سیا سی چنگل میں کراہتا ملک کا تعلیمی نظام

انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔ صدر جمہوریہ ہند نے اس بات کا بھی بطور خاص ذکر کیا کہ ایک زمانہ تھا کہ بیرون ملک سے لوگ تعلیم حاصل کرنے یہاں آتے تھے ، اس ضمن میں انھوں نے بہار کی نالندہ یونیورسٹی کی عظمت اور اہمیت کی یاد تازہ کی ۔ اسی بہار میں ابھی کچھ روز قبل ویشالی ضلع کے مہنار اسکول میں میٹرک کے امتحان میں ، پولیس اور اساتذہ کی موجودگی میں، نقل کے لئے پرچی پہنچاتے ہوئے پہلی سے چوتھی منزل تک ٹنگے لوگوں کی ایک تصویر کیا شائع ہوئی، کہ پورے ملک اوربیرون ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ 
ملک گیر سطح پر نیزواشنگٹن پوسٹ اور دوسرے کئی بڑے غیر ملکی اخبارات نے اس تصویر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ انڈیا کے تعلیمی معیار پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا ۔ اس تصویر کی اشاعت سے بدنامی ضرور ہوئی ، لیکن ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے تعلیمی معیار اورانتظام پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 
تصویر کی بیرون ملک کے اخبارات میں اشاعت سے فوری طور پر مرکزی حکومت کو اس معاملہ میں دخل دینا پڑا اور اس نے حکومت بہار سے جواب طلب کیا ۔ امتحان میں اجتمائی نقل اور اس کی شائع ہونے والی تصویر اور رپورٹ پر حکومت بہار کے وزیر تعلیم نے غیر ذّمہ دارانہ بیان پر دیا کہ نقل روکنا حکومت کے بوتے سے باہر ہے۔ اس بیان پر پٹنہ ہائی کورٹ نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے ،سخت نوٹس لیا اور کہا کہ ایسے غیر ذمّہ دار وزیر کو وزارت سے سبکدوش ہو جا نا چاہیے۔ تصویر کی اشاعت ، ہائی کورٹ کی پھٹکار اور پورے ملک میں بہار کے تعلیمی نظام پر اٹھنے والے سوال نے وزیر اعلیٰ بہار کو بھی سخت رخ اپنانے پر مجبورکر دیااور ان کی ہدایت پر انتظامیہ نے میٹرک کے امتحان میں بڑے پیمانے پر اجتمائی نقل کو روکنے کی کوشش کی ،جس میں انتظامیہ کو کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔
حالانکہ امتحانات کے مختلف مراکز میں نقل کی ایسی روایت صرف بہار کی نہیں ہے، بلکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں تقریباََ یہی صورت حال ہے ۔ مہنار امتحان کے مرکز کی چوتھی منزل پر ٹنگے لوگوں کی تصویر کی اشاعت کے چند دن بعد ہی ہریانہ کے اسکول میں نقل کرا رہے لوگوں کی ایسی ہی دیواروں پر ٹنگے لوگوں کی تصویر سامنے آئی۔ جھارکھنڈ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستیں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ ان ریاستوں میں اسکول سے لے کر کالج ، یونیور سٹی اور ریاستی پبلک سروس کمیشن وغیرہ کے امتحانات میں منّا بھائی ، رنجیت ڈان اور تعلیمی مافیا پوری طرح متحرک نظر آتے ہیں ۔ ابھی ابھی اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے مقابلہ جاتی امتحان کے سوالات امتحان سے قبل ہی ایک ایک لاکھ روپئے میں فروخت ہورہے تھے۔ اگر یہ سوالات امتحان سے چند گھنٹے قبل واٹس اپ پر نہیں ڈالے جاتے تو شائد کسی کو پتا بھی نہیں چلتا ۔ 
ملک میں جب سے تعلیم صارفیت کی گرفت میں آئی ہے اور تعلیمی مافیا متحرک ہوئے ہیں۔ اس وقت سے سیاسی مداخلت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے معیار میں بہت تیزی سے گراوٹ درج کی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں سے حکومت کی بے توجہی اور سیاسی مداخلت سے تعلیم کے تاجروں کی چاندی ہو گئی ہے۔ انگلش میڈیم کے نام پر گلی گلی میں اسکول اور دو دو کمروں میں سیاست دانوں اور تاجروں نے اپنے نام پر کا لج کھول کر بچوں کو سنہری خواب دکھا کر ان کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں ۔ ایسے اسکولوں کالجوں میں پاس کرانے کی گارنٹی دی جاتی ہے، جس کے لئے یہ لوگ افسران کو خوش کرکے من مطابق امتحان کے مراکز منتخب کرتے ہیں اور نقل کے بل بوتے طلبہ و طالبات کو پاس کراتے ہیں ۔اسکولوں اور کالجوں میں جب سے صلاحیت اور لیاقت کے بدلے امتحان میں حاصل نمبرات کی بنیاد پر بحالیاں شروع ہوئی ہیں ، نقل کی وبا میں اضافہ ہوا ہے ۔ نیتیش کمار کی حکومت نے برسراقتدار آتے ہی اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کو دیکھتے ہوئے نمبرات کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر اساتذہ کی بحالیاں کی تھیں ۔ بحالی کے بعد جب ان اساتذہ کے اہلیت ٹیسٹ لئے گئے تو بحال کئے گئے زیادہ تر اساتذہ بہت سہل امتحان میں ایک بارنہیں بلکہ بار بار کے امتحان میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسے نا اہل اساتذہ کے متعلق کل ہی پٹنہ ہائی کورٹ نے بہت سخت ناراضگی جتاتے ہوئے ایسے تمام اساتذہ کو ، جو دوبار کی اہلیت ٹیسٹ میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے، انھیں فوری طور پر بر طرف کرنے کی حکومت کو ہدایت دی ہے۔ بحال ہونے والے ایسے اساتذہ کے اسناد بھی جعلی نکل رہے ہیں ۔ اسکول کے ایسے اساتذہ کی اہلیت کا اندازہ اس وقت زیادہ ہوا جب ایک ٹی وی چینل کے کیمرہ کے سامنے اساتذہ نے مہینہ ، دن اور کئی پھلوں کے انگریزی نام کی اسپیلنگ ہی بدل کر رکھ دئے، مثلاََآم Mengo ہو گیا ، او ر بچے جھوم جھوم کر غلط اسپیلنگ کے ساتھ انگریزی کے الفاظ یاد کر رہے ہیں ۔ ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق ایسے اسکولوں کے پانچویں کلاس کے بچّے، دوسری کلاس کی ہندی اور انگریزی کی کتاب کا کوئی حصّہ نہیں پڑھ پاتے اور معمولی حساب سے بھی ناواقف ہیں ۔ ابتدائی تعلیم کا یہ حال دیکھنے کے بعد اب اعلیٰ تعلیم کے معیار جاننے کے لئے اگر کبھی کسی پی ایچ ڈی کے اوپن وائیوا میں بیٹھ جایئے، تو کچھ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، کہ تحقیقی مقالہ نگار اپنی تھیسس کے چیپٹر بھی نہیں پڑھ پاتا ہے ۔ پھر بھی پیروی (رشوت) پر وہ ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک کیمسٹری کے ڈاکٹر کی تقرری جب پٹنہ ویمنس کالج جیسے بڑے اور اہم کالج میں ہوئی اور وہ اپنی جوائننگ رپورٹ بھی انگریزی میں صحیح نہیں لکھ سکے ، تو وہاں کی پرنسپل نے چانسلر
( گورنر) سے رابطہ کر صاف کہہ دیا کہ ایسے ’مہان ‘ استاد کو وہ اپنے کالج میں جوائن کرانے سے قاصر ہیں ۔ اسی طرح کے کچھ وائس چانسلروں اور پرنسپلوں کی بحالیوں کے خلاف بہار کے (سابق) گورنر دیوانند کنور کو زبردست ذلّت کا سامنا کرنا پڑا تھا ، یہاں تک کہ جب یہ اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرنے آئے، تب ممبر اسمبلی جیوتی نے بھرے ہاؤس میں ان پر الزام لگایا تھا کہ آپ نے رشوت لے کر یہ بحالیاں کی ہیں ۔ جواب میں گورنر مسکراتے رہے اور جلد ہی بڑے بے آبرو ہو کر ان کی ،گھر واپسی صدر مملکت نے کر دی ۔ اتر پردیش کے سابق مرکزی وزیر صحت رشید مسعود تعلیمی بدعنوانی میں ہی پارلیامنٹ کی رکنیت خارج کئے گئے اور چار سال کی جیل کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ اساتذہ بحالی بد عنوانی میں ملوث ہونے کی پاداش میں اس وقت تہاڑ جیل میں بند ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے (سابق) گورنر رام نریش یادو کو ’ویاپم اسکینڈل‘ میں اپنی گورنری کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے سے ہاتھ بھی دھونا پڑا ۔ پنجاب کے ایک ایس ایس پی ،اپنی جعلی بی اے کی ڈگری کی صفائی میں پٹنہ ہائی کورٹ کا چکر لگا رہے ہیں ۔ 
اس طرح دیکھا جائے تو اوپر سے نیچے تک پورا تعلیمی نظام بد عنوانیوں کی گرفت میں ہے اور مافیا گروہ ملک کی تعلیم پر پوری طرح ہاوی ہے۔ اس امرکا اعتراف ابھی دو روز قبل راجد کے ایک ممبر پارلیامنٹ نے بھی کیا ہے۔ فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر پرکاش جھا نے اپنی ایک فلم ’ آرکچھن ‘ میں ایسے تعلیمی مافیا ؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے امیتابھ بچن کے ذریعہ ایسے گروہ کے خلافآواز بلند کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ طلبہ و طالبات کے مستقبل کو بگاڑنے والی غیر معیاری تعلیم اور بدعنوانیاں آنے والے دنوں میں ملک و قوم کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہیں اور پہنچائیگی، اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے تعلیمی ماحول اور حالات کو دیکھ کرنائب صدر جمہوریہ ہند مسٹر حامد انصاری نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ابھی حالیہ ایک تقریب میں کہا کہ’ ٹائمس ہائر ایجوکیشن رینکنگس یا اکیڈمی رینکنگ آف ورلڈ یونیورسیٹیز میں ٹاپ 200 یونیورسیٹیوں میں ہندوستان کی کوئی بھی یونیورسیٹی شامل نہیں ہے‘ اور اس کے لئے انھوں نے ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے کئی مشورے دئے۔ بیرون ممالک میں تھوڑا بہت ملک کی تعلیم کا وقار رکھنے والی آئی آئی ٹی جیسے تکنیکی اور سائنسی اداروں میں بھی سیاسی مداخلت شروع ہو گئی ہے۔ نتیجہ میں آئی آئی ٹی ، ممبئی کے جوہری سائنسداں انِل کاکوڈکر نے صدر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ۔ اس سے قبل آئی آئی ٹی ، دہلی جیسے نامی تکنیکی ادارہ کے ڈائریکٹر رگھو ناتھ شیو گانوکر بھی سیاسی مداخلت سے خفا ہو کر مستعفی ہو چکے ہیں ۔ ان دونوں معاملوں میں موجو دہ حکومت کو خوب ہدف ملامت بنایا گیا اور سخت احتجاج بھی کیا گیا ۔ 
عالمی سطح پر بھی ملک کے تعلیمی نظام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ UNESCO کے 
inteatioanal institute of education planing study on corruption in education
کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں اپنی ڈیوٹی سے غائب رہنے والے اساتذہ میں انڈیا سرفہرست ہے۔ ایسے غائب رہنے والے اساتذہ کی انڈیا میں تعداد 25% فی صدہے، جبکہ 20 % فی صد غائب رہنے والے اساتذہ میں یوگانڈہ دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈیا میں 25% اساتذہ غیر حاضر رہ کر اپنے ملک کے تعلیمی فنڈ کا 22.5% فی صد ضائع کرتے ہیں ۔ اس عالمی رپورٹ کے اعداد وشمار کے مطابق ریاست بہار میں پانچ میں دو ٹیچر غائب رہتے ہیں ، اتر پردیش کے کل اساتذہ میں ایک تہائی کا تناسب ہے ۔ گجرات اور کیرالہ میں 15% فی صد ہے۔ اس رپورٹ میں دلچسپ بات یہ بتائی گئی ہے کہ ڈیوٹی سے غائب رہنے والے اساتذہ میں شادی شدہ ٹیچر کے مقابلے غیر شادی شدہ کا تناسب زیادہ ہے ۔ یونیسکو کی اس رپورٹ میں انڈیا میں غیر معیاری تعلیم کی وجوہات انتظامی خامیوں ، کم اہلیت کے اساتذہ ، اوربحالی اور تبادلہ میں سیاسی مداخلت نیز امتحانات میں نقل بتایا گیاہے۔ 
اگر ایسے غیر اطمینان بخش اور غیر معیاری تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کی سنجیدہ کوشش مرکزی اور ریاستی حکومتیں بغیر کسی سیاسی مفاد کے اور ملک و قوم کے اہم مقاصد کو سامنے رکھ کر کرتی ہیں ،تو بہت ممکن ہے کہ
بد حال تعلیمی نظام فعال ہو جائے اور بہت تیزی سے گرتے معیار تعلیم پر قد غن لگے ۔ لیکن اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ،اور جس طرح تعلیمی نصاب کو زعفرانی رنگ میں رنگتے ہوئے ، فرقہ پرستی کے زہر کوگھولنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ایسے میں تعلیمی معیار کی بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ 

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے