البتہ اتنا تو طے مانا جارہا ہے کہ اسمرتی ایرانی کی چھٹی ہونے والی ہے اور مودی سے قربت بھی اب کام آتی نہیں دکھائی دیتی۔ حالانکہ ناتجربہ کار اسمرتی کو یہ اہم وزارت بھی مودی کے مہربانی سے ہی ملی تھی ورنہ یہ ایسی وزارت ہے جسے سنبھالنے کے لئے منجھے ہوئے لیڈروں کی تلاش کیا جاتا رہا ہے۔ یوپی اے سرکار میں جہاں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل جیسے بڑے اور تجربہ کارشخص تھے تو اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں اس وزارت کا کام مرلی منوہر جوشی جیسے جہاندیدہ لیڈر کو دیا گیا تھا۔ اس بار وزارت داخلہ، خارجہ، خزانہ ،دفاع کے لئے تو تجربہ کار لیڈروں کو سامنے کیا گیا مگر وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کسی بڑے ارو تجربہ کار لیڈر کو سونپنے کے بجائے اسمرتی ایرانی کو دے دیا گیا۔ اس خبر نے بہتوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ وزارت تعلیم کو بھی اسی کا حصہ بنادیا گیا ہے اور اسمرتی ایرانی ٹھیک سے ہائی اسکول بھی پاس نہیں ہیں۔ ان کی تعلیمی ڈگریوں پر سوال اٹھتے رہے ہیں جن کے جواب دینابی جے پی کے لئے مشکل رہا۔ اصل میں اس اہم وزارت کو انھیں دینے کے پیچھے وزیر اعظم سے ان کی قربت کا دخل تھا۔حالانکہ آر ایس ایس ملک کے تعلیمی سسٹم میں بدلاؤ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ کسی ایسے آدمی کو وزیر کے طور پر چاہتا ہے جو اس کے ایجنڈے کو دانشمندی اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھا سکے۔ اسمرتی ایرانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تعلیم اور تجربے کی کمی کے سبب ٹھیک طریقے سے وزارت کے کام کاج کو بھی نہیں سمجھ پاتی ہیں۔ وہ اب تک اپنے کام کاج کے تعلق سے کبھی چرچے میں نہیں رہیں بلکہ پچھلے دنوں جب بی جے پی قومی مجلس عاملہ کی مٹینگ چل رہی تھی تو وہ گوا کے فیب انڈیا مال میں خریداری کرنے گئیں جہاں
عورتوں کے ٹرائل روم میں انھوں نے خفیہ کیمرہ پکڑا اور میڈیا کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میڈیا نے قومی مجلس عاملہ کی مٹینگ کوکم ہائی لائٹ کیا اور اسمرتی ایرانی کے معاملے میں زیادہ توجہ دیا۔
آرایس ایس خوش نہیں یا بات کچھ اور ہے؟
خبر ہے کہ اسمرتی ایرانی کے کام کاج کے طور طریقوں اور فیصلوں کو لے کر جہاں ایک طرف وزارت میں غصہ ہے، وہیں دوسری طرف ان سے آرایس ایس بھی خاصا خفا ہے۔سنگھ اور پارٹی کے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی وزارت میں کام نہیں ہو رہا، فیصلے نہیں لئے جا رہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وزارت کے تحت آنے والے تمام اداروں میں اعلی سطح پر عہدے خالی پڑے ہیں، لیکن اس بارے میں حکومت کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا پا رہی۔ذرائع کے مطابق سنگھ کی قومی مجلس عاملہ آل انڈیا ایوان نمائندگان نے ایرانی کے خلاف ناراضگی ظاہر کی ہے۔ مودی حکومت کی سب سے مشہور وزیر اسمرتی ایرانی ہمیشہ سے اپنے کام کاج کے طریقوں کی وجہ سے بحث میں رہی ہیں لیکن اب ان کے کام کاج کا طریقہ ان کے لئے ہی پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ ایسے میں مرکزی وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل کو جلد ہی اس ناراضگی کا خمیازہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔چرچا گرم ہے کہ جلد ہی ان کی وزارت بدل سکتی ہے اور انھیں کوئی غیر اہم وزارت مل سکتی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں خبر گرم ہے کہ کئی وزراء اس اہم وزارت کے لئے کوشاں ہیں مگر اس وزارت کی ذمہ داری دلی سے الیکشن جیتے ڈاکٹر ہرشوردھن کو مل سکتی ہے جو ابھی بھی مرکز میں وزیر ہیں۔
اسمرتی کے کریئر کی پرواز
اسمرتی ایرانی ٹی وی کے چھوٹے پردے سے نکل کر قومی سیاست کے پردے پر نمودار ہوئی ہیں۔ انھیں سیاست میں بھی اسی امیج کے سبب کامیابی ملی جو کہ ٹی وی کے ذریعے ہندوستانی ناظرین کے ذہنوں میں ثبت ہوچکی تھی۔ اسمرتی ایرانی بنیادی طور پر دہلی کی رہنے والی ہیں اور یہیں ۱۹۷۶ء میں ان کی پیدائش ہوئی۔ اس کم عمری میں انھوں نے کامیابی کی جن منزلوں کو طے کیا ہے ،وہ دوسروں کے مقدر میں کم آتی ہیں۔ تین بہنوں میں سب سے چھوٹی اسمرتی نے ہولی چائلڈ اسکول سے پڑھائی کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس اسکول سے بارہویں پاس کیا ہے حالانکہ ان کا یہ دعویٰ تحقیق طلب ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ انھوں نے مراسلاتی کورس کے ذریعے بی اے تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ان کایہ دعویٰ سوالوں کے گھیرے میں رہا ہے اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ اسمرتی ایرانی نے ماڈل کے طور پر اپنے کرئر کی شروعات کی تھی اور یہاں کامیابی کے بعد انھیں میک ڈونالڈ میں ویٹرس کی جاب ملی تھی۔ وہ مقابلہ حسن میں بھی حصہ لے چکی ہیں اور ۱۹۹۸ء میں ’’مس انڈیا‘‘ کے فائنل تک پہنچی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ یہ مقابلہ جیت نہیں پائی تھیں مگر اب انھوں نے سیاست کا جو مقابلہ جیتا ہے وہ سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے حصے میں نہیں آتا ہے۔انھوں نے سنگر میکا سنگھ کے ساتھ ایک البم بھی کام کیا تھا جس کا عنوان تھا’’ساون میں لگ گئی آگ‘‘۔ اس میں انھوں نے ہیجان انگیز ڈانس کیا تھا مگر ان کے ساتھ دوسری کچھ لڑکیاں بھی تھیں جس کی وجہ سے ان کی پہچان قائم نہیں ہوسکی۔ ۲۰۰۰ء میں انھوں نے اسٹار پلس ٹی وی چینل کے لئے دوسیریل کئے تھے مگر اپنی پہچان قائم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکیں البتہ اسی سال انھوں نے ایکتا کپور کے سیریل ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘
میں لیڈ رول اداکیا اور’’ تلسی‘‘ کے طور پر ان کی پورے ملک میں پہچان بن گئی۔ یہ کامیابی کی ابتدا تھی اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کردار کے لئے انھیں کئی اوارڈ ملے اور اس کے بعد انھوں نے ’’سیتا‘‘ ’’تھوڑی سی زمیں تھوڑا آسماں‘‘ وغیرہ سیریل کئے۔ انھوں نے کچھ سیریل خود بھی پروڈیوس کئے۔ اسمرتی ایرانی نے اپنے کریئر کے ساتھ ساتھ گھر،سنسار سے بھی ناطہ رکھا۔ انھوں نے ۲۰۰۱ء میں زوبین ایرانی نامی ایک بزنس مین سے شادی کی جو پہلے سے ہی ایک بچی کے باپ تھے۔ وہ دو سال کے اندر دوبچوں کی ماں بھی بن گئیں۔ شادی سے پہلے وہ اسمرتی ملہوترا تھیں اور شادی کے بعد اسمرتی ایرانی ہوگئیں۔ حالانکہ ان کے شوہر کو کم ہی ان کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ان کے اہل خاندان کا آرایس ایس سے گہرا رشتہ تھا اور اس ناطے وہ بھی سنگھ کے قریب رہی ہیں۔ ان کے اہل خاندان آرایس ایس اور جن سنگھ کے ممبر رہے ہیں اور اس تعلق نے ان کے سیاسی کریئر کو آگے بڑھانے میں مدد دی۔
اسمرتی کاسیاسی کریئر
۲۰۰۳ء میں اسمرتی یرانی نے سیاست میں قدم رکھا اور بی جے پی جوائن کرلی۔ ایک سال کے اندر انھیں پارٹی کی مہاراشٹر یوتھ ونگ کا نائب صدر بنا دیا گیا۔۲۰۰۴ء میں انھوں نے دلی کے چاندنی چوک علاقے سے کپل سبل کے خلاف لوک سبھا الیکشن لڑا مگر جیت نہیں پائیں۔ حالانکہ اسی سال پارٹی کی اکزیکیٹیو کمیٹی کا انھیں ممبر بنادیا گیا۔ اسی سال انھوں نے لوک سبھا الیکشن میں شکست کے لئے نریندر مودی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تامرگ بھوگ ہڑتال کی دھمکی دی مگر جب پارٹی نے ان کے خلاف ایکشن لینے کی دھمکی دی تووہ خاموش ہوگئیں۔ حالانکہ اس تکرار سے ہی پیار کی شروعات ہوئی۔ جن مودی کے خلاف انھوں نے مورچہ کھولا تھا آج انھیں کی مہربانی سے وہ نہ صرف گجرات سے راجیہ سبھا کی ممبر ہیں بلکہ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال انھوں نے امیٹھی سے راہل گاندھی کے خلاف لوک سبھا کا چناؤ لڑا تھا مگر کامیاب نہیں ہوسکیں مگر اس مقابلے کے سبب چرچے میں رہیں۔
اب کیا ہوگا؟
اسمرتی ایرانی کو سیاسی بلندیان طے کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ دوسرے لوگ پوری زندگی میں جو سفر طے نہیں کرپاتے ہیں ،اسے انھوں نے صرف چند برسوں میں طے کرلیا۔حالانکہ اب لگتا ہے کہ ان سے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل چھن جائے گی اور اس کی جگہ کوئی غیر اہم وزارت دے دی جائی گی۔ اس بارے میں جلد ہی فیصلہ لیا جائے گا مگر یہی کیا کم ہے کہ سینئر لیڈروں کی موجودگی کے باوجود انھیں کابینہ میں جگہ مل رہی ہے۔ ان دنوں وہ اپنے دفتر سے بھی کم ہی رشتہ رکھتی ہیں جس کا سبب یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے محسوس کرلیا ہے کہ ان سے یہ وزارت چھینی جانے والی ہے۔وہ ان دنوں سیر وتفریح میں زیادہ وقت بتا رہی ہیں اور پہلی بار میڈیا نے انھیں ان کے شوہر کے ساتھ دیکھا ہے جو ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ وہ حال ہی میں گھوڑ سواری کرتی ہوئی نظر آئیں، جہاں ان کے شوہر زوبین ایرانی اور بچے بھی تھے۔ بہرحال
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا کرشمہ ہے
جس شاخ پہ بیٹھے ہو، وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
جواب دیں