کے اعدادو شمار۔ نئی ٹیکنالوجی، دہشت گردی روحانی بدحالی، لادینی تہذیب کا ممکنہ زوال، نئی تہذیبوں کے اور اسلام کے عروج کے امکانات، توانائی کے نئے ذرائع وغیرہ لا
تعداد اعدادوشمار اور Parameters پر مبنی سیکڑوں مطالعے کئے جارہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے دنیا 2015 میں انتہائی خراب وقت دیکھے گی۔ کوئی کہتا ہے خطرہ اتنا قریب نہیں کہ صحیح حساب لگایا جاسکے، مگر اتنا دور بھی نہیں کہ بے فکر ہوکر بیٹھے رہیں۔ انھیں اعداد و شمار کو دوسرے اور تیسرے طریقے سے ترتیب دے کر کوئی کہتا ہے کہ کوئی خطرہ نہیں، دنیا اور بہتر ہوجائے گی۔ مگر زیادہ تر کا خیال ہے کہ دنیا کئی رخوں پر اپنی حدود سے تجاوز کرچکی ہے اور اگر موجودہ رویہ جاری رہا تو ہمارے بچوں کی عمر میں ہی Global Collapse عالمی درماندگی کا سامنا ہوجائے گا، دنیا ڈھیر ہوجائے گی، یہ بیچارگی تمام عالم میں ایک ساتھ نہیں ہوگی، مختلف علاقوں میں مختلف وقتوں میں اس کی شروعات ہوگی۔
کل کی فکر ہے تو اس کے لئے آج کچھ کرنا ہے۔ ہمارے اعمال آسمان پر جاتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلے اترتے ہیں۔ تلقین ہے کہ آج کا عمل بدلیں تاکہ اترنے والے فیصلے بدلیں۔ یہ خیال اور یہ ہدایت ہمیں مہہ میز دے۔ اپنا ماحول آلودہ ہونے سے بچائیں، آلودگی کے اثرات سے پہونچنے والے نقصان میں ہمارا بھی حصہ ہے اور ماحول کو آلودہ کرنے میں ہم بھی شریک ہیں۔ اپنے اثاثے بچا کر رکھیں۔ مالی اور فکری اثاثوں کو زنگ نہ لگنے دیں۔
فکری اثاثے بچائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ منفی فکر کو ہمت ہار جانے والے خیالوں کو مثبت سوچوں میں بدلتے رہنے کا انتظام کرتے رہنا، ڈوبتی نبضوں کو سنبھالے رکھنا۔ اس کے لئے سوچ کی پرواز، قوت تخیلہ کی اڑان، دور حاضر کی حقیقتوں کی واقفیت، فکری سوتوں کی آگہی، بدلتے ہوئے وقت کی تیز رفتار تبدیلیوں سے باخبری اور نئی ذہانتوں کو اس تبدیلی کی رفتار سے پیدا ہونے والی پیچیدگی سے نپٹ نے کے لئے تیار رکھنا۔ ہم خیرالامت ہیں۔ ہماری ذمہ داری پوری انسانیت کو سنبھالنے کی ہے۔ اپنی برتری کا احساس ماند پڑنے لگے تو ہم تہذیبی موت مرنے لگتے ہیں۔ اپنی برتری اور اپنی ذمہ داری کا اعلان اپنے ہی منبروں پر کئے جانے سے کچھ نہیں ہوگا، دنیا سے منوانا ہے۔
زمانہ چیلنجوں کا ہے، عام انسان کی قوتِ برداشت کو ارباب اختیار کی حماقتوں سے نپٹنے کا چیلنج سب سے بڑا ہے۔ سوچ ضروری ہے اور ضروری ہے سائنسی انداز میں جدید ا?لات کے استعمال کرتے ہوئے سوچ کے تمام امکانات کا چلن عام کرنا۔(یو این این)
جواب دیں