سیاسی جملے بازی پر چلنے والی دنیا کی واحد حکومت

وہ میڈیا جو اگر چہ انتخابات کے زمانے میں اور اس کے بعد ایک سال تک بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے گن گایا کرتا تھا، اب اس نے بھی تھوڑی تھوڑی حقیقت پسندی اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔ لہٰذا وہ میڈیا اب مودی اینڈ کمپنی کی گرفت بھی کرنے لگا ہے۔ خواہ ہلکے انداز ہی میں کیوں نہ کر رہا ہو۔ ایسے میں امت شاہ کی بانی کو بی جے پی کے لوگ ستیہ بانی مانیں تو مانیں دوسرے نہیں مان سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس بات پر کافی لے دے ہوئی تھی کہ کالے دھن کی واپسی کے بعد ہر شہری کے بینک اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع ہو جانے کا نریند رمودی کا وعدہ محض ایک سیاسی جملہ تھا۔ اس کے بعد بھی ان کی بہت سی باتوں اور بہت سے فیصلوں پر شدید قسم کی تنقیدیں ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ دہلی انتخابات کے زمانے میں کرن بیدی کو وزیر اعلی کے عہدے کا امیدوار بنانے پر تو خود بی جے پی میں بغاوت ہو گئی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاہ جی نے تجربات سے سبق نہیں سیکھا۔ اسی لیے وہ اب بھی جملہ بازی کرتے رہتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں جس سے ان کی دانشمندی کی پول پھر کھل جاتی ہے۔ فارسی کا ایک مقولہ ہے کہ جب تک انسان کچھ بولتا نہیں ہے اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ ایک بیوقوف شخص جب تک چپ رہتا ہے اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن وہ جیسے ہی منہ کھولے گا اپنی عقلمندی کی اوقات بتا دے گا۔ تقریباً کچھ یہی حال امت شاہ کا بھی ہے۔ اگر ان کے بیانات نکال کر ایک جگہ جمع کر دیے جائیں اور ان کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ بیشتر بیانات ان کی ’’عقلمندی‘‘ کی گواہی دے رہے ہیں۔
اب انھوں نے ایک تقریر میں کہہ دیا ہے کہ اچھے دن پچیس سالوں میں آئیں گے۔ یعنی اگر عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں اچھے دن آئیں تو انھیں پانچ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو ہی جتانا ہوگا اور مودی کو ہی وزیر اعظم بنانا ہوگا۔ اگر ان کا ’’سیاسی جملہ‘‘ والا جملہ شدید تنقید کا ہدف نہ بنا ہوتا تو اچھے دن کے نعرے کے بارے میں بھی وہ یہی کہتے کہ وہ تو ایک سیاسی جملہ تھا۔ اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو لوگ سمجھ رہے ہیں۔ اب جبکہ میڈیا نے اور سیاست دانوں نے امت شاہ کے اچھے دن کی تشریح والے جملے پر گرفت کی تو بی جے پی بچاؤ میں اتر آئی ہے اور یہ کہہ کر ان کا دفاع کر رہی ہے کہ انھوں نے تو یہ کہا تھا کہ رام راجیہ لانے کے لیے پچیس سال درکار ہوں گے۔ رام راجیہ کا لفظ بھی ایک خاص مصلحت کے تحت استعمال کیا گیا ہے۔ بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ جس طرح سے رام کے نام پر پہلے بھولے بھالے ہندووں کو بیوقوف بنایا گیا اب رام راجیہ کے نام پر پچیس سال تک بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال اور استحصال کرنے والی بی جے پی یہ کیسے بھول گئی کہ اس برق رفتار دور میں جبکہ ایک کلک سے پوری دنیا کی سیر کی جا سکتی ہے عوام پچیس سال تک انتظار نہیں کر سکتے۔ جہاں ایک بٹن دبانے سے ایک ہی موضوع پر لاکھوں مضامین ہمارے سامنے بچھ جائیں وہاں کوئی پچیس سال تک کیسے انتظار کر سکتا ہے؟ 
ویسے اگر دیکھا جائے تو نریندر مودی نے پارلیمانی الیکشن سیاسی جملوں ہی پر لڑا تھا۔ ان کے تمام وعدے سیاسی جملے بازی کے سوا کچھ نہیں تھے۔ سو دن میں کالے دھن کی واپسی کا ڈھنڈھورا پیٹا گیا تھا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جتنے بلیک کا پیسہ جمع کرنے والے لوگ ہیں وہ سب کانگریسی ہیں اسی لیے کانگریس اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ لیکن اب چار سو سے زائد دن ہو گئے اور کالے دھن کے بارے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب تو بابا رام دیو بھی اعداد و شمار لگانا بھول گئے۔ حالانکہ الیکشن کے وقت حساب کتاب لگا کر بتایا کرتے تھے کہ اتنے پیسے جمع ہیں اور ان کے آنے کے بعد یہ یہ سہولتیں ملیں گی اور اس طرح پورا ملک پلک جھپکتے ہی امیر کبیر بن جائے گا۔ بد عنوانی کے پیسے کے بل بوتے پر ہندوستان کے ہر شہری کے اکاونٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کا خواب دکھانے والے اب اسے یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ مودی نے جن دھن یوجنا کے تحت زیرو بیلنس سے اکاونٹ کھلوایا لیکن کیا ایک بھی غریب کے اکانٹ میں ایک پیسہ آیا۔ بی جے پی نے سبکدوش فوجیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ون رینک ون پینشن کا لالی پاپ انھیں تھمایا تھا اور یہ جتانے کی کوشش کی تھی کہ کانگریس جان بوجھ کر اسے نافذ نہیں کر رہی ہے۔ لیکن اب جبکہ خود برسر اقتدار آگئی ہے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو رہا ہے۔ انتخابات کے دوران مودی جہاں بھی جاتے یہی کہتے کہ مجھے چوکیدار بنا دو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمھیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ لیکن اب کیا ہے اب وہ پلٹ کر پوچھتے بھی نہیں کہ ہاں بھائی تمھارا کیا حال ہے۔ دس لاکھ کا سوٹ پہنتے ہیں اور پھر اسے چار کروڑ میں بیچتے ہیں۔ دنیا بھر کے دورے کر رہے ہیں۔ ایک سال میں تقریباً ڈیڑھ درجن ملکوں کے دورے کر چکے ہیں۔ ایک وزیر اعظم دیوے گوڑا بھی تھے جنھوں نے صرف دو ملکوں کے دورے کیے۔ نیوز چینل آج تک نے مودی کے دوروں پر ’’سو ساری‘‘ کے عنوان سے بہت اچھا پیس تیار کیا ہے۔ یعنی بد عنوانیوں سے متعلق سوالوں کے جواب دینے اور پارٹی کے اندر اختلافات سے روبرو ہونے سے بچنے کے لیے وہ غیر ملکی دورے کرتے ہیں۔ ایک سال پورے ہونے پر مودی جی اپنی تقریروں میں استاد اور جمورے کے اسٹائل میں عوام سے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ایک سال میں کوئی اسکینڈل ہوا بالکل نہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ منہ چھپائے چھپائے پھر رہے ہیں۔ سیاسی جملے بازی پر ایک بار الیکشن تو جیتا جا سکتا ہے لیکن نہ تو پانچ سال تک عوام کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی پچیس سال تک حکومت کرنے کی بھیک پائی جا سکتی ہے۔ یہ بات مودی جی کو بھی سمجھنی چاہیے، ان کے سارتھی امت شاہ کو بھی اور غرور و تکبر میں مبتلا بی جے پی کے چھٹ بھیا نیتاؤں کو بھی۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے