صرف گیتا ہی کیوں دیگر مذاہب کی تعلیم بھی لازمی کیجیے

جسٹس دوے کی اس خواہش کے دو پہلو ہو سکتے ہیں، اگر اس کو آر آر ایس سے جوڑ کر دیکھا جائے تو بادی النظر میں یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کا مقصد اس ملک کے تعلیمی نظام کا بھگواکرن کرنا ہے، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ گیتا اور مہا بھارت کی تعلیم کو لازمی کر کے ہندوستانی معاشرے کو یکسانیت بخشی جا سکتی ہے یا ہندوتو کے نظریات کو عام کیا جا سکتا ہے تو یہ خواہشیقیناً قابل مذمت ہے۔۔ لیکن ان کے اس بیان کو مذاکرے کے عنوان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی چو طرفہ پامالی سے متفکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل کو اگر شروع ہی سے گیتا اور مہابھارت کی تعلیم دی جائے تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئیگا جس میں انسانی حقوق کی قدر دانی عام ہوگی۔ ہم بھی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ موصوف کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسانیت کی بھلائی کے لئے آنے والی نسلوں کو مذہبی تعلیم دینے کے خواہشمند ہیں، تو اس بات کی تائید و حمایت کی جانی چاہئے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی مذہب نہ دیگر مذاہب کی تضحیک کو جائز قرار دیتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کے افرادسے بغض و عناد رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس نظریہ سے اگر نئی نسل کو گیتا اور دیگر مذہبی کتابوں کی صحیح تعلیم ایمانداری سے دی جائے تو ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک کے لئے یہ ایک نئے باب کی شروعات ہوگی۔ جہاں اخلاقی قدریں پامال نہیں ہوگی ،ہر مذہب والا دوسرے مذہب کی تعظیم کرے گا اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء ہموار ہوگی۔ جب سے جسٹس دوے کی یہ خواہشمنظر عام پر آئی ہے ہندی فلم کے ایک گیت کا مکھڑا بار بار ذہن میں آرہا ہے 
’ کرم کئے جا پھل کی اِچّھا مت کر ائے انسانی؍ جیسے کرم کریگا ویسے پھل دے گا بھگوان ؍ یہ ہے گیتا کا گیان یہ ہے گیتا کا گیان ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر جسٹس دوے گیتا کا یہی گیان لوگوں میں بانٹنا چاہتے ہیں تو بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ کیونکہ یہی تو وہ گیان ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ جو انسانوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک بھگوان ؍ ایشور؍ اللہ بھی ہے جو ہمارے کرموں کو دیکھ رہا ہے اوراس کے پاس ایک دن ہم کو لوٹ کر جانا ہے اور اپنے کرموں کا حساب دینا ہے، یہی وہ احساس جواب دہی ہے جو انسانوں کو ہر برائی سے روکے رکھتا ہے ۔ جس دن یہ احساس دل سے نکل جائے انسان اور حیوان میں کو ئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ اس احساس کے بغیر انسان ہر وہ کام کر جاتا ہے جس کے کرنے سے حیوان بھی پر ہیز کر تا ہے، جیسے کوئی بھیڑیا کسی بھیڑئے کو یا کوئی شیر کسی شیر پر کبھی حملہ نہیں کرتا لیکن یہ خدا فراموش انسان ہی ہے جو ایک انسان پر حملہ کرتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کا حملہ کبھی تلوار اور تریشول سے ہوتا ہے تو کبھی زبان اور بیان سے ہوتا ہے تو کبھی بد گمانی اور عدم اعتماد سے۔ آج کا انسان اگر اللہ ؍ ایشور؍ بھگوان یا گاڈ پر بھروسہ کرنے لگ جائے اور کرموں کا پھل پانے کی امید رکھے تو وہ اپنے آپ کو تمام پاپوں سے روک سکتا ہے۔ اگر یہی مقصد جسٹس دوے کا ہے تو پھر صرف گیتا ہی کا گیان کیوں ؟ ہر مذہب کی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے، اسکولوں میں بچوں کو گیتا کے ساتھ ساتھ، بائبل، قرآن ،گرو گرنتھ اور بودھ گرنتھ بھی پڑھائی جانی چاہئے کہ یہ تمام کتابیں انسان کو انسانیت کا درس دیتی ہیں۔ جسٹس دوے آج سرکاری خدمات پر فائز ہیں وہ مطلق العنان حکمراں تو نہیں بن سکتے کیوں کہ اب مطلق العنانی کا دور ختم ہو گیا ہے لیکن جمہوری طرز حکومت کا حصہ بننے کے لئے وہ بھی اپنے پیش روؤ کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں اور کبھی وزارت تعلیم کا قلمدان بھی سنبھال سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ہماری ان سے درخواست ہے کہ اس نیک مقصد کے لئے گیتا کی تعلیمات کو ضرور عام کیجئے اور اسی کے ساتھ ساتھ وید اور اُپنشدوں کی تعلیم کو بھی عام کیجیئے جس کے بارے میں ایک ہندوبراہمن ،سنسکرت کے ماہرپنڈت وید پرکاش جی نے اپنی کتاب’ کالکی اوتار‘ میں اس بات کو مدلل بحث سے ثابتکیا ہے کہ وید ایک آسمانی صحیفہ ہے اور کالکی اوتار کوئی اور نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ ہیں جن کی پیشن گوئی ویدوں میں کی گئی ہے، ایک اور ہندو پنڈت راجہ رام اور دیگر وِدوانوں نے بھی پنڈت وید پرکاش کے موقف کی تائید کی ہے، اور اسی بات کو مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی کتاب ’ اگر اب بھی نہ جاگے تو ‘ میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے۔ اگر آپ کو یہ موقع ملے اور آپ یہ کام کریں تو یہ پورے ملک کی عوام پر ایک احسان عظیم ہوگالیکن شرط وہی خلوص نیت اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کی ہے کہ اس کے بغیر جو کام ہوگا وہ تعصب اور فرقہ پرستی ہی میں شمار ہوگا۔ 
جسٹس دوے کی اس خواہش کا اظہارہوتے ہی مسلمانوں کے ایک طبقہ کو فطری طور پر تشویش لاحق ہوگئی کہ اب مدرسوں میں ہمارے بچوں کو بھی لازمی طور پر گیتا کے پاٹھ پڑھائے جائیں گے۔ انہیں دین سے دور کر دیا جائیگا اور ان کو خدا نخواستہ مر تد بنا دیا جائے گا۔ انہیں یہ تشویش ہے کہ تعلیم کا بھگوا کرن ہوتے ہی مسلم تہذیب و تمدن ختم ہو جائے گا۔ ان مسلمانوں سے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہمارا ایمان اور عقیدہ اتنا کمزور ہے ؟گیتا کے شلوک پڑھنے سے، انجیل کے درس سننے سے، گرنتھوں کے پاٹھ رٹنے سے،ویدوں کے ادھیائے یاد کرنے سے کیا خدانخواستہ ہمارے بچوں کا ایمان ڈگمگا جائے گا ؟ یا وہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے؟ ہمارے بچوں کو بھی عام طلبہ کیطرح دیگر مذاہب کی تعلیم حاصل کرنا چاہئے تانکہ وہ یہ جان سکے کے ہمارا مذہب فطرت سے کس قدر قریب ہے اور یہ کہ دیگر مذاہب کی بنیادیں کہا ں ہیں؟ مسلمانوں کو اس تعلق سے قطعئی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دیگر مذاہب کی تعلیمات حاصل کرنا ویسے بھی ہر مسلمان کے لئے لازمی ہونا چاہئے تانکہ وقت ضرورت وہ اپنے مذہب کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کر سکیں، حق و باطل کے فرق کو سمجھ سکیں۔ حق اور باطل کے اس تہذیبی معرکہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے طلبہ کو ایسا ماحول مہیا کروائیں کہ وہ باطل کے تھپیڑوں سے پریشان ہونے کی بجائے اس کا مقابلہ کر نے کے قابل ہوجائیں۔ اگر ہمارے طلباء کو شروع سے ہی صحیح دینی تعلیم دی جائے اور اس کے ساتھ وہ دیگر مذاہب کی تعلیم بھی حاصل کریں تو کو ئی وجہہ نہیں کہ وہ باطل نظریات سے متاثر ہو جائے۔ کیونکہ جب حق آجاتا ہے تو باطل مٹ جاتا ہے اور یقیناباطل مٹنے ہی کے لئے ہے۔وقل جا الحق وزھق الباطل، ان الباطل کا ن زھوقا۔(بنی اسرائیل)۔

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے