نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عرب
ایک نوجوان اپنی زندگی سے بہت مایوس اور اداس تھا۔ اس کی زندگی میں رونق اور تازگی نہیں تھی کیونکہ اس کے سامنے کوئی مقصد اور مشن نہ تھا۔ پریشانی کے اسی عالم میں وہ ایک بزرگ کے پاس گیا اور بولا کہ میں اپنی زندگی کا مقصد معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میری مدد کریں۔ بزرگ نے کہا کہ میرے ساتھ چلو، دونوں نکل پڑے۔ بہت دور چلنے کے بعد ایک ندی آئی، جس میں بہت سارے لوگ ریت چھان چھان کر سونا ڈھونڈ رہے تھے، کوئی آدمی گردن تک پانی میں تھا تو کوئی کمر بھر، سارے لوگوں کے ہاتھ میں چھلنی تھی۔
”تین قسم کے لوگ یہاں ہیں۔“ بزرگ نے کہا۔
”کیا مطلب؟“ نوجوان نے تجسس بھری آواز میں پوچھا۔
”پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو ندی میں اترے، چھلنی لی اور ریت چھاننا شروع کیا اور انھیں پہلی ہی بار میں سونا مل گیا، خوش ہوئے، گھر واپس ہوئے اور سونا بیچ کر مالامال ہوگئے۔ اور بقیہ زندگی عیش و آرام سے گزاری۔ دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے بہت سارے لوگوں کو سونا ملتے ہوئے دیکھا ہے، لہٰذا انھیں پورا یقین ہے کہ ندی میں سونا موجود ہے، اس لیے وہ اس امید میں ہے کہ ایک نہ ایک دن انھیں بھی سونا مل جائے گا لہٰذا وہ ریت چھاننے میں مشغول ہیں۔“
”تیسری قسم!“ بے صبری سے نوجوان نے پوچھا۔
”تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے چھلنی لی، ندی میں اترے اور تھوڑے دنوں تک ریت چھانا اور پھر اکتا کر چھوڑ دیا، ہمت ہار بیٹھے کہ انہیں سونا ملنے والا نہیں۔“
نوجوان نے کنفیوزہوتے ہوئے پوچھا: ”اس کا زندگی کے مقصد سے کیا لینا دینا ہے؟“
بزرگ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
”جی ہاں! اس دنیا میں بھی تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جن کو بچپن میں ہی اپنی زندگی کے مقصد کا پتہ چل جاتا ہے کہ انہیں کیا بننا ہے، ان کا کیا شوق ہے اور ان کی کیا جستجو ہے۔ لہٰذا وہ اپنے مقصد کے حصول میں جٹ جاتے ہیں اور کامیابی کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو اپنی خوبصورت سی زندگی کا مقصد اور ہدف معلوم کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ مگر وہ ہمت نہیں ہارتے، بالآخر وہ اپنی زندگی کا مقصد ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پھر کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جن کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انھیں جانا کہاں ہے اور کرنا کیا ہے؟ تھوڑی سی جدوجہد کرنے کے بعد وہ ہمت ہار جاتے ہیں اور پھر کبھی اپنی زندگی کا مشن نہیں ڈھونڈھتے، تم بھی اپنی زندگی کا مقصد اس وقت تک ڈھونڈتے رہو جب تک تمہیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ تم کیونکر پیدا ہوئے۔“
بزرگ کا آخری جملہ نوجوان کے ذہن و دماغ میں گردش کررہا تھا اور دونوں ندی سے واپس ہورہے تھے۔ مقصد کی تعین و تحدید آسان بھی ہے اور مشکل بھی، آسان اس لیے ہے کہ مقصد کے تعین کے بہت واضح طریقہ کار موجود ہیں جن کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور مشکل اس لیے ہے کہ مقصد کا تعین دماغ سوزی اور محنت کا کام ہے جو بہت سارے لوگ نہیں کرپاتے۔
”صحیح طور پر طے شدہ گول اور مقصد آدھی راہ طے کرنے کے مترادف ہے۔“ — زیگ زیغلر مشہور امریکی موٹیویشنل اسپیکرکا قول ہے۔
خواہش اور مقصد میں فرق ہے، ہر آدمی امیر، شہرت یافتہ اور باعزت بننا چاہتا ہے۔ ہر طالب علم اپنے شعبہ میں آسمان کی بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے، آپ کسی بھی بچے سے پوچھیں بیٹا! تمہیں کیا بننا ہے؟ وہ فوراً جواب دے گا: ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب خواہشیں ہیں، تمنائیں ہیں اور آروزئیں ہیں۔ اس کے برخلاف مقصد اور مشن چند خاص نقاط پر مشتمل ہوتا ہے، مقصد کی تعیین و تحدید ہوتی ہے، اسے ناپا اور تولا جاسکتا ہے اور اس کے پروگریس کا معائنہ کیا جاسکتا ہے، اس کے حصول کے امکانات ہوتے ہیں وہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں ہوتا، زمینی حقائق اور موجود وسائل و ذرائع پر مبنی ہوتا ہے، اس کی ابتداء اور انتہا معلوم ہوتی ہے اور یہ طے ہوتا ہے کہ کب تک اس مقصد کو حاصل کرلیا جائے گا۔ اسی کو انگریزی میں Smart Goalsکہتے ہیں۔
میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں، مجھے صحافی بننا ہے، مجھے بہت بڑا آدمی بننا ہے، یہ سب خواہشات، تمناؤں اور آرزوؤں کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ محض خیالات ہیں، جن کی کوئی حیثیت نہیں۔”میں 2025تک یونانی ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرلوں گا۔“ اس قسم کے جملے وعدوں اور عزائم کی فہرست میں داخل ہوجاتے ہیں جو آپ کے عزم مصمم اور پختہ ارادے کی شاہکار ہیں۔ لہٰذا اسمارٹ گولس بنانے کے لیے ہمیں اسمارٹ کی ساری شروط پر اترنا ہوگا۔
کوئی بھی ہدف یا مقصد آپ بنائیں اسمارٹ(SMART)کے میزان پر جانچ کرلیں۔ اگر وہ اس پر صحیح اترتا ہے تو قابلِ تنفیذ ہے نہیں تو کہیں نہ کہیں لغزش اور چوک ہے۔یاد رکھیں بغیر مقصد کے زندگی لاحاصل اور بے سود ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
جواب دیں